گھر کے لیے بڑے پیمانے کی خریداری کرنے نکلئے اور ذہن میں کچھ خاص نہ ہو یعنی خریداری کے لیے منصوبہ سازی نہ کی گئی ہو تو... جو کچھ ضروری ہو وہ زائد از ضرورت خرید لیا جاتا ہے اور بہت کچھ ایسا بھی خرید لیا جاتا ہے جس کی ضرورت سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ منصوبہ سازی سے گریز کا ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔ کامیاب گھرانے وہ ہیں جو کوئی بھی ایسی چیز نہیں خریدتے جس کی اُنہیں بالکل یا زیادہ ضرورت نہ ہو۔ اگر کچھ خریدنا ضروری بھی ہو تو صرف مطلوب مقدار تک خریدا جاتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ لوگ گھر کے لیے ایک ماہ کا سودا خریدنے نکلتے ہیں تو پرچہ ہاتھ میں ہوتا ہے یعنی طے کرکے گھر سے نکلا جاتا ہے کہ کیا کیا خریدنا ہے اور کتنا خریدنا ہے مگر زندگی کے بارے میں ایسی منصوبہ سازی سے واضح طور پر گریز کیا جاتا ہے۔ زندگی جیسی نعمت کو بروئے کار لانے کے معاملے میں اس قدر بے اعتنائی، بے نیازی اور بیزاری پر مبنی رویہ کیوں؟
زندگی ہم سے قدم قدم پر منصوبہ سازی چاہتی ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم ڈھنگ سے جینے کے معاملے میں مطلوب حد تک سنجیدہ ہوں۔ ایک دور تھا کہ جب ایجادات و اختراعات کا بازار گرم نہ ہوا تھا۔ لوگوں کو بہت کچھ درکار تھا مگر میسر نہ ہو پاتا تھا۔ یوں زندگی کا معیار بلند کرنے میں خاطر خواہ کامیابی یقینی بنانا جُوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرتا تھا۔ چوبیس گھنٹے ڈھنگ سے گزارنا دردِ سر بن جایا کرتا تھا۔ تب کی زندگی تب کے ماحول سے مطابقت رکھتی تھی۔ زندگی میں بہت کچھ نہیں تھا ایسے میں معاملات کا پُرسکون رہنا فطری امر تھا۔ آج معاملات بہت مختلف ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں کا بہت کچھ اب ہماری زندگی کا حصہ نہیں۔ ہم چاہیں تب بھی گزرے ہوئے زمانوں کی طرزِ زندگی بحال نہیں کرسکتے۔ ہر دور اپنے ساتھ بہت سی آسانیاں اور بہت سی مشکلات لے کر آتا ہے۔ ہم کسی بھی اعتبار سے انوکھے نہیں کہ ہمارے معاملے میں فطرت اپنے اصول بدل لے۔ ہمیں بھی آسانیوں اور مشکلات سے اپنا حصہ ملا ہے۔ وقت ہمیں اُس موڑ پر لے آیا ہے جہاں ہر طرف الجھنیں دکھائی دے رہی ہیں۔ سبب اس تبدیلی کا اتنا سا ہے کہ انسان نے تین چار ہزار سال کے تفکر کے نتیجے میں جو کچھ بھی ایجاد یا دریافت کیا ہے وہ اپنی ممکنہ بہترین شکل میں آج ہمارے سامنے ہے۔ بہت کچھ ہے جو ہمارے معمولات کا حصہ ہے مگر پھر بھی ہمیں حیران کیے رہتا ہے۔ کبھی کبھی یہ سب کچھ خواب کا سا معلوم ہوتا ہے۔
گزرے ہوئے زمانوں میں بھی وقت کی اہمیت کو محسوس کیا جاتا تھا مگر تب زندگی آسان تھی اور لوگ وقت کو اپنی مرضی کے مطابق آسانی سے بروئے کار لاتے ہوئے وہ سب کچھ پالیا کرتے تھے جس کی تمنا اُن کے دل میں ہوتی تھی۔ آج معاملہ بہت مختلف ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں بہت کچھ کرنے کے بعد بھی تھوڑا بہت وقت بچ رہتا تھا۔ تب وقت کی وہی کیفیت ہوا کرتی تھی جو آج بھی دیہات میں پائی جاتی ہے۔ دیہی ماحول میں ایسا بہت کچھ نہیں ہوتا جو شہری ماحول میں‘ غیر ضروری طور پر‘ ہوتا ہے۔ شہر میں وقت کے بہت تیزی سے گزرنے کا احساس ہوتا ہے۔
آج کی دنیا میں انسان کو وقت کے حوالے سے غیر معمولی الجھن کا سامنا ہے۔ ہم بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر کر نہیں پاتے۔ وقت دیکھتے ہی دیکھتے گزر جاتا ہے اور ہم دیکھتے اور سوچتے رہ جاتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ آج ہر طرف سے ہمارے حواس پر حملے ہو رہے ہیں۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ اپنی زندگی میں یوں داخل کرچکے ہیں کہ اب اُس سے چھٹکارا پانے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ آج کی زندگی ہم سے بہت سے مطالبات کرتی ہے۔ سب سے بڑا مطالبہ ہے تمام معاملات میں معقول طرزِ فکر و عمل اپنانے کا۔ ہمارے لیے بھی وقت کی یومیہ مقدار اُتنی ہی ہے جتنی گزرے ہوئے زمانوں کے انسانوں کے لیے ہوا کرتی تھی مگر آج معاملہ یہ ہے کہ انسان ابھی سوچ ہی رہا ہوتا ہے کہ وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ حواس کب بے ترتیب ہوکر شدید بدحواسی پیدا کردیتے ہیں۔
فی زمانہ ''سمارٹ‘‘ کی اصطلاح عام ہوچکی ہے۔ یہ اصطلاح ہر اُس معاملے میں استعمال کی جاتی ہے جس میں کم وسائل سے زیادہ کام لینے کا معاملہ ہو۔ سمارٹ فون کو اسی لیے تو سمارٹ فون کہا جاتا ہے کہ اُس میں بہت سی خصوصیات کو یکجا کردیا گیا ہے۔ سمارٹ فون ہمارے وقت کا ضیاع روکتا ہے۔ اب ہر وہ چیز سمارٹ کہلائے گی جو ہمارے وقت کا ضیاع روکے گی اور ہمیں ڈھنگ سے کام کرنے میں معاونت فراہم کرے گی۔ زمانے کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ ہم کم سے کم وسائل میں زیادہ سے زیادہ کام کریں، زندگی کا معیار بلند کریں۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور اور سُود مند بنانے کے لیے سنجیدگی اختیار کی جائے۔ فی زمانہ یہ بھی ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ سنجیدگی کے ساتھ انہماک کی منزل تک پہنچنا اب ایک مشکل مرحلہ اس لیے ہے کہ ماحول میں ہر طرف ایسے معاملات ہیں جو ہمارے انہماک پر خاصی بے رحمی سے اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ ہم بیشتر معاملات میں الجھے ہی رہتے ہیں۔ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے یہ طے کرنا بھی اب ایک بڑے دردِ سر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ سمارٹ زندگی ہماری ناگزیر ضرورت ہے۔ جینا ہے تو اِس طور کہ وقت ضائع ہو اور نہ وسائل۔ جس چیز سے جتنا کام لیا جاسکتا ہے اُتنا کام لینے میں کامیابی ہی سمارٹ زندگی کی ایک تابندہ علامت ہے۔ یہ کہنا آسان ہے اور کرنا بہت مشکل۔ سب سے بڑا مسئلہ حواس پر قابو پانے کا ہے اور پھر کسی بھی چیز کی طلب کو غیر ضروری حد تک بڑھنے سے روکنا بھی تو ہم پر لازم ہے۔ آج کے انسان کو ورغلانے اور اُکسانے والے معاملات بہت ہیں۔ اِن سے پیچھا چھڑانا ہم سے غیر معمولی سنجیدگی کا طالب ہے۔ سمارٹ زندگی ہماری سب سے بنیادی ضرورت ہے۔ یعنی ایسی زندگی جس میں غیر معمولی معاملات یا تو بالکل نہ ہوں یا پھر ایسے درجے میں ہوں کہ ہمیں اُن سے کچھ زیادہ الجھن محسوس نہ ہو۔ اچھا تو یہ ہے کہ آپ دن رات اپنے معمولات پر نظر رکھیں اور کسی بھی مرحلے پر خود کو ڈھیلا نہ چھوڑیں۔ یہ سب کچھ توجہ، سنجیدگی اور منصوبہ سازی کا طالب ہے۔ سوشل میڈیا نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے اور بہت کچھ چھین بھی لیا ہے۔ سوال سوشل میڈیا سے جان چھڑانے کا نہیں بلکہ اُس سے کماحقہٗ استفادہ کرنے کا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماحول کے بوجھ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تین چار صدی پہلے کے انسان کو ہر معاملے میں سہولت اور آسانی میسر تھی۔ وہ کسی بھی شعبے میں علم و فن کے مدارج آسانی سے طے کرتا چلا جاتا تھا۔ آج اگر کسی نے اپنے لیے کوئی شعبہ منتخب کیا ہے تو کچھ پانے یعنی نام بنانے کے لیے اِتنی محنت کرنا پڑتی ہے کہ خون پسینہ ایک ہو جائے۔
سمارٹ زندگی اب کوئی آپشن نہیں، ناگزیر کیفیت ہے۔ وقت اور وسائل کو ضائع ہونے سے بچانا ہے تاکہ دونوں کو مزید اہداف کے لیے بروئے کار لایا جاسکے۔ ہر شعبے کی فقید المثال ترقی نے انسان کی ذمہ داریاں بڑھادی ہیں۔ اب لاپروائی، بے فکری اور بے حسی کی گنجائش نہیں رہی۔ اگر کوئی اپنے آپ کو اب بھی تبدیل نہیں کرتا اور سمارٹ زندگی کی طرف بڑھنے سے گریزاں رہتا ہے تو پست تر معیار کی زندگی بسر کرنے کے لیے تیار رہے۔ وقت کے تقاضے بڑھتے جاتے ہیں۔ سنجیدگی اختیار کرنے اور منصوبہ سازی کے حوالے سے انسان پر غیر معمولی ذہنی دباؤ ہے۔ یہ چاہنے نہ چاہنے کا معاملہ نہیں، جو کرنا ہے وہ کرنا ہی پڑے گا۔ اشیا کی طرح زندگی کو بھی سمارٹ بنائے بغیر معیاری انداز سے جینا ممکن نہیں۔ اکیسویں صدی ہم سے ہر معاملے میں سمارٹ ہونے کا تقاضا کر رہی ہے۔ جب ہم گروسری اور سودا سلف کے لیے بھی باقاعدہ لسٹ مرتب کرتے ہیں تو ایسے میں زندگی کو کس طور نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟