رمضان المبارک تو جیسے تیسے سکون سے گزر گیا‘ اب گرمی ہے اور ہم ہیں۔ موسم کی عجیب کیفیت ہے۔ کبھی صرف گرمی پڑتی ہے اور کبھی حبس بھی اس کا ساتھ دینے آ جاتا ہے۔ اہلِ کراچی کا ناطقہ بند ہے۔ سمندری طوفان تو خیر بھارتی ریاست گجرات کی طرف چلا گیا مگر گرمی نے کسی اور طرف کا رخ نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ کم و بیش ایک ہفتے سے کراچی میں ہیٹ ویو جیسی گرمی پڑ رہی ہے۔ موسم کی مہربانی ہے کہ سیاسی سرگرمیوں کی بساط خاصی لپٹ چکی ہے مگر اِس سے بھی ہمارا کیا بھلا ہونا ہے۔ حکومتی سطح پر بے بے بسی و بے چینی پائی جاتی ہے۔ ہر شعبے کا مافیا کھل کر کھیل رہا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی کا گراف ہے کہ بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ لوگ پریشان ہیں۔ دو وقت کی روٹی کا ڈھنگ سے انتظام کرنا بھی جُوئے شیر لانے جیسا ہوگیا ہے۔ عام آدمی کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کرے تو کیا کرے۔ اور جناب! ایک بے چارے عام آدمی پر کیا موقوف ہے، یہاں تو اچھے اچھوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ ملک عجیب دو راہے پر کھڑا ہے۔ ایک تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ملک بار بار کسی نہ کسی دو راہے پر آکر کیوں کھڑا ہو جاتا ہے اور نازک دور سے کیوں گزرنے لگتا ہے۔ خیر! کورونا کی وبا بھی قیامت سی ڈھانے پر تُلی ہوئی ہے۔ ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی پریکٹس کی گئی ہے۔ لوگوں کو بہت کچھ سمجھانے کی کوشش بھی کی گئی ہے مگر کچھ خاص فرق پڑا نہیں۔ کورونا کے مریضوں اور کورونا کے ہاتھوں جاں سے گزرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ چین‘ روس اور یورپ سے منگوائی جانے والی کورونا ویکسین لگانے کا عمل بھی جاری ہے مگر اس کے باوجود صورتِ حال قابو میں نہیں آرہی۔ قابو میں کیوں نہیں آرہی‘ اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں جو اس ملک کی زمامِ کار تھامے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے لیے بہت کچھ بیک وقت ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو موسم کا پیٹرن ہے جو پریشان کن حد تک تبدیل ہو رہا ہے۔ گزشتہ برس کراچی میں جس نوعیت کی موسلا دھار اور طوفانی بارشیں ہوئی تھیں‘ اُن کے بارے میں تو کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ شہر کا بنیادی ڈھانچہ موسم کے پیٹرن میں اس نوعیت کی تبدیلی برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ اگر اِس سال گزشتہ برس کی بارشوں نے اپنے آپ کو دہرایا تو سمجھ لیجیے ہو چکا کام تمام۔ ایک زمانے سے شور مچایا جارہا ہے کہ کراچی میں شجر کاری پر توجہ دی جائے اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ درخت اگانے کی تحریک دی جائے مگر اس طرف توجہ دینے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ شہر بھر میں ہر طرف یا تو کچرا ہے یا پھر مٹی۔ سڑکوں کا حال بُرا ہے۔ گلیوں میں گٹر کا پانی کھڑا رہتا ہے۔ گندے پانی کی نکاسی کا انتظام معقول حد تک نہ کیے جانے کے باعث یہی پانی سُوکھتے سُوکھتے کیچڑ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اِس کے نتیجے میں لوگوں کو کتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔
کراچی میں پانی کی تقسیم کا معاملہ بھی گڑبڑ ہے۔ کہیں روز پانی آتا ہے اور کہیں پندرہ‘ بیس دن میں ایک بار۔ یہ عدم مساوات سال دو سال کا معاملہ نہیں، پچیس تیس سال کا قصہ ہے۔ لوگ شکایت اور احتجاج کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔ شدید گرمی نے مرزا تنقید بیگ کو بھی پگلادیا ہے۔ وہ کہتے ہیں اہلِ کراچی کو کچھ بھی تازہ نہیں مل پاتا، گرمی بھی ملتی ہے تو سڑی ہوئی اور سڑا دینے والی! ہم مئی 2021ء کے آخری عشرے میں ہیں۔ ابھی جون اور جولائی کی گرمی باقی ہے۔ مئی میں لوگوں کو جو کچھ سہنا پڑا ہے اُسے دیکھ کر دلوں میں ابھی سے ہَول اٹھ رہے ہیں۔ خوف کی فضا قائم ہوتی جارہی ہے۔ سوچ سوچ کر ڈر لگتا ہے ع
جب رات ہے ایسی متوالی پھر صبح کا عالم کیا ہو گا!
مرزا تنقید بیگ کہتے ہیں کہ ایک طرف عوام بوکھلائے ہوئے ہیں اور دوسری طرف حکومت حواس باختہ ہے۔ یہ بڑا عجیب مخمصہ ہے۔ عوام جب اپنے مسائل حل کرنے کے لیے حکومت کی طرف دیکھتے ہیں تو اُسے بے حواس پاکر دل تھام لیتے ہیں۔ اور وہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ حکومت کو بہت کچھ ڈلیور کرنا ہے۔ ڈلیور تو وہ اس وقت کرے گی جب برقرار رہ پائے گی۔ ملک کو درپیش مسائل جب حل ہوں گے تب حل ہوں گے، اس وقت تو حکومتی سطح پر برقراری کی، بقا کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ وفاقی کابینہ میں تبدیلی کے نام پر تجربے کیے جارہے ہیں۔ خرابیاں ہیں کہ بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ عوام حیران ہیں کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے کس سے کہیں، کس سے مدد چاہیں۔ عوام کو‘ خدا کے علاوہ‘ اوّل و آخر حکومت کا سہارا اور آسرا ہوتا ہے۔ اس وقت یہ سہارا کسی کام کا نہیں اور یہ آسرا مزید الجھنیں پیدا کرنے والا ہے۔ وزیراعظم صاحب بھی سوچتے تو ہوں گے کہ کہاں پھنس گئے ہیں۔ اِتنے سارے بحرانوں کو پیدا ہونے کے لیے اُنہی کا دورِ حکومت ملا تھا؟ ایک مصیبت ابھی ٹلتی نہیں کہ دوسری آجاتی ہے۔ ایک بحران ابھی خاتمے کی طرف بڑھا بھی نہیں ہوتا کہ دوسرا سامنے کھڑا ملتا ہے۔ ان کو مخمصے میں دیکھ کر اُستاد قمرؔ جلالوی یاد آگئے ؎
دعا بہار کی مانگی تو اِتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو
ابھی اور گرمی پڑنی ہے اور اُس کے بعد مون سون کو بھی آنا ہے۔ یہ دونوں موسم حکومت کے لیے بحرانی کیفیت ہی لائیں گے۔ کورونا کی وبا تو پہلے ہی موجود ہے۔ یہ کم بخت ہر سطح پر لوگوں کے حواس مختل کیے دیتی ہے۔ پہلے کہا گیا کہ لاک ڈاؤن سے کورونا کی روک تھام میں خاصی مدد ملے گی۔ پھر کہا گیا کہ ویکسین آجانے سے کورونا پر قابو پانے میں غیر معمولی حد تک مدد ملے گی۔ اب کورونا ویکسین لگانے کی ملک گیر مہم چلائی جارہی ہے مگر معاملات قابو میں آتے دکھائی نہیں دے رہے۔ بلکہ ضمنی اثرات سے متعلق شکایات بھی سننے کو ملی ہیں۔ شدید گرمی میں جسم ویسے ہی بہت سی خرابیوں کی آماجگاہ بنا ہوتا ہے۔ ایسے میں کورونا ویکسین کے لگائے جانے سے پیچیدگیاں تو بڑھنی ہی ہیں‘ سو بڑھ رہی ہیں۔ حکومت کو اس سال چومُکھی لڑائی لڑنی ہے۔ ایک طرف موسم کی سختیاں ہیں اور دوسری طرف کورونا کی وبا کے ہاتھوں پیدا ہونے والی الجھنیں۔ کورونا کی روک تھام کے نام پر نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن سے بھی کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔ ہاں، حکومت اگر اس بہانے قوم کو ''سمارٹ ٹائمنگز‘‘ کے تحت جینا سکھادے تو بات کچھ بن جائے۔ مہنگائی پر قابو پانا بھی اب حکومت کے بس میں دکھائی نہیں دیتا۔ ہر شعبے پر مافیا کا راج ہے۔ کچھ کاروباری گروپ تو اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ایک ہوچکے ہیں۔ یہ حکومت سے کھلواڑ میں بھی کچھ عار محسوس نہیں کرتے۔ قوم نے متعدد مواقع پر ریاست کی رِٹ کو کمزور پڑتے دیکھا ہے۔ اور پھر حکومت کو اپنے سیاسی مخالفین سے بھی تو بخوبی نمٹنا ہے۔ یہ چوتھا محاذ ہے۔
درپیش چیلنجز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور پھر ہر چیلنج کی شدت بھی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ وزیراعظم صاحب غیر معمولی سنجیدگی اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کی ڈھارس بندھائیں اور فوری طور پر ایسے اقدامات کریں جن سے عام آدمی کو تھوڑا بہت تو فائدہ پہنچے۔ قوم اب تک آس لگائے بیٹھی ہے۔ اگر ایک محاذ پر بھی حکومت قابلِ قبول حد تک کامیاب ہوگئی تو قوم اسے سراہنے میں دیر نہیں لگائے گی۔ کورونا کی وبا نے کئی حکومتوں کا دھڑن تختہ کیا ہے۔ ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ لاک ڈاؤن جیسے سخت فیصلے نے پوری قوم کو الجھنوں سے دوچار کردیا ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چلایا جاسکتا۔ لوگوں سے روزگار چھین کر اُنہیں صحت بخش بھی دی جائے تو ایسی صحت کس کام کی؟ زندگی بچانے کے نام پر زندگی کو ٹھکانے لگایا جارہا ہے۔ یہ ایسا تضاد ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ قوم حکومتی اقدامات کے ٹھوس نتائج اور اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے۔ وزیراعظم اور اُن کی ٹیم کو اس چومُکھی لڑائی کا بڑا حصہ جیتنا ہی ہو گا۔