"MIK" (space) message & send to 7575

یہ لڑائی پھر کبھی سہی

خطے کا منظر نامہ ایک بار پھر تبدیل ہو رہا ہے۔ امریکا نے افغانستان سے مکمل انخلا کا ایک اہم مرحلہ طے کرلیا ہے یعنی بگرام ایئر بیس خالی کردی گئی ہے۔ بگرام ایئر بیس کا خالی کیا جانا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ طالبان کے لیے کابل اب زیادہ دور نہیں۔ دنیا اس بات کی منتظر ہے کہ معاملات اب کوئی واضح شکل اختیار کریں۔ کئی ماہ سے افغانستان کے معاملات دُھندلکے کی سی کیفیت کے حامل ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہوگا اور حتمی تجزیے میں افغانستان کا بنے گا کیا۔ ایک طرف یہ کہا جارہا ہے کہ طالبان جب تمام معاملات پر متصرف ہو جائیں گے تو قتل و غارت کا بازار گرم کریں گے اور کھل کر انتقام لیں گے۔ دوسری طرف طالبان نے اب تک بڑے پیمانے پر انتقام کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان نیشنل فورسز کے سینکڑوں سپاہی ہتھیار ڈال کر طالبان سے آملے ہیں اور اُن کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ اِدھر ہمارا معاملہ اب تک عجیب رنگ اختیار کیے ہوئے ہے۔ افغانستان میں بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ بھارت نے امریکا کے ایما پر چین کو دبوچنے کی خاطر تشکیل دیے جانے والے اتحاد میں کلیدی کردار ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ایسے میں خطے کے معاملات کا بدلنا فطری امر ہے مگر ہم اب تک جاگے نہیں۔ کچھ تو خوش فہمیاں ہیں اور کچھ غلط فہمیاں۔ اِن دونوں کے بیچ ہم الجھن کی عملی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکا اور یورپ جو کچھ چاہتے ہیں وہ کسی بھی طور ہماری مرضی اور مفاد کا نہیں۔ بات دن کی روشنی کی طرح عیاں ہے کہ جب ہم خود اپنے مفادات کو اولین ترجیح کے درجے میں نہیں رکھیں گے تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ ہمارے بارے میں کچھ سوچے اور ہماری بھلائی کا سامان کرے۔ امریکا نے ''کواڈ‘‘ کے ذریعے بالکل واضح کردیا ہے کہ وہ اس خطے کی جان نہیں چھوڑے گا اور چین کو کمزور کرنے کی خاطر پاکستان اور بھارت کو باہم متصادم رکھنے کی روش بھی کبھی ترک نہیں کرے گا۔ بھارتی قیادت کا معاملہ تو یہ ہے کہ اُس نے آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھ رکھی ہے۔ مغرب چاہتا ہے کہ اُسے چین اور روس کے خلاف استعمال کرے اور پاکستان کو بھی مسلسل اضطراب کی حالت سے دوچار رکھنے کے لیے بروئے کار لائے اور نئی دہلی کے بزرجمہر ہیں کہ کسی بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ اُن کی سمجھ میں اِتنی سی بات نہیں آرہی کہ کسی کے اشارے پر اپنے خطے میں خرابی پیدا کرنے کی راہ پر چلنا قبول کیا تو اپنا گھر بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ پڑوسیوں کے ہاں خرابیاں پیدا ہوں گی تو خود بھارت میں بھی بہت کچھ تبدیل ہوگا، اچھی خاصی اکھاڑ پچھاڑ ہوگی۔
افغانستان میں دوسروں کے ساتھ ساتھ بھارت کا بھی بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ایک زمانے سے بھارتی قیادت افغانستان میں اپنے لیے سٹریٹیجک ڈیپتھ پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ طالبان کو اقتدار سے محروم کرکے کچلنے کے عمل میں اتحادیوں کے ساتھ ساتھ بھارت نے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ سرد جنگ کے زمانے سے افغانستان میں بھارت نواز عناصر رہے ہیں۔ جب تک سوویت یونین نے لشکر کشی نہیں کی تھی تب تک افغانستان اور بھارت کے تعلقات بہت اچھے تھے اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی قیادت نے پاکستان کو افغانستان کے معاملات میں اجنبیت سے دوچار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ جب تک سوویت یونین کی افواج افغانستان پر متصرف رہیں، بھارت حالات سے حَظ اٹھاتے ہوئے مستفید ہوتا رہا۔ جب سوویت افواج نے افغانستان سے بوریا بستر باندھا تب بھارت کے مفادات بھی داؤ پر لگے اور طالبان نے اپنے دور میں بھارت کو گھاس ڈالنا گوارا نہ کیا۔
نائن الیون کے بعد افغانستان میں سب کچھ ایک بار پھر تبدیل ہوگیا۔ پاکستان کے لیے زیادہ گنجائش نہ رہی۔ مغرب کی چھتر چھایا میں بھارت نے ایک بار پھر افغانستان میں اپنے لیے سٹریٹیجک ڈیپتھ پیدا کرنے کا ڈول ڈالا۔ اس کے نتیجے میں افغانستان کے بھارت نواز علاقوں میں بھارتی سرمایہ کاری بڑھی۔ طالبان کو کچلنے کے عمل میں بھارت باضابطہ طور پر تو شریک نہیں ہوا مگر اُس کی پالیسیوں میں یہ نکتہ ضرور شامل رہا کہ کابل میں کوئی ایسی حکومت قائم نہ ہو جو پاکستان کو اولین ترجیح کا درجہ دے۔ یوں طالبان کو اقتدار سے دور رکھنے کے عمل میں بھارت بالواسطہ طور پر ضرور شریک ہوا۔اب جبکہ طالبان ایک بار پھر مضبوط ہوکر ابھرے ہیں اور ملک کے بیشتر معاملات میں فیصلہ کن حد تک متصرف ہونے کی پوزیشن میں آچکے ہیں، بھارتی قیادت کا پریشان ہو اٹھنا حیرت انگیز نہیں۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز اچھی طرح جانتے ہیں کہ اب افغانستان کے طول و عرض میں بھارت مفادات کو مستحکم کرنے کا عمل جاری نہیں رکھا جاسکتا۔ طالبان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ نائن الیون کے بعد کی صورتِ حال میں حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی کے عہدِ صدارت میں افغانستان کے معاملات میں بھارتی کردار کو نظر انداز کر دیں اور نئی ابتدا کریں۔ سفارت کاری کے میدان میں ایک خاص حد تک ہی جایا جاسکتا ہے۔ طالبان نے اب تک یہ عندیہ نہیں دیا کہ وہ انتقام کی طرف جائیں گے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں وہ سب کچھ بھول کر دوستی اور اشتراکِ عمل کی پینگیں بڑھانے کو ترجیح دیں گے۔
افغانستان ایک نئی زندگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک نئے عہد کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ طالبان سے توقع ہے کہ وہ ماضی کی تلخیوں کو یاد رکھنے کے باوجود اپنے حواس پر طاری نہیں ہونے دیں گے اور مستقبل کے بارے میں سوچیں گے۔ ایسے میں یہ دیکھنا بھی بہت اہم ہے کہ اُن کے پڑوس میں کیا ہو رہا ہے۔ امریکا اور یورپ نے بوریا بستر ضرور لپیٹا ہے مگر کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ وہ افغانستان کو اکیلا چھوڑ دیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ امریکا کو فوجی اڈے نہیں دیے جائیں گے۔ امریکا کی طرف سے بیان آیا ہے کہ اُس نے ابھی اڈے مانگے ہی نہیں۔ بہر حال یہ بات بھی حوصلہ افزا ہے کہ وزیر اعظم نے اڈے نہ دینے کا واضح اعلان تو کیا۔ امریکا نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ فضائی کارروائیوں کے لیے قطر اور دیگر مقامات کو بروئے کار لاسکتا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ مخالفین کو نشانہ بنانے کے نام پر افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار رکھنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہمارے لیے یہ بات زیادہ حیرت انگیز نہیں ہونی چاہیے کیونکہ امریکا اور یورپ سے ہمیں یہ توقع تو رکھنی ہی نہیں چاہیے کہ وہ اس خطے کو آسانی سے اِس کے حال پر چھوڑ دیں گے۔ سوال صرف چین کو دبوچنے کا نہیں، بھارت کو بھی ایک خاص حد تک رکھنے کا ہے۔ بھارتی قیادت اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پارہی کہ اُن کے ملک کو چین کے خلاف بروئے کار لاکر امریکا اور یورپ خطے میں عدم استحکام ہی کی راہ ہموار نہیں کر رہے بلکہ چین سے کشیدگی برقرار رکھنے کا سامان بھی کر رہے ہیں۔ اتنی سی بات بھی کسی بھی سمجھ میں نہیں آرہی کہ نہ امریکا یہاں ہے اور نہ یورپ مگر چین، بھارت، پاکستان، افغانستان سب یہیں ہیں اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔اب تمام باتوں سے بڑھ کر اہم ترین سوال یہ ہے کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ ہمارے پڑوس میں بہت کچھ ہو رہا ہے اور بہت کچھ ہونے والا ہے مگر ہم زمینی حقیقتوں کا ادراک نہیں کر پارہے یا پھر بہت کچھ دیکھ کر بھی اَن دیکھا کرنے کی راہ پر گامزن رہنا چاہتے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاملات درست ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ کشیدگی کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ قوم اندورنی اور بیرونی محاذ پر اچھی خاصی درستی کی منتظر ہے۔ سفارت کاری کے میدان میں ہمیں جو کچھ کرنا ہے وہ ہم نہیں کر پارہے۔ پارلیمنٹ اکھاڑے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ منتخب ارکان کی طرزِ فکر و عمل ایسی بچکانہ ہے کہ دیکھ کر شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ قوم منتظر ہے کہ منتخب ایوانوں میں بیٹھے ہوئے اُن کے نمائندے کچھ کریں اور اُدھر معاملات ذاتی مفادات سے شروع ہوکر ذاتی مفادات پر ختم ہو رہے ہیں۔ یہ لڑائی پھر کبھی سہی، فی الحال قومی مفادات کا سوچا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں