"MIK" (space) message & send to 7575

فرصت کا کھیل

فراغت یا فرصت انسان کی انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ منظم انداز سے، کسی نظام کے تحت کام کرنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی ضروری ہے آرام کرنا۔ فرصت کے لمحات انسان کو مزید اور بہتر کام کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ کوئی معترض ہوسکتا ہے کہ جب تک سانس میں سانس ہے تب تک چَین کہاں، آرام کہاں؟ فرصت میں کیا کرنا چاہیے اس کا تو اُس وقت سوچیں جب فرصت میسر ہو۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی تگ و دَو رگوں سے خون نچوڑ لیتی ہے۔ ایسے میں فراغت کیسے پائیں یہ سوچ سوچ کر ذہن کی الجھن بڑھتی جاتی ہے۔ مگر صاحب! یہ بھی محض سوچ ہی ہے‘ ایسا ہے نہیں کہ ہم ہر وقت کام کے بارے میں سوچیں اور کام ہی کرتے رہیں۔ جو کچھ دنیا بھر میں ہوتا ہے وہی ہمارے معاشرے میں بھی ہوتا ہے۔ ہاں! انداز تھوڑا سا مختلف ضرور ہے۔
مصروفیت اور فراغت بنیادی انسانی معاملہ ہے۔ پھر بھی ہر معاشرے میں اس حوالے سے الگ سوچ اور الگ ہی طرزِ عمل پایا جاتا ہے۔ جن معاشروں میں کام سے محبت عام ہے اُن میں لوگ جب بہت کام کرکے تھک جاتے ہیں تب آرام کرنے کا سوچتے ہیں تاکہ دوبارہ کام کرنے کے قابل ہوسکیں۔ بعض معاشروں میں کام سے محبت اب ذہنی مرض کی سی شکل اختیار کرچکی ہے۔ جاپان اس معاملے میں سب سے نمایاں ہے جہاں لوگ کام کرنے کے اتنے عادی ہیں کہ اُن کے لیے ہفتے میں چھٹی کا ایک دن گزارنا بھی سوہانِ روح ہو جاتا ہے! اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ کام کی زیادتی نے اُن کی تمام دلچسپیوں کو کچھ کا کچھ کردیا ہے۔ اُن کی سوچ کام سے شروع ہوکر کام پر ختم ہو جاتی ہے۔ کام کے دَھنّی ہونے کے باعث اب عام جاپانی زندگی سے عمومی سا لطف بھی کشید نہیں کر پاتے۔ زندگی سے بھرپور حَظ کشید کرنے کی اُن کی حِس خطرناک حد تک کمزور پڑچکی ہے۔ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں کام سے محبت کا کلچر اب تک قابلِ رشک تو کیا، اطمینان بخش حد تک بھی پروان نہیں چڑھ سکا۔ عام طور پر نئی نسل کام کے معاملے میں پُرجوش اور جذباتی ہوا کرتی ہے مگر ہمارے ہاں خیر سے نئی نسل بھی اچھی خاصی ٹُھس پائی جاتی ہے۔ کام سے جو رغبت کسی قوم کو بلند کرتی ہے وہ ہمارے ہاں خال خال دکھائی دیتی ہے۔ عمومی سطح پر کام سے محبت کرنے اور اُسے وقت اور توانائی دینے کا چلن بہت کمزور ہے۔ ہم اس معاملے میں انوکھے نہیں‘ اور بھی کئی معاشرے ہیں جن میں کام سے رغبت اور محبت کو کماحقہٗ اہمیت نہیں دی جاتی۔ اب یہ بتانے کی ضرورت تو باقی نہیں رہتی کہ ایسے معاشروں کا حشر بالآخر کیا ہوتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، کوئی بھی معاملہ اُتنا ہی میٹھا ہوتا ہے جتنا گُڑ ڈالا جائے۔ مجموعی طور پر پوری زندگی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اگر آپ کام سے رغبت ظاہر نہیں کریں گے، اُس میں دلچسپی نہیں لیں گے تو آپ کی زندگی میں وہ رنگینی اور دلکشی دکھائی نہیں دے گی جو کام سے محبت کرنے والوں کی زندگی میں دکھائی دیا کرتی ہے۔
پاکستان کے عمومی کلچر میں بہت سی ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں کہ دنیا دیکھے تو حیران رہ جائے اور کچھ سمجھ ہی نہ پائے۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ دنیا بھر میں لوگ کام کرکے تھکتے ہیں تو کچھ دیر آرام کرتے ہیں تاکہ تھکان اتر جائے اور کام کرنے کے لیے مطلوب توانائی بحال ہو جائے۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ بیٹھے بیٹھے تھک جاتے ہیں اور آرام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس تھکن کو دور کرنے کے لیے مزید آرام کرتے ہیں! یہ مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ ہوا۔ اِسی بات کو محترم ظفرؔ اقبال نے بڑے حسین پیرائے میں یوں بیان کیا ہے ؎
وہ دن بھر کچھ نہیں کرتے ہیں، میں آرام کرتا ہوں
وہ اپنا کام کرتے ہیں، میں اپنا کام کرتا ہوں!
جہاں کام سے رغبت کا یہ عالم ہو وہاں انسان کام کے بارے میں کیا سُنے اور کیا سُنائے۔ دنیا سورج کی روشنی سے توانائی کشید کر رہی ہے اور ہم اندھیرے سے بجلی پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں! ویسے پاکستانی معاشرے میں تھکن صرف آرام سے نہیں ہوتی، زیادہ کھانے سے بھی ہو جاتی ہے۔ شادی کی تقریبات میں ایسے اصحاب کو بھی دیکھا گیا ہے جو بہت کھاتے کھاتے رک جاتے ہیں اور مزید کھانے کی فرمائش کیجیے تو جواب ملتا ہے ''بس بھائی، میں تو تھک گیا!‘‘ معاملہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ کام کرنے سے اُتنے نہیں تھکتے جتنے کام نہ کرنے سے تھکتے ہیں۔ یہ ایسا معاملہ ہے کہ ہم دنیا والوں کو سمجھانے نکلیں تو سمجھا بھی نہ پائیں۔ دنیا کو جاپانیوں نے کام کی زیادتی سے متاثر کر رکھا ہے۔ وہ ایک مثال بنے ہوئے ہیں۔ اُن کے ذہنوں میں یہ خوف گھر کرگیا ہے کہ کام نہ کرنے کی صورت میں زندہ رہنا ممکن نہ رہے گا۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ کام نہ کرنے سے کوئی مر نہیں جاتا۔ اگر یقین نہیں آتا تو ہمارے جیسے معاشروں کو بغور دیکھیں!
ہر دور کے انسان کو فرصت کی طلب رہی ہے۔ فرصت کے لمحات انسان کو عجیب سی فرحت بخشتے ہیں۔ ایسے میں ذہنی توانائی بحال ہوتی ہے جو باقی جسم کی توانائی کو بھی بحالی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ دنیا بھر میں آج تک یہی ہوتا آیا ہے۔ فرصت کا حقیقی لطف بھی اُسی وقت محسوس ہوتا ہے جب انسان کام کرتے کرتے تھک جائے بلکہ تھک کر چُور ہو جائے۔ ایسے معاشرے کم ہی ہیں جو کماحقہٗ محنت کرنے سے پہلے ہی شدید تھکن سے چُور ہوکر آرام کی طلب لپکتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں عام پانچ دن ٹوٹ کر کام کرتا ہے اور سُکون کا سانس نہیں لیتا۔ ہفتہ اور اتوار چھٹی ہوتی ہے۔ ہفتے کو مشاغل کی طرف دھیان دیا جاتا ہے۔ اور پھر اتوار کو نیند پوری کی جاتی ہے تاکہ پیر کی صبح بالکل تازہ دم ہوکر کام پر پہنچا جائے۔
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا سے موازنہ کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے لیے ایک الگ ہی دنیا بسائی ہوئی ہے۔ اس دنیا میں سب کچھ ہماری مرضی کے مطابق ہے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے دنیا کیا کرتی ہے اِس سے ہمیں کچھ خاص غرض نہیں۔ ہم تو اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ جب ترجیحات بدل جائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہماری ایک اہم ترجیح اب یہ ہے کہ زیادہ کام نہ کرنا پڑے۔ سوال یہ ہے کہ زیادہ کام نہ کرنے کی صورت میں جو وقت بچتا ہے اُس کا ہم کیا کرتے ہیں، کون سا اچار ڈالتے ہیں۔ کام سے گریز نے فرصت کے لمحات بڑھادیے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ بالکل ٹھیک! ہم اِس کی زندہ اور تابندہ مثال ہیں۔ کام کے بغیر ہی پیدا کی جانے والی فرصت نے ہمیں ایک عجیب و غریب قوم میں تبدیل کردیا ہے۔ کام سے گریز نے وقت کو قتل کرنے کے انوکھے انداز متعارف کرائے ہیں۔ زندگی سی نعمت کو وقت کی ضیاع کی صورت میں غارت کیا جارہا ہے اور اس پر کسی کو دکھ ہے نہ پچھتاوا۔
حقیقی یعنی بدن کو تھکن سے چُور کردینے والی محنت کے بعد میسر ہونے والی فرصت کے دوران جو مشاغل اپنائے جاتے ہیں وہ تمام مشاغل ہمارے ہاں اوقاتِ کار کے دوران اپنائے جانے والے معمول کا حصہ ہیں۔ لوگ دفتر، فیکٹری، دکان یا ٹِھیے پر کام کے دوران بھی اپنے مشاغل سے کنارہ نہیں کرتے۔ کام سے رغبت کا کلچر پنپ جائے تو زندگی کی معنویت اور مقصدیت بڑھ جائے۔ جن معاشروں نے کام سے محبت کرنا سیکھ لیا ہے اُنہی کو معلوم ہے کہ حقیقی فرصت کیا ہوتی ہے اور اِس سے بھرپور حَظ کس طور کشید کیا جاتا ہے۔ وائے ناکامی !کہ ہم نے پوری زندگی کو فرصت کے کھیل میں تبدیل کرلیا ہے اور اس پر بظاہر نازاں بھی ہیں۔ عمر کے ہر گروپ سے تعلق رکھنے والے ہر باہوش و باشعور پاکستانی کو یہ نکتہ یاد رہنا چاہیے کہ فرصت کا مزا صرف اُس وقت ہے جب بھرپور محنت نے جسم کی توانائی کو نچوڑ لیا ہو۔ محنت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تھکن کے بغیر آرام ایسا ہی ہے جیسے بھرے پیٹ پر کھانا کھایا جائے۔ ایسے میں کھانے کا مزا بھی جاتا رہتا ہے اور جسم کا نظام بھی بگڑتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں