اہلِ علم کہتے ہیں کہ زندگی وہی جو ہوش و حواس کے ساتھ بسر کی جائے۔ انسان کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ اِس دنیا میں اُسے کیوں بھیجا گیا ہے اور کس طور جینا ہے۔ مذہبی تعلیمات پر کامل یقین رکھنے والوں کی زندگی میں مقصدیت اور معنویت کی بہت اہمیت ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کوئی برتر ہستی ہے جس نے ہمیں خلق کیا ہے اور وہی ہماری نگرانی بھی کر رہی ہے۔ اچھے اعمال کی جزا ملے گی اور بُرے اعمال کی سزا۔ اور اگر کوئی کسی مذہب کا پیرو نہیں اور اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ کوئی برتر ہستی ہے جو اس کائنات کے نظام کو چلا رہی ہے تب بھی زندگی کے حوالے سے کسی ایسے نظریے سے وابستہ تو ہونا ہی پڑے گا جو زندگی کی مقصدیت کو اجاگر کرتا ہو۔ دنیا میں ایسے لاکھوں افراد ہیں جو کسی مذہب کے پیرو نہیں اور کسی برتر ہستی کے وجود کے قائل نہیں مگر روئے ارض پر اپنے قیام کو کسی واضح مقصد کے تحت رکھنے پر یقین رکھتے ہیں اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فیض پہنچانے کے لیے سرگرداں بھی رہتے ہیں۔ زندگی کا معیار بلند کرنے میں نمایاں ترین کردار فہم کا ہے۔ فہم یعنی یہ سمجھ لینا کہ ہم کون ہیں، یہاں کیوں ہیں، یہاں سے کیا لے کر جانا ہے۔ یہ دنیا کسی کے لیے دائمی نہیں مگر جو کچھ ہم یہاں سوچتے اور کرتے ہیں اُسی کی بنیاد پر یہ طے ہوگا کہ ہمیشہ کی زندگی میں ہمارے لیے کیا ہوگا اور کیا نہیں۔ دنیا کی ساری رنگینی ہمارے لیے اُسی وقت معنویت رکھتی ہے جب یہ طے ہو کہ ہم کسی مقصد کے تحت جیئیں گے یا جی رہے ہیں۔ جب تک کوئی بڑا اور نمایاں مقصد واضح نہ ہو تب تک ہم زندگی کے حُسن میں اضافہ نہیں کر پاتے۔ زندگی کو حقیقی معنوں میں معقول بنانے کے لیے لازم ہے کہ انسان اِس دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ زندگی کا فہم ہی ہمیں منزل تک پہنچانے والی راہ سجھاتا ہے۔ کیا دنیا کو سمجھنا ممکن ہے؟ اس سوال پر اہلِ دانش و فکر نے صدیوں غور کیا ہے اور بہت کچھ بیان کیا ہے۔ دنیا کی حقیقت سے ہر انسان کو باخبر رکھنے کی خاطر اہلِ علم نے بہت سوچا اور لکھا ہے۔ اہلِ فکر اس حوالے سے ذہن کے میدان میں تصورات اور نظریات کے گھوڑے دوڑاتے رہے ہیں۔ صدیوں کی ذہنی کاوشوں کا ثمر آج ہمارے سامنے ہے۔ ہم بہت کچھ پڑھ سکتے ہیں، پڑھے ہوئے کی بنیاد پر سوچ سکتے ہیں۔ ایک پورا شعبہ ہماری راہ نمائی کے لیے موجود ہے۔ یہ شعبہ ہے شخصی ارتقا کا۔ یہ شعبہ عام آدمی کو زندگی کے حقائق سے باخبر رکھنے اور اُسے سوچنے کے قابل بنانے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ شخصی ارتقا کے موضوعات پر لکھنے والوں کی اصلاً کوشش یہی رہتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو، اپنے ماحول اور ماحول سے اپنے ربط کو سمجھے۔ یہ تفہیم کی منزل ہے۔ ماحول کا فہم ہی انسان کو کچھ کرنے کے قابل بناتا ہے۔ جو کچھ ہمارے ماحول میں ہو رہا ہے اُسے نظر انداز کرکے ہم ڈھنگ سے جی نہیں سکتے۔ ماحول کا فہم ہی ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ اپنے لیے کوئی واضح راہ چنیں اور کچھ کرنے کی ٹھانیں۔ معیاری زندگی کی طرف جانے کے لیے اس مرحلے سے گزرنا لازم ہے۔ زندگی کا حقیقی حُسن اس حقیقت میں پوشیدہ ہے ہم اِس دنیا کو سمجھنے کی کوشش کریں، اس حوالے سے سنجیدگی اختیار کریں، دنیا کو سمجھنے میں کامیاب ہونے کی صورت میں اپنے لیے مقاصد کے تعین کے ساتھ ساتھ لائحۂ عمل بھی ترتیب دیں۔
اہلِ دانش کا ہر انسان کو یہ مشورہ رہا ہے کہ سوچے سمجھے بغیر زندگی بسر نہ کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچنے اور سمجھنے ہی سے انسان زندگی کا حق ادا کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ ہمیں زندگی سی نعمت اس لیے نہیں بخشی گئی کہ دنیا اور زمانے کے سمجھے بغیر جیئیں اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی پریشانی سے دوچار کریں۔ جب تک ہم دنیا کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تب تک اپنے لیے کوئی واضح راہ منتخب نہیں کر پاتے۔
فہم یعنی شعور کے ساتھ بسر کی جانے والی زندگی بے سمت نہیں ہوتی۔ جب کوئی پورے شعور کے ساتھ کچھ سوچتا ہے، اپنے لیے کوئی راہ منتخب کرتا ہے تو اُسے اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ منزل کیا ہے، کیسی ہے اور کہاں ہے۔ راہ اور منزل دونوں کا تعین کرنے کی صورت میں انسان اچھی طرح جانتا ہے کہ کب کیا کرنا ہے اور کن باتوں سے بچنا ہے۔ انسان کو اللہ کی طرف سے ذہن اِسی لیے عطا کیا گیا کہ وہ اپنے تمام اہم معاملات میں دانش سے کام لیتے ہوئے ایسی تدابیر اختیار کرے جن سے زندگی آسان تر ہوتی جائے اور بے جا پریشانیوں سے بچنا ممکن ہو۔ بے سوچے جینے کا مطلب اپنے معاملات کو بدحواسی کی نذر کرنا ہے۔ اگر کوئی بڑا مقصد متعین نہ کیا گیا ہو تو زندگی میں واضح خلا رہ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان زندگی تو بسر کرتا ہے مگر اُسے حقیقی مفہوم میں زندگی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جس ہستی نے ہمیں وجود عطا کیا ہے اُسی نے ڈھنگ سے جینے کے آداب بھی سکھائے ہیں۔ یہ اہتمام اس لیے ہے کہ انسان اپنے طور پر بہت کچھ سوچے تب بھی اُس درجے کی منصوبہ سازی نہیں کر پاتا جو لازم ہے۔ ایسے میں کائنات کے خالق کی طرف سے ملنے والی ہدایات کی روشنی میں ایسا لائحۂ عمل تیار کیا جاسکتا ہے جو معاملات کو متوازن رکھنے میں مددگار ثابت ہو۔ کسی بھی کامیاب انسان کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیجیے گا تو اندازہ ہوگا کہ اُس نے سوچے سمجھے بغیر جینے کا آپشن اپنانے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں۔ زندگی کسی بھی درجے میں ایسا معاملہ نہیں کہ اس کے بارے میں سوچنے سمجھنے اور منصوبہ سازی کے مرحلے سے گزرنے کا آپشن نہ اپنایا جائے۔ معمولی سطح پر بسر کی جانے والی زندگی بھی کسی نہ کسی درجے میں ہم سے فہم اور منصوبہ سازی ہی کا تقاضا کرتی ہے۔ نچلی سطح سے اوپر اٹھنے ہی کے لیے نہیں بلکہ نچلی سطح پر بھی ڈھنگ سے جینے کے لیے فہم لازم ہے۔ فہم ہوگا تو ڈھنگ سے جینے کی منصوبہ سازی بھی ممکن ہوسکے گی۔
آج کی دنیا میں ہر انسان انتہائی خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔ ذہنی انتشار نمایاں ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے بدل رہی ہے کہ متوجہ ہوئے بغیر زندگی بسر کرنے والے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہمارے ماحول پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہم بھی الجھتے ہیں اور یہ الجھن ذہنی سطح پر ہوتی ہے۔ فکری ساخت پر منفی اثرات تیزی سے مرتب ہوتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ عمومی حالت میں سوچنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ جو بہت مصروف ہیں وہ فراغت کو ترستے رہتے ہیں اور جنہیں فراغت میسر ہو وہ کچھ اچھا سوچنے کے بجائے محض پریشان ہوکر وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔ یہ مخمصہ بہت سوں کے لیے زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ وہ دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ اپنے وجود کی معنویت پر غور کرنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ ایسے افراد کی زندگی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر سنجیدگی سے سوچنے اور منصوبہ سازی کے ذریعے جینے کو ترجیح نہیں دی۔ اس کا خمیازہ بھی وہ بھگتتے ہیں مگر اِس کے باوجود روش تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ بات اِتنی سی ہے کہ پختہ عادت مشکل سے جان چھوڑتی ہے۔ ہم جن معاملات کو عادات کا حصہ بنالیتے ہیں وہ مرتے دم تک ہمارا خون چوستے رہتے ہیں، ہمیں الجھن میں مبتلا رکھتے ہیں مگر پھر بھی ہم سے اِتنا نہیں ہوتا کہ اُن سے جان چھڑانے پر متوجہ ہوں۔ جب تک ہم تفہیم کی منزل سے نہیں گزرتے تب تک کوئی مقصد طے کرنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ دنیا کو سمجھنے کی اچھی کوشش ہمیں اپنی صلاحیت و سکت سے بھی روشناس کراتی ہے یعنی ہمیں اندازہ ہو پاتا ہے کہ ہم کیا ہیں اور کیا کرسکتے ہیں۔ یوں زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامعنی انداز سے بسر کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ آج کی دنیا ہم سے سوچنے کے عمل سے وابستہ ہونے کا بار بار تقاضا کرتی ہے اور یہ بالکل فطری ہے کیونکہ سب کچھ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ایسے میں نہ سوچنے کا آپشن کسی بھی صورت اختیار نہیں کیا جاسکتا۔