انسان کا عجیب معاملہ ہے۔ کسی میں عقل معمولی درجے پر پائی جاتی ہے مگر وہ کامیاب رہتا ہے اور کسی میں عقل کا اعلیٰ درجہ پایا جاتا ہے مگر اُس کی ناکامیاں دیکھ کر دنیا عبرت پکڑتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کی کوشش میں گھنٹوں بولا جاسکتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی متعدد عوامل کے موزوں ملاپ کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرلینے میں کچھ عار محسوس نہیں ہونی چاہیے کہ کوئی بھی انسان تنِ تنہا کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ اشتراکِ عمل ہی کے ذریعے کوئی بھی انسان کامیابی کی منزل تک پہنچتا ہے، دل کی تشفی یقینی بنانے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ اگر کوئی اچھا مُصور ہے تو کام وہ تنہا کرتا ہے مگر یہ حقیقت کیسے نظر انداز کی جاسکتی ہے کہ اُس نے کسی نہ کسی سے یہ فن سیکھا ہوگا۔ چلئے ہم یہ مان بھی لیں کہ اُس نے کسی سے نہیں سیکھا بلکہ اللہ کا سکھایا ہوا (تلمیذ الرحمٰن) ہے تب بھی یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ وہ اپنے ماحول اور اس کائنات کو دیکھ کر تحریک پاتا ہوگا اور اِس تحریک ہی نے اُسے کچھ کرنے کے قابل بنایا ہوگا۔ ہم یہ بھی مان لیں کہ اُس نے اپنے ماحول یعنی لوگوں اور کائنات میں اللہ کی قدرت کے مظاہر سے بھی تحریک نہیں پائی تب بھی ایک حقیقت ایسی ہے جسے اُس کی کامیابی کے اہم ترین محرک کا درجہ دیے بغیر بات بنے گی نہیں اور تسلیم بھی نہیں کی جائے گی۔ وہ کون سی حقیقت ہے؟ یہ کہ اُس کے فن کو لوگوں نے تسلیم کیا، سراہا اور جو معاوضہ ملنا چاہیے تھا اُس سے نوازا۔ کوئی کتنا ہی بڑا فنکار ہو، کامیابی کے لیے کسی اور حوالے سے دوسروں کا ضرورت مند ہو نہ ہو کم از کم قدر دانی کے معاملے میں تو وہ محتاج ہوتا ہی ہے۔ کامیابی اوّل و آخر اس بات کا نام ہے کہ انسان اپنے رب کا شکر گزار ہو اور ہر اُس انسان کا احسان مند ہو جس نے اُسے کچھ سکھایا ہو، کچھ سیکھنے اور کرنے کی تحریک دی ہو اور اُس کے فن کو سراہا ہو۔ ہم میں سے کوئی بھی نہیں جو دوسروں کی مدد کے بغیر ڈھنگ سے کچھ کرسکے۔ ہر بڑے انسان کی کامیابی کے اسرار و رموز جاننے کی کوشش کیجیے گا تو معلوم ہوگا کہ وہ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی مہربانیوں کا احسان مند ہوتے ہوئے ہی آگے بڑھا ہے۔ اِس دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو خود تو کچھ نہیں کر پاتے مگر اُن کی تھوڑی تھوڑی محنت، توجہ اور ستائش دوسروں کو بھرپور کامیابی کی طرف ضرور لے جاتی ہے۔
کسی بھی شعبے میں بے مثال کامیابی اصلاً اُن کے حصے میں آتی ہے جو پوری تیاری کے ساتھ میدان میں آتے ہیں۔ ہر شعبے کی بہت سی بنیادی باتیں ہوتی ہیں جنہیں جاننا لازم ہے۔ اِن بنیادی باتوں کا علم ہی بتاتا ہے کہ کوئی کامیابی کے لیے کس حد تک سنجیدہ اور پُرعزم ہے۔ مثلاً آواز اچھی ہو تب بھی گانا تو سیکھنا ہی پڑتا ہے اور وہ بھی تمام باریکیوں کے ساتھ۔ ایسا نہ ہو تو انسان کہیں نہ کہیں بہت بڑی ٹھوکر کھاتا ہے۔ آپ نے ایسے کئی اداکار دیکھتے ہوں گے جو خوش شکل بھی ہوتے ہیں اور کام کرنے کی لگن بھی رکھتے ہیں مگر وہ فن کو سیکھنے پر متوجہ نہیں ہوتے جس کے نتیجے میں کنویں کے مینڈک ہوکر رہ جاتے ہیں۔ لکھنے والوں میں سے بھی بہت سوں کا کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ لکھنے کا شوق فطری ہوتا ہے مگر جو کچھ لکھنا ہے اُس میں جان ڈالنے کے لیے مطالعہ لازم ہے۔ بہت سے حوالوں کے ذریعے تحریر کو زیادہ سے زیادہ مستند بنانے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ جو لکھنے والے ایسا کرتے ہیں وہ کامیاب رہتے ہیں۔ جو ایسا نہیں کرتے وہ اپنی باتوں کو دہراتے چلے جاتے ہیں یعنی اُن کی تحریر میں دم نہیں رہتا اور یوں پڑھنے والے اُن کا نام سُنتے ہی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ دوسرے بہت سے فنون میں بھی آپ ایسے لوگوں کو پائیں گے جو برسوں ایک ہی راگ الاپتے رہتے ہیں یعنی یکسانیت سے ''آراستہ‘‘ کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ یوں اُن کے قدر دانوں کی تعداد بھی گھٹتی جاتی ہے۔
بالی ووڈ کی فلم انڈسٹری میں پریش راول فن سے محبت کی انوکھی مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ پریش راول گجرات سے تعلق رکھتے ہیں یعنی گجراتی اُن کی مادری زبان ہے۔ وہ ہندی بھی ''گجراتی زدہ‘‘ لہجے میں بولتے ہیں۔ پہلے وہ گجراتی فلموں میں کام کرتے تھے۔ 1983ء سے انہوں نے ہندی فلموں کا رخ کیا اور پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ ابتدائی دور میں وہ ولن بنے اور پھر کامیڈی کو اپنا بنیادی شعبہ بنالیا۔ زبان کے معاملے میں ناپختہ ہونے کے باوجود وہ ایک اچھے اداکار ہیں کیونکہ اُن کی ٹائمنگ بہت اچھی ہے۔ انہوں نے ڈائیلاگ ڈلیوری اور تاثرات پر غیر معمولی توجہ دی اور اُس کا پھل بھی پایا۔ ہمارے ہاں نور محمد لاشاری کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ وہ بلوچ تھے اور سندھی لہجے میں اردو بولتے تھے مگر پھر بھی وہ خاصے مقبول رہے اور لوگ انہیں بصد شوق دیکھتے رہے۔ سبب اس کا یہ تھا کہ وہ اپنے فن پر متوجہ رہتے تھے اور بھرپور تاثرات اور اچھی ڈائیلاگ ڈلیوری سے لوگوں کو متاثر کرتے تھے۔ سوال صرف صلاحیت اور لگن کا نہیں، تناظر کا بھی ہے۔ کسی بھی شعبے میں وہی کامیاب رہتے ہیں جو اُس شعبے کے پورے ماحول اور اُس کے تقاضوں کو جانتے اور سمجھتے ہیں۔ یہ واقفیت ہی اُنہیں آگے لے جاتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں قدم رکھنے سے پہلے اُس کے بارے میں اچھی طرح جان لینا لازم ہے تاکہ کوئی ٹھوکر نہ لگے۔ لیاقت علی عاصمؔ مرحوم کا شعر ہے ؎
شاعری کرتے مگر سوچ تو لیتے پہلے
دردِ دل ہے کہ نہیں، زخمِ جگر ہے کہ نہیں
عملی زندگی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کسی بھی شعبے میں خود کو آزمانے سے پہلے اچھی طرح دیکھ لینا چاہیے کہ تمام لوازم کا علم ہے یا نہیں۔ اگر آپ نے اداکاری کے شعبے میں کچھ کر گزرنے کی ٹھانی ہے تو پہلے بڑے اداکاروں کے فن کا باریک بینی سے مشاہدہ کیجیے۔ اُن کے چلنے، اُٹھنے، بیٹھنے، چونکنے، برہم ہونے، مطمئن ہونے، مایوس ہوکر بیٹھ رہنے، خوش ہوکر اُٹھ بیٹھنے، شدتِ غم سے نڈھال ہو جانے، پُراعتماد ہوکر ڈٹ جانے کے انداز پر نظر رکھیے۔ یوں آپ بھی اپنے اندر کچھ ایسا پیدا کر پائیں گے جو لوگوں کو پسند آئے۔
فی زمانہ ہر شعبہ انتہائی پیچیدہ ہوچکا ہے۔ مسابقت چونکہ بہت زیادہ ہے اس لیے اُتھلے پانیوں میں تیرنے والوں کے لیے پنپنے کی گنجائش نہیں رہی۔ کامیاب وہی ہو پاتے ہیں جو گہرے پانیوں میں اترنے کا حوصلہ رکھتے ہیں مگر پہلے گہرے پانیوں میں تیرنے کا فن سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہر شعبے میں جدت کا بازار گرم ہے۔ یافت کا گراف بلند کرنے کے لیے لوگ کچھ نہ کچھ نیا کرتے رہتے ہیں۔ شوبز کی دنیا ہی کو دیکھیے۔ اِس میں جدت کا بازار ایسا گرم ہے کہ دیکھتے ہی بنتی ہے۔ یہی معاملہ دوسرے بہت سے فنونِ لطیفہ کا بھی ہے۔ اس وقت کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس میں معمولی محنت سے غیر معمولی کامیابی یقینی بنائی جاسکتی ہو۔ اگر کوئی درزی ہے اور بڑا نام پیدا کرنا چاہتا ہے تو اُسے نئے انداز کے ملبوسات تیار کرنے کا فن سیکھنا ہوگا۔ سادہ سے کپڑے سی کر وہ نام نہیں کما سکتا۔
نئی نسل یہ نکتہ ذہن نشین رکھے کہ آج کسی بھی شعبے میں نام کمانے کے لیے بنیادی شرط ہے اُس شعبے کے بارے میں بنیادی باتوں کا جاننا۔ انسان آگے اُسی وقت بڑھ سکتا ہے جب اُسے راستے کا بھی علم ہو اور آگے بڑھنے کا طریقہ بھی معلوم ہو۔ سوشل میڈیا کی مہربانی سے اب کوئی بھی اپنے شعبے میں رہتے ہوئے سلیبرٹی بن سکتا ہے مگر یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہو جایا کرتا۔ آج ہر شعبہ غیر معمولی کامیابی کے لیے غیر معمولی صلاحیت ہی نہیں، متعلقہ درجے کی محنت بھی طلب کرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ شعبے کے حالات کا بھی علم ہونا چاہیے۔ کامیابی کا کوئی بھی جادوئی فارمولا نہیں ہوا کرتا۔ جو سوچتا ہے اور خود کو تیار کرتا ہے وہ پاتا ہے۔ یہ سب کچھ تال میل سے ہوتا ہے۔ انسان کو اپنے ماحول اور اُس میں رہنے والوں سے ہم آہنگ ہوکر جینا چاہیے۔ جولوگ اس مرحلے سے کامیاب گزرتے ہیں وہی فقید المثال نوعیت کی کامیابی حاصل کر پاتے ہیں۔