ہمارے ہاں کورونا کی وبا کو ایک سال ہوچکا ہے مگر ہم نے اِس سے کوئی خاص سبق اب تک نہیں سیکھا۔ ہم نے کب کسی بحران سے کوئی خاص سبق سیکھا ہے؟ یہاں تو قیامت سی قیامت گزر جاتی ہے اور ہمیں ہوش تک نہیں آتا۔ سات عشروں کے دوران بحرانوں نے کب ہمارا تعاقب ترک کیا اور کب ہم نے اُن سے گلو خلاصی کے بارے میں سوچا؟ دنیا شاہد ہے کہ ہم نے بظاہر کسی بھی بحران سے کوئی سبق نہ سیکھنے کی تہیہ کر رکھا ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ ملک دو لخت ہوگیا اور ہم چند برس بعد بھول بھال گئے کہ ایسا بھی کچھ ہوا تھا! کورونا کی وبا کے دوران دنیا بھر میں بہت کچھ بدلا ہے۔ تمام ہی معیشتیں خرابی سے دوچار ہوئی ہیں اور سب سے زیادہ نقصان ہر معاشرے میں نچلے طبقے کو پہنچا ہے۔ عام آدمی پس کر رہ گیا ہے۔ معیشتوں کے بھٹے بیٹھ گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں اربوں افراد شدید متاثر ہوئے ہیں۔ کورونا کی وبا کے شدید منفی اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہ سکا ہے۔ جن ممالک میں صحتِ عامہ کے حوالے سے زیادہ مسائل پیدا نہ ہوئے‘ وہاں بھی معاشی خرابیاں تو بہرحال پیدا ہوئیں۔ اور جہاں معاشی خرابیوں سر اٹھائیں وہاں معاشرتی خرابیاں بھی درشن دیے بغیر نہیں رہتیں۔ یہی سبب ہے کہ رویوں میں قدرے غیر محسوس طور پر پیچیدگی در آئی ہے۔
ایک سال سے بھی زائد مدت سے دنیا کا یہ حال ہے کہ ایک نئی طرزِ زندگی کی طرف گامزن ہے۔ دنیا بھر میں کام یعنی معاشی سرگرمی کے لیے گھر سے زیادہ دور کا سفر نہ کرنے کے حوالے سے شعور پیدا اور بیدار ہوا ہے۔ چھوٹے، کمزور معیشت کے حامل ممالک کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ اپنے آپ کو بدلیں، کوئی ایسی حکمتِ عملی اپنائیں جس کے ذریعے بقا ممکن بنائی جاسکے۔ دنیا بھر میں پسماندہ ممالک کی مشکلات بڑھی ہیں تو اُنہیں کچھ کرنے کی تحریک بھی ملی ہے۔ ایشیا اور افریقا میں متعدد ممالک نے اپنے ہاں ایسی تبدیلیوں کی گنجائش پیدا کی ہے جن کی مدد سے نئی زندگی کی طرف جانا آسان ہو۔ کسی بھی پسماندہ ملک کے لیے ایک بڑا مسئلہ توانائی کے درآمدی بل کو قابو میں رکھنا ہے۔ ایشیا اور افریقا کے کئی پسماندہ ممالک معیشت کو چلانے کے لیے ایندھن درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ ایندھن کے بل میں اُن کا بہت کچھ کھپ جاتا ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ ایندھن کا بل گھٹانے کا اہتمام کیا جائے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہوسکتی ہے کہ لوگوں کو گھروں، دفاتر، دکانوں، ہالز اور دیگر مقامات پر کم سے کم توانائی خرچ کرنے کی تحریک دی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ حرکت پذیری کا گراف نیچے لانے کی کوشش بھی لازم ہے۔ دنیا بھر کروڑوں افراد روزانہ کام پر جانے کے لیے اچھا خاصا فاصلہ طے کرتے ہیں۔ اگر ذاتی سواری ہو تو ایندھن بھی ٹھیک ٹھاک خرچ ہوتا ہے، وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور تھکن بھی سوار ہوتی ہے۔ یہ تھکن کام کرنے کی سکت پر بُرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ پاکستان میں آج بھی لاکھوں افراد روزانہ کام پر جانے کے عمل میں تھک جاتے ہیں اور دن بھر کی تھکن سے چُور ہوکر شام کو گھر واپسی پر مزید تھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ عمل اُن کی زندگی کو دم بدم ضیاع کی طرف لے جارہا ہے۔ ایسے میں قرینِ دانش یہ ہے کہ جو کام گھر بیٹھے آسانی سے کیا جاسکتا ہو اُس کے لیے لوگوں کو یومیہ بنیاد پر نہ بلایا جائے۔ اگر لکھنے پڑھنے کا کوئی کام گھر پر بیٹھ کر بھی کیا جاسکتا ہے تو اُس کے لیے کسی کو موٹر سائیکل پر یا کار میں چالیس پچاس منٹ کا سفر کرکے بلانے کی کچھ ضرورت نہیں۔ اس صورت میں ان کا ایندھن اور وقت ہی نہیں بچے گا بلکہ وہ بے جا تھکن سے بھی محفوظ رہیں گے۔ اِسی طور اگر کسی کو ہفتے میں دو یا تین دن کام کے مقام پر بلانے سے کام چل سکتا ہے تو روزانہ بلانا لازم نہیں۔
زندگی اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے ممالک تیزی سے اپنے مسائل اور ماحول کا جائزہ لے کر امکانات کا اندازہ لگارہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے پاس بھی بیدار ہوکر تبدیلی کے حوالے سے فعال ہونے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا۔ وہ زمانہ اب کہاں کہ کوئی بے عملی کی راہ پر بھی گامزن رہے تو بقا کا سامان کسی نہ کسی طور ہو جاتا تھا۔ دنیا اتنی تیزی سے بدل رہی ہے کہ تبدیل ہوئے بغیر، اپنے لیے امکانات یقینی بنانے کی تگ و دَو کے سوا چارہ نہیں۔ اور کچھ بچا ہو یا نہ بچا ہو، ایمان کی تو یہ ہے کہ اب وقت کے ضائع کرنے یا حالات کے بہتر ہونے کا انتظار کرنے کا آپشن بھی نہیں بچا۔
ایک زمانے سے پاکستان جیسے ممالک سے عالمی مالیاتی ادارے کھیل رہے ہیں۔ اس وقت بھی یہ کھیل جاری ہے۔ ایسے میں جاگنا اور کچھ کرنا لازم ٹھہرا ہے۔ کورونا کی وبا سے پہلے بھی حالات خوش کُن تو نہیں تھے مگر ہاں! افراتفری کی کیفیت نہ تھی۔ کورونا کی وبا نے معاملات کو یکسر الٹ، پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ محض ایک سال کے دوران دنیا بھر کے معاشرے جتنی اکھاڑ پچھاڑ سے دوچار ہوئے ہیں اُتنی اکھاڑ پچھاڑ کا تو کل تک کسی نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔کورونا کی وبا در حقیقت کیا ہے، یہ مسلط ہوئی ہے یا کی گئی ہے، یہ کس کا ایجنڈا ہے اور اس ایجنڈے کا حتمی مقصد کیا ہے ... یہ ساری بحث اپنی جگہ اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ اس شدید بحرانی کیفیت نے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بے لگام انداز کی زندگی بسر کرنے کا وقت بہت حد تک جاچکا ہے۔ نظم و ضبط سے بے نیاز رہتے ہوئے جینا یوں تو ہر دور میں کوئی بہت اچھا آپشن نہ تھا مگر حق یہ ہے کہ آج کی دنیا میں تو اِس کی بالکل گنجائش نہیں رہی۔ جن معاشروں نے ایک سے ڈیڑھ صدی کے دوران خود کو معقول حد تک بدلنے پر توجہ نہیں دی وہ بھی اب مجبور ہیں کہ خود کو بدلیں کیونکہ ایسا کیے بغیر چارہ نہیں۔ سوال صرف استحکام کا نہیں، بقا کا ہے۔ معاشی ڈھانچے تبدیل کرنے کی ضرورت شدید تر ہے۔ معیشتوں کو خاصی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جدید علوم و فنون میں غیر معمولی پیشرفت نے بہت سے شعبوں میں روزگار کے ذرائع محدود تر کردیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف تو لوگ بڑی تعداد میں بے روزگار ہو رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ بھی شدید بے یقینی کا شکار ہیں جن کا روزگار کسی نہ کسی طور سلامت ہے۔ ملازمتیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ایسے میں ہنر مند افراد آزاد حیثیت میں کام کرنے کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ ''سیلف امپلائمنٹ‘‘ کا رجحان تیزی سے پنپ رہا ہے۔ اور اس میں زیادہ فائدہ بھی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ روزانہ کام پر جانے اور طویل فاصلہ طے کرنے کے جھنجھٹ سے نجات مل رہی ہے۔ جو لوگ کسی نمایاں قسم کے ہنر سے بہرہ مند نہیں اُن کے لیے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہنر سیکھنے پر مائل ہوں تاکہ ڈھنگ سے جینے کی گنجائش پیدا کرنا زیادہ دشوار نہ رہے۔
یہ تو ہوئی عمومی سطح‘ بلند ترین سطح پر پس ماندہ ممالک کی حکومتوں کو غیر ضروری اخراجات سے نجات پانے کے لیے تمام ممکن اقدامات کرنا ہیں۔ حکومتوں کو زیادہ متوجہ ہوکر ایسی حکمت ہائے عملی ترتیب دینی ہیں جن کے نتیجے میں معیشت متوازن رہے، کوئی ایک طبقہ زیادہ سبھی فائدے نہ لے اڑے اور عام آدمی کے لیے جینا زیادہ دشوار نہ رہے۔ کورونا کی پشت پر اگر کوئی ناپسندیدہ ایجنڈا ہو تب بھی تبدیلی تو سبھی کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ تو موتی چُور کے لڈو جیسا معاملہ ہے‘ جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ کورونا کی وبا نے ایک بات تو ہمیں ضرور یاد دلائی ہے ‘ کہ اپنے گریبان میں جھانکنا ہی بہترین آپشن ہے۔ دنیا چاہے کچھ بھی کرتی پھرے‘ ہمیں وہی کرنا ہے جو ہمارے لیے موزوں ہو اور ہماری مشکلات کا گراف نیچے لائے۔ گویا ع
اِک نئے دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے
دانش کا تقاضا ہے کہ احتسابِ نفسی کا یہ موقع ضائع نہ کیا جائے۔