کورونا وائرس کی روک تھام کے نام پر دنیا بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہی ہمارے ہاں بھی ہوا ہے۔ ہم نے بھی اس وائرس کے ہاتھوں اچھی خاصی خرابیاں جھیلی ہیں اور مختلف شکلوں میں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ وبا قیامت بن کر آئی ہے۔ بھارت میں جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ باقی دنیا تو بعد میں کچھ سیکھے گی، سب سے پہلے تو ہمیں سیکھنا ہے۔ بھارت جیسے بڑے اور معاشی اعتبار سے مضبوط ملک نے اس وبا کے آگے جس طور ہتھیار ڈالے ہیں وہ بہت ہی الم ناک و عبرت ناک ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر بدحواسی کی لہر ہمیں کہاں لے جاکر دم لے گی۔ کورونا وائرس کا وجود ضرور ہے مگر اُس کے نام پر جو کچھ کیا جارہا ہے اور جو کچھ ہوا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے جواز نہیں رکھتا۔ دنیا بھر میں بدحواسی کے ریکارڈ ٹوٹے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے بھی اس وبا کے ہاتھوں بہت کچھ جھیلا ہے۔ یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ عام آدمی کسی پسماندہ معاشرے کا ہو یا ترقی یافتہ معاشرے کا ... جب کوئی بحران سر اٹھاتا ہے تو ردِعمل یکساں ہوتا ہے یعنی سٹی گم ہو جاتی ہے، بدحواسی دل و دماغ میں ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک ہو یا امریکا جیسا ترقی یافتہ ملک، عوام ایک ہی پیج پر ہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران امریکا میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی شرم ناک ہے۔ یورپ بھی پیچھے نہیں رہا۔ برطانیہ، اٹلی اور فرانس جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی جو کچھ ہوا وہ الم ناک ہی تھا۔ اٹلی میں بزرگ شہریوں کا جو حشر ہوا وہ بھی دنیا نے دیکھا۔ چھوٹے یورپی ممالک نے خود کو بہت حد تک کنٹرول کیا۔
کورونا کی وبا کی روک تھام کے نام پر پاکستان جیسے ممالک میں جو کچھ ہوا وہ ایک دکھ بھری کہانی ہے۔ معیشتوں کا بھٹہ بیٹھ گیا۔ بہت کوششیں کرنے پر بھی ان کمزور ممالک کی حکومتیں عالمی ایجنڈے کے آگے بند باندھنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ اب یہ بات بہت حد تک واضح ہوچکی ہے کہ کورونا وائرس کے مختلف ورژنز اپنی جگہ ایک حقیقت سہی مگر اس وائرس کی آڑ میں بڑی طاقتوں نے اپنی مرضی کا کھیل کھیلا ہے۔ چھوٹے ممالک کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہوئی معیشتوں کی راہ روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور اس میں بہت حد تک کامیابی یقینی بنالی گئی۔ امریکا اور یورپ کے لیے چین، روس اور برازیل سمیت کچھ ممالک کی ابھرتی ہوئی معیشتیں کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں۔ امریکی اور یورپی قیادت کی خواہش ہے کہ کسی بھی طریقے سے تیزی سے ابھرتی ہوئی ان معیشتوں کے آگے بند باندھا جائے۔
بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا واضح طور پر تقسیم ہو جائے۔ امریکا اور یورپ پہلے مرحلے میں تو یہ چاہتے ہیں کہ ترقی پذیر اور پسماندہ معاشروں سے اُن (امریکا اور یورپ) کی طرف نقل مکانی رک جائے۔ ترکِ وطن کا رجحان کمزور کرنے کے لیے سفری پابندیاں لازم ہیں۔ مغرب ایک طرف تو شخصی آزادی اور بنیادی حقوق کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف قومی و علاقائی سلامتی کا ہوّا کھڑا کرکے اپنے ہاں لوگوں کی آمد بھی روکنا چاہتا ہے۔ گویا ایک ٹکٹ میں دو مزے لوٹنے ہیں ع
رِند کے رِند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی
کورونا وائرس کی روک تھام کے نام پر پاکستان جیسے ممالک کو کمزور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔ بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ یہ ممالک اگلے کافی عرصے تک سر نہ اٹھا سکیں۔ ہم عشروں سے مغرب پرفریفتہ ہیں، اُس کے دلدادہ ہیں۔ اُس کی طرف سے ہمیشہ انکار ہی ملا ہے مگر پھر بھی باز نہیں آتے۔ امریکا ہو یا یورپ‘ ہم نے انہیں چین، روس اور دیگر طاقتور ممالک پر ہمیشہ ترجیح دی ہے۔ ایک زمانے سے ہم امریکا اور یورپ کے دائرۂ اثر میں ہیں اور اُن پر پوری تندہی سے عمل بھی کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود ہم اُن کی نظر میں ''پرسونا نان گراٹا‘‘ (ناپسندیدہ شخصیت) ہی ہیں اور رہیں گے۔ بات اِتنی سی ہے کہ ہم نے امریکا اور یورپ کو مقدم رکھ کر صرف خسارے کو گلے لگایا ہے۔ اب ہم کچھ بھی کرلیں، اِن دونوں خطوں کی قیادت کی نظر میں بلند نہیں ہوسکتے۔ اس وقت قومی سطح پر معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کا از سر نو تعین کر رہے ہیں۔ اپنی طاقت میں رونما ہونے والی کمی کے اثرات زائل کرنے کے لیے امریکا اور یورپ چاہتے ہیں کہ باقی دنیا میں زیادہ سے زیادہ خرابی پیدا کی جائے تاکہ کوئی بھی عالمی امور کے حوالے سے کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے قابل نہ ہوسکے۔ چین، روس اور دیگر طاقتور ممالک کو مکمل طور پر غیر مؤثر کرنا تو امریکا کے بس میں ہے نہ یورپ کے مگر ہاں! اُن کی کوشش ہے کہ عالمی سیاست و معیشت پر اُن کا اجارہ قائم رہے اور چین سمیت کوئی بھی قوت فیصلہ کن پوزیشن میں نہ آسکے۔
پاکستانی قیادت کے لیے یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ پاکستان سمیت بہت سے تیسری دنیا کے ممالک کو سفری پابندیوں کے شکنجے میں جکڑنے کا معاملہ اب طشت از بام ہوچکا ہے۔ کورونا ویکسین کی بنیاد ہی پر تفریق اور تقسیم پیدا کی جارہی ہے۔ ایسے میں ہمیں سوچنا چاہیے کہ آگے چل کر ہمارے لیے کیا رہ جائے گا۔ لازم ہے کہ قومی معیشت کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے پر توجہ دی جائے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے نام پر ایس او پیز کی تعمیل سے کچھ بہتری پیدا ہوسکتی ہے تو یہ محض خام خیالی ہے۔ ہم کچھ بھی کرلیں، ہماری راہ روکنے کا سلسلہ جاری ہی رہے گا۔ ڈیڑھ سال سے کورونا وائرس کی روک تھام کے نام پر مغربی ایجنڈا یوں اپنایا گیا ہے کہ اپنے راستے خود مسدود کیے جا رہے ہیں۔ عام آدمی کا حال ویسے ہی بہت بُرا ہے۔ ایسے میں معاشی سرگرمیوں کا معطل کردیا جانا موت کے تازیانے سے کم نہ تھا۔ کروڑوں افراد ڈیڑھ سال سے اپنی صلاحیت و سکت سے کہیں کم کمارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں گھریلو زندگی بھی تلخیوں کی نذر ہوکر رہ گئی ہے۔ معاشی خرابیوں نے معاشرتی الجھنوں کا گراف بھی بلند کردیا ہے۔ عمومی نوعیت کے اضطراب سے شدید نوعیت کے ڈپریشن تک عام آدمی کیلئے امکانات کی بساط لپیٹی ہی جارہی ہے۔ لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کے کاروبار کو خاک چٹادی گئی ہے۔ انفرادی حیثیت میں دس پندرہ لاکھ کی سرمایہ کاری سے چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والوں کی کھٹیا کھڑی ہوگئی ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہیں رکھا جاسکتا۔ بڑی طاقتوں کی ہر شرط تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ کورونا ایس او پیز کے نام پر قومی معیشت کا پہیہ روکنے کا سلسلہ اب روکا جانا چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان ابتدا ہی سے لاک ڈاؤن کے خلاف رہے ہیں۔ سندھ حکومت نے البتہ اس معاملے میں کچھ زیادہ مستعدی دکھائی اور اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ قومی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا کراچی معاشی اعتبار سے مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کے نفاذ کو بھی اپنی کامیابیوں کے کھاتے میں ڈالا ہے۔ کسی چلتے ہوئے کاروبار کو بند کرادینا کامیابی نہیں۔ حقیقی کامیابی یہ ہے کہ عوام کو بہتر حالات کی طرف رواں رکھنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے اور معاملے میں کسی کوتاہی کو برداشت نہ کیا جائے۔ ہم نے جتنا ڈگمگانا تھا‘ ڈگمگا چکے ہیں،اب سنبھلنے کی بات ہونی چاہیے۔ لاک ڈاؤن کے نام پر انتظامی مشینری کے پُرزوں کیلئے کرپشن کی راہ پر گامزن رہنے کی گنجائش اب ختم کی جانی چاہیے۔