لوگ بہت کچھ چاہتے ہیں اور یہی نہیں‘ بہت تیزی سے بھی چاہتے ہیں۔ ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ یہ کائنات کا اصول ہے ہی نہیں۔ یہ کائنات مدارج کے تحت چلتی ہے۔ سب سے بڑی مثال ہمارے لیے ہمارے خالق اور رب نے اپنے نبیؐ کے ذریعے پیش کی ہے۔ اللہ نے آپؐ کے ذریعے اپنا آخری یعنی مکمل پیغام درجہ بہ درجہ پہنچایا۔ راتوں رات کچھ بھی نہیں ہوا۔ بعثت کے بعد اللہ کے دین کی تکمیل میں کم و بیش 23 سال لگے۔ یہ مدت منطقی تھی۔ نبیؐ نے صرف پیغام ہی نہیں دیا بلکہ اُس پر عمل کرنے کی بھرپور لگن رکھنے والوں کی ٹیم بھی تیار کی۔ اس ٹیم نے پیغام کو اپنے عمل کے ذریعے بہت سوں تک پہنچایا اور یوں نبیؐ کی حقانیت سب پر واضح ہوتی چلی گئی۔ اللہ کے لیے کیا مشکل تھا کہ ادھر اپنا پیغام اتارتا اور اُدھر سب کو یہ پیغام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمادیتا۔ یہ کائنات اِس طرح نہیں چلتی۔ اللہ نے ہر معاملے کا ایک راستہ رکھا ہے جس پر چلتے ہوئے وہ اپنی منطقی منزل تک پہنچتا ہے۔
ہر قوم کو اُس کی سکت کے مطابق مشکلات ملتی ہیں۔ بیشتر معاملات میں مشکلات اس لیے ہوتی ہیں کہ اُن سے کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ سیکھا جائے‘ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کا ہنر کشید کیا جائے۔ مگر ایسا ہوتا نہیں۔ لوگ مشکلات سے گھبراکر اُن سے نجات حاصل کرنے کے نام پر بے حواس ہو جاتے ہیں اور پھر ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے ہیں جن کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں تو بنتا کام بھی بگڑ جاتا ہے۔ کسی بھی کام کی ابتدا صفر سے ہوتی ہے۔ ہر میچ صفر کے سکور سے شروع ہوتا ہے۔ کسی بیٹسمین نے چاہے 300 رنز کی اننگز کھیلی ہو‘ ابتدا تو صفر ہی سے کی ہوتی ہے۔ یہ حقیقت زندگی کے ہر معاملے پر محیط ہے۔ کوئی دکان دار کسی دن غیر معمولی کامیابی پاتا ہے اور شام کو بہت بڑی رقم لے کر گھر واپس جاتا ہے مگر یہ حقیقت تو اپنی جگہ ہے کہ صبح جب اُس نے دکان کھولی تھی تب وہ صفر پر کھڑا تھا۔
آج کے پاکستان میں عجلت پسندی خطرناک حد تک پنپ گئی ہے۔ لوگ ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں۔ عمومی خواہش یہ ہے کہ کوئی دکان کھولی جائے تو دو چار دن ہی میں ہٹ ہو جائے۔ ایسا ہو بھی سکتا ہے مگر ایسا تو ہزاروں میں کوئی ایک کیس ہوتا ہے اور اُس کی پشت پر بھی غیر معمولی وسائل یا کوئی اور عامل ہوتا ہے۔ بہر کیف‘ یہ عجلت پسندی ہی ہے جو انسان کو اچھائیوں سے دور کرکے بُرائیوں اور خرابیوں سے قریب کردیتی ہے۔ جب کسی کو تیزی سے یا راتوں رات نتائج درکار ہوتے ہیں تب زندگی کا ہر معاملہ تلپٹ ہونے لگتا ہے‘ مسائل منطقی حدود سے آگے نکل کر پیچیدہ تر ہوتے جاتے ہیں۔ اقوامِ عالم کی تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی قوم یا معاشرے نے کبھی راتوں رات تو کچھ بھی نہیں پایا۔ اگر کسی بڑی ریاست نے طاقت کے ذریعے کسی چھوٹی ریاست کو دبوچ کر اپنے میں شامل کر بھی لیا تو اُسے اپنا بنانے اور اُس سے حقیقی استفادہ کرنے میں ایک زمانہ لگا۔ معاشرے صدیوں محنت کرتے ہیں تب کہیں بہتر زندگی بسر کرنے کے امکانات درشن دیتے ہیں۔ اس دنیا میں یہی ہوتا آیا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں البتہ کوئی اور دنیا ہوتی ہے۔ اس ذہنی دنیا میں چونکہ خواہشوں کا زور ہوتا ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ بہت کچھ بہت تیزی سے ہو جائے۔ اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جب غیر ضروری عجلت پسندی دکھائی جاتی ہے تب معاملات تیزی سے خرابی کی طرف جاتے ہیں۔
آج پاکستان کی نئی نسل کو یہ بتانا لازم ہے کہ زندگی کا ہر معاملہ چند منطقی مدارج پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ دنیا کو تو اللہ کے طے کردہ اصولوں کے مطابق ہی چلنا ہے۔ ہمارے لیے بھی فائدے کی بات یہی ہے کہ ہم اللہ کے طے کردہ طریق پر چلتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ عملی زندگی مختلف مدارج پر مشتمل ہوتی ہے اور ہر درجے یا مرحلے کے چند تقاضے ہوتے ہیں۔ ان تقاضوں کو نبھائے بغیر بات نہیں بنتی۔ زندگی توازن اور استحکامِ ِفکر و عمل کا نام ہے۔ دنیا بھر میں جس نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اُن کا ایک بنیادی تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم اللہ کے طے کردہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ کسی بھی معاملے میں بے جا طور پر غیر معمولی نتائج بہت تیزی سے یقینی بنانے کی ہر کوشش بالعموم خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ عمومی سطح پر پاکستان کا یہی معاملہ ہے۔ دنیا بھر میں معیشت اور معاشرت دونوں کا ڈھانچا تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ تبدیلی بہت کچھ سکھا بھی رہی ہے اور بہت کچھ کرنے کی تحریک بھی دے رہی ہے۔ ہمیں آج کی دنیا سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ جن اقوام نے پس ماندگی کو پچھاڑنے میں کامیابی حاصل کی ہے ان سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ کامیاب معاشروں میں کامیاب ادارے نصاب کا حصہ ہوتے ہیں۔ اُن کے قیام اور کارکردگی کی تاریخ پڑھ کر بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت میں اداروں کی تاریخ سے بہت کچھ لیا اور پڑھایا جاتا ہے۔ کاروباری نظم و نسق کی تعلیم میں یہ ایک بنیادی جُز ہے۔ فطری علوم و فنون میں بھی افراد اور شخصیات کی کارکردگی کو مثال بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ اور یہ نکتہ خاص طور پر ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ جس کسی نے بھی کامیابی حاصل کی ہے اُس نے پہلے اپنی ناکامی کو پچھاڑا ہے۔ ابتدائی مراحل میں سبھی کو پیچیدگیوں اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز ہے نہ حوصلہ شکن۔ ابتدا میں سبھی سیکھنے کے مرحلے میں ہوتے ہیں۔ ایسے میں پریشانی کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔
ہماری نئی نسل کو یہ نکتہ ذہن نشین کرانا ناگزیر ہے کہ بے مثال کامیابی دیر سے ملتی ہے اور وہ بھی اچھا خاصا رگڑا لگنے کے بعد۔ جس طور کسی رنگروٹ کو ایک خاص مدت تک مختلف آزمائشی مراحل سے گزار کر معیاری فوجی میں تبدیل کیا جاتا ہے بالکل اُسی طرح بھرپور اور پائیدار کامیابی بھی ایک طویل مدت کے بعد یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ کامیابی کے لیے محنت انتہائی بنیادی اور فطری امر ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ اور محض محنت بھی کافی نہیں۔ ذہانت اور معاملہ فہمی سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ شعبے کے حالات پر بھی نظر رکھنا پڑتی ہے۔ رجحانات کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ بدلتے ہوئے رجحانات کے مطابق ندرت اور جدت یقینی بنانا پڑتی ہے۔ آج زندگی کے تقاضے بہت بدل گئے ہیں۔ ہر شعبے میں غیر معمولی مسابقت پائی جاتی ہے اس لیے لازم ہوچکا ہے کہ ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے۔ ایسے میں کوئی بھی ایسی حکمتِ عملی کارگر ثابت نہیں ہوسکتی جو تمام متعلقہ معاملات کا بغور جائزہ لینے کے بعد مرتب نہ کی گئی ہو اور جس میں عجلت پسندی کا بھی خاصا دخل ہو۔
مسابقت ہر دور میں رہی ہے۔ بھرپور کامیابی کا حصول کبھی آسان نہیں رہا۔ آج اگر کسی بھی شعبے میں نام کمانا آسان نہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ عملی زندگی کا آغاز کرنے والوں کو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔ جو ناگزیر ہے وہ ناگزیر ہی ہے۔ مفر ممکن نہیں۔ جب کسی کو رعایت نہیں ملتی تو آپ کو کیوں ملے گی؟ ذہانت اور محنت دونوں بنیادی اور ناگزیر شرائط ہیں۔ منطقی مدارج سے گزرنا ہی پڑے گا۔ نئی نسل کو یہ نکتہ بھی ذہن نشین کرایا جائے کہ منطقی مدارج سے گزر کر حاصل کی جانے والی کامیابی ہی حقیقی‘ دیرپا اور تسلّی بخش کامیابی ہوتی ہے۔
کورونا کی وباء کے دوران پاکستانی معیشت کو بھی بہت کچھ سہنا پڑا ہے۔ لاک ڈاؤن نے بہت سے دھندوں کی کھٹیا کھڑی کردی ہے۔ مگر یہ بات ذہن نشین رکھی جائے کہ اس صورتحال نے چند نئے شعبے بھی کھولے ہیں۔ نئی نسل اپنے آپ کو اِن نئے شعبوں میں بہتر طریق سے منواسکتی ہے۔ یہ بڑھ کر ساغر ہاتھ میں اٹھانے کا معاملہ ہے۔ بنیادی شرط ہے تحمل۔ معاملات کو منطقی مدارج سے گزرنے دیا جائے۔ غیر ضروری دخل اندازی سے معاملات کی خرابی بڑھ جاتی ہے۔ یوں مطلوب نتائج آسانی سے حاصل نہیں ہو پاتے۔ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں تیزی کی تو غیر معمولی اہمیت ہے‘ غیر ضروری عجلت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں۔