ملک بھر میں کورونا وائرس کے حوالے سے صورتِ حال بہت حد تک معمول پر آتی جارہی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں کورونا کے ہاتھوں وہ تباہی واقع نہیں ہوئی جو بھارت اور چند دوسرے ممالک میں نمایاں ہوئی۔ بھارت کی سی صورتِ حال سے بچنے کی خاطر ہمارے ہاں سختی کی گئی۔ چند ایک سخت اقدامات اس لیے کیے گئے کہ لازم تھے‘ اور کوئی راستہ نہ تھا۔ کورونا وائرس کی وبا اگر بے قابو ہو جاتی تو پاکستان میں انتہائی خطرناک صورتِ حال پیدا ہوسکتی تھی۔ اس بات کا بہت غلغلہ ہے کہ بھارت میں عوام کمزور ہیں اور حکومت طاقتور ہے۔ حکومت یا ریاست کی مشینری کے طاقتور ہونے کے باوجود بھارت میں معاملات کو کنٹرول کرنا بہت حد تک ناممکن رہا۔ معاشرتی تضادات نے بھی معاملات کو خراب کیا۔ کورونا کی وبا ایسی پھیلی کہ پورا ملک بدحواس ہوکر رہ گیا، ریاستی مشینری پر سے بھروسہ ہی اٹھ گیا۔ اس وقت بھی بھارت میں کورونا کے نئے مریضوں کی یومیہ تعداد خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ ریاستی مشینری پر سے دباؤ کم نہیں ہوا۔ لوگوں میں کسی حد تک اعتماد بحال ضرور ہوا ہے مگر مکمل طور پر نارمل زندگی بسر کرنے کی منزل سے وہ اب بھی بہت دور ہیں۔
کورونا کے حوالے سے پاکستان کا معاملہ عجیب رہا ہے۔ تضادات ہیں کہ جان نہیں چھوڑ رہے۔ کورونا کی وبا سے موثر طور پر نمٹنے کے حوالے سے صوبوں کے درمیان جو ہم آہنگی پائی جانی چاہیے ‘وہ دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ ہر صوبہ اپنی مرضی یا ضرورت کے مطابق اقدامات کر رہا ہے۔ وفاق کو اس معاملے میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور اُسے برقرار رکھنے سے بظاہر کوئی غرض نہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مل کر ایک دوسرے کا سوچا جاتا۔ پاکستان سیاسی، نظریاتی، لسانی اور نسلی و ثقافتی تضادات کا گڑھ ہے۔ جب بھی پوری قوم پر کوئی بحرانی کیفیت وارد ہوتی ہے تب یہ تمام تضادات کسی بھوکے عفریت کے مانند جبڑا کھول کر سامنے آجاتے ہیں۔ اس وقت بھی یہی کیفیت ہے۔
کورونا کی وبا کا راستہ روکنے کے لیے پنجاب میں کیے جانے والے اقدامات اور سندھ میں کیے جانے والے اقدامات کے درمیان واضح فرق اور تضاد موجود ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ یہ حکومت سندھ کے دیہی علاقوں سے ملنے والے ووٹوں کی مرہونِ منت ہے اس لیے صوبائی حکومت سارا زور دیہی علاقوں کی ترقی اور بہبود پر دیتی ہے۔ شہری سندھ کو واضح طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ کراچی کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ یہ محض سندھ نہیں بلکہ پورے ملک کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ایک شہر کی بہبود سے پورے ملک کی بہبود جڑی ہے۔ کراچی کو مضبوط بنانے کا مطلب پورے سندھ اور قومی معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔ کراچی کی بہتر حالت معیشتی سرگرمیوں کو تیز کرتی ہے جس کے نتیجے میں صوبائی اور وفاقی حکومت کے محصولات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے باوجود سندھ حکومت کراچی کے معاملات درست کرنے پر توجہ نہیں دے رہی۔ بہت حد تک وفاق نے بھی معاملات کو وعدوں اور دعووں تک محدود رکھا ہے۔
سندھ میں کورونا وائرس کی روک تھام کے نام پر کیے جانے والے اقدامات تضادات کے حامل رہے ہیں۔ کراچی کی سطح پر بھی تضادات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ چند مضبوط اور خوش حال علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں بند رکھنے پر زور دیا جاتا رہا ہے جبکہ (غیر مقامی باشندوں کی اکثریت کی حامل) مضافاتی بستیوں میں سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ شہر کے متمول علاقوں کی دکانیں اور شاپنگ سنٹر بند رکھنے پر زور دے کر ایسا لگتا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کے لیے اضافی آمدنی کا اہتمام کردیا گیا ہے۔ متمول علاقوں میں دکانیں کھولنے کے نام پر پولیس نذرانہ لیتی رہی ہے‘ چند ہوٹل بھی کھلے رہتے ہیں۔ پورا علاقہ بند اور چند دکانیں یا ہوٹل کھلے ہوں تو کچھ اور سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ بعض علاقوں میں کورونا وائرس کی روک تھام کے اقدامات کا نفاذ برائے نام بھی نہیں۔ ان مضافاتی علاقوں میں سبھی کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے اور لوگ کورونا کی زد میں بھی آرہے ہیں۔
یہ بات بھی لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی کہ محض دن کے اوقات میں کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے سے کیا کورونا وائرس کی روک تھام ممکن ہوسکتی ہے؟ وفاقی اور صوبائی حکومت کو ہم آہنگی پر مبنی پالیسی اپنانی چاہیے۔ پورے ملک کے لیے یکساں پالیسی بنائی جائے۔ اگر کچھ مدت کے لیے سب کچھ بند کردینے سے کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام ممکن ہے تو ایسا کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ دن اور رات کے اوقات کی تقسیم نظر انداز کرکے چند روزہ مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا جائے۔ سوال خلوصِ نیت کا ہے۔ یہاں تو مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کا بازار گرم ہے۔ ایسے میں نیت کا اخلاص کہاں سے آئے؟ سب سے بُرا حال تعلیم کے شعبے کا ہے۔ ہر سطح کی تعلیم کے دو برس ضائع کردیے گئے اور اس پر ذرا سی شرمندگی بھی محسوس نہیں کی جارہی ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
دنیا بھر میں تعلیم کا عمل متاثر ہوا ہے مگر اساتذہ اور والدین نے مل کر تلافی کی کوشش کی ہے۔ ہمارے ہاں اب تک تضاد بیانی ہی دم نہیں توڑ رہی۔ قدم قدم پر عملی تضاد منہ چڑا رہا ہے۔ نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات کا معاملہ بھی عجیب رہا ہے۔ نویں کے چار اور دسویں کے دو پرچے لیے جانے ہیں۔ ان پرچوں کے درمیان بھی کئی کئی دن کا وقفہ رکھا گیا ہے۔ اب اس اہتمام کی ضرورت کیا ہے؟
کورونا کی وبا کب تک رہے گی، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں‘ ہم میں اتنی عقل تو ہونی ہی چاہیے کہ اپنا بھلا سوچتے ہوئے پالیسیاں مرتب کریں۔ عالمگیر ایجنڈا چاہے کچھ بھی ہو‘ ہمیں قومی مفادات کسی حال میں نظر انداز نہیں کرنے چاہئیں۔ ایسا کرنے سے ہماری اپنی مشکلات بڑھیں گی، کسی اور کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ پاکستان کی مشکلات پہلے کیا کم تھیں کہ کورونا کی وبا نے آکر مزید قیامت ڈھائی ہے؟ ایک زمانے سے ہمارے مسائل بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے کوئی نہ کوئی بحرانی کیفیت نمودار ہوتی ہے اور پوری قوم کو مزید خلجان میں مبتلا کرکے چل دیتی ہے۔ اشیائے خور و نوش کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔ عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی اب جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا جارہا ہے۔ ہر معاملے میں مافیاز کھل کر سامنے آگئے ہیں اور اپنی مرضی کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ بااثر وڈیروں اور جاگیر داروں نے ہر معاملے کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے۔ تمام فیصلے ذاتی یا گروہی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر کیے جاتے ہیں۔ عام آدمی کے بارے میں سوچنے والے خال خال ہیں۔
کورونا کی روک تھام کے لیے مزید جو کچھ بھی کرنا ہے وہ بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ لاک ڈاؤن سے گریز لازم ہے۔ تضادات پروان چڑھانے سے بھی پرہیز کیا جائے۔ قوم کو بحالی کی ضرورت ہے۔ لاک ڈاؤن کے نام پر پوری معیشت کا تیا پانچا کرنے کا عمل ترک کیا جائے۔ پہلے ہی اچھا خاصا نقصان ہوچکا ہے۔ اگر حکومت اس خرابی کی کوکھ سے کوئی اچھائی نکالنا چاہتی ہے تو پالیسی واضح کرے۔ اگر توانائی کی بچت یقینی بنانے کیلئے پوری قوم کو نئے اوقاتِ کار کا پابند کرنا ہے تو اس فیصلے کو جنگی بنیاد پر نافذ کیا جائے اور قوم پر واضح کردیا جائے کہ رات دیر گئے تک خریداری، آؤٹنگ اور ڈائننگ کا رجحان ترک کریں۔ آن لائن خریداری کو ، منظم، آسان اور کفایتی بنایا جائے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تضادات کو لگام دی جائے۔