"MIK" (space) message & send to 7575

… ہیرا پھیری سے نہ جائے!

امریکا نے افغانستان سے تو جان چُھڑالی ہے مگر خود اس خطے کی جان چھوڑنے کے موڈ میں نہیں۔ طالبان کی مضبوط ہوتی ہوئی پوزیشن نے پورے خطے کو مفت کی پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طالبان کے حوالے سے بلا جواز تشویش بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اصل تشویش تو امریکا کے حوالے سے ہونی چاہیے۔ بائیڈن انتظامیہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اب بھی جنوبی اور وسطی ایشیا پر عذاب کی صورت مسلط رہنے کے درپے ہے۔ افغانستان میں بیس سال گزارنے کے بعد بھی امریکا طالبان کو تابعِ فرمان بنانے میں کامیابی حاصل نہ کرسکا۔ بے سر و سامانی کی حالت میں بھی طالبان نے واحد سپر پاور اور اُس کے ہم نواؤں کی فوج کا پامردی سے سامنا کیا۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے انسدادِ دہشت گردی کے نام پر جو جنگ شروع کی تھی اُسے جاری رکھنے کی خاطر بہت بڑے پیمانے پر وسائل بروئے کار لائے گئے۔ افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے نام پر بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایسا بہت کچھ کیا جس سے افغان معاشرے میں تقسیم و تفریق کا عمل تیز اور نسلی منافرت کا بازار گرم ہوا۔ طالبان پشتون تھے۔ انہیں نیچا دکھانے کے لیے شمالی اتحاد قائم کیا گیا جس میں ازبک‘ تاجک اور ہزارہ نسل کے جنگجو شامل ہوئے۔ اس اتحاد نے افغان معاشرے کی تباہی اور بربادی میں رہ جانے والی کسر پوری کردی۔ امریکا اور یورپ نے مل کر شمالی اتحاد کے ہاتھ مضبوط کیے۔ اس کے نتیجے میں افغانستان کی پشتون برادری الگ تھلگ سی ہوکر رہ گئی۔
طالبان کی ہمت کو سلام ہے کہ انہوں نے سخت نامساعد حالات میں بھی ہتھیار ڈالنے کے تصور تک کو ذہن کے نزدیک پھٹکنے نہیں دیا اور پوری قوت نیٹو افواج کو ناکام بنانے پر لگادی۔ نیٹو اتحادیوں نے افغانستان میں کٹھ پتلی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنے کی خاطر شمالی اتحاد کو خوب استعمال کیا۔ اس کے نتیجے میں نسلی منافرت کا بازار تو گرم ہونا ہی تھا۔ اب طالبان انتہائی مضبوط ہوکر سامنے آئے ہیں تو ڈیڑھ دو عشروں سے اُن کے خلاف صف آراء رہنے والی برادریاں پریشان ہیں۔ اس صورتِ حال کو بھی امریکا اپنے حق میں استعمال کرنے کے موڈ میں ہے۔
ایک زمانے تک امریکا کہتا رہا کہ افغانستان میں محض معاشی اور معاشرتی استحکام ہی نہیں بلکہ سیاسی بالغ نظری بھی یقینی بنائی جانی چاہیے۔ جمہوریت کو فروغ دینے کی باتیں کی گئیں۔ پھر یوں ہوا کہ نیٹو فوجیوں کی ''کُٹ‘‘ لگنے لگی تو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ہوش ٹھکانے آگئے اور نکل بھاگنے کے بارے میں سوچا جانے لگا۔ جارج ڈبلیوبش کے بعد امریکی صدر کے منصب پر فائز ہونے والے بارک اوباما نے افغانستان میں امریکا کی عسکری بساط لپیٹنے کی بات کی۔ انخلا کی بات اُنہی کے دور میں شروع ہوئی اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد بالکل واضح پالیسی اپنائی کہ اب امریکا اپنے معاملات درست کرنے پر توجہ دے گا‘ کہیں اور بہت کچھ سیدھا کرنے کی فکر میں غلطاں رہنے کی پالیسی ترک کی جائے گی۔ اب امریکا نے افغانستان میں تو اپنا بوریا بستر لپیٹ لیا ہے مگر خطے کو غیر مستحکم رکھنے کے درپے ہے۔ امریکی مفادات کو ہر قیمت محفوظ رکھنے کی بات کی جارہی ہے۔ یہ قیمت امریکا کو کم اور جنوبی اور وسطی ایشیا کے کمزور ممالک کو زیادہ ادا کرنا پڑے گی۔ ایک طرف طالبان سے یہ ضمانت حاصل کی جارہی ہے کہ وہ خطے کو غیر مستحکم کرنے سے گریز کریں گے اور دوسری طرف خطے میں ایسے مقامات تلاش کیے جارہے ہیں جہاں بیٹھ کر افغانستان میں قتل و غارت کا بازار گرم رکھا جاسکے۔ اس کے لیے سدا بہار بہانہ بروئے کار لایا جارہا ہے یعنی دوسرے ممالک یا خطوں کے انتہا پسند عناصر افغان سرزمین کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات پر حملوں کے لیے استعمال نہ کریں۔ ایسے کسی بھی ممکنہ حملے کی روک تھام کے لیے احتیاط کے طور پر پہل کی جاسکتی ہے۔
ایسوسی ایٹیڈ پریس نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ روس اس امر کا سخت مخالف ہے کہ امریکا افغانستان کے پڑوسیوں میں سے کسی کے ہاں آبیٹھے اور انسدادِ دہشت گردی کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم رکھے۔ روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے ایک بیان میں کہا کہ حال ہی میں جنیوا میں امریکا اور روس کی سربراہ ملاقات کے موقع پر روس نے امریکا کو واضح پیغام دیا ہے کہ افغانستان کے نزدیک کسی بھی ملک میں امریکی فوجی اڈا برداشت نہیں کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ افغانستان کے نزدیک کسی امریکی فوجی اڈے کے قیام سے محض افغانستان یا خطے ہی میں بگاڑ پیدا نہیں ہوگا بلکہ روس امریکا تعلقات بھی داؤ پر لگ جائیں گے۔ یہ انتباہ ایسے وقت آیا ہے جب افغانستان سے امریکی فوجیوں کا (ساز و سامان سمیت) 90 فیصد انخلا مکمل ہوچکا ہے۔
ایک طرف امریکا نے وسطی ایشیا کی ریاستوں کو رام کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں اور دوسری طرف روس نے خطے کے ممالک سے رابطہ کرکے اُن پر واضح کیا ہے کہ وہ امریکا کا ساتھ نہ دیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ ازبکستان‘ تاجکستان‘ کرغیزستان اور قازقستان میں سے کسی کی بھی سرزمین پر اُسے اتنی جگہ مل جائے کہ افغان سرزمین پر بیرونی عناصر کی سرگرمیوں کو'' کچلنے‘‘ میں آسانی رہے۔ بائیڈن انتظامیہ خفیہ سرگرمیوں کے لیے بھی افغانستان سے قربت چاہتی ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ قازقستان‘ تاجکستان اور کرغیزستان کلیکٹو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن کے ارکان ہیں۔ یہ تمام ممالک اپنی سرزمین کسی بھی ملک کی افواج کو استعمال کرنے کے لیے دینے سے قبل متعلقہ فورم سے اجازت لینے کے پابند ہیں۔ تاجکستان اور کرغیزستان میں روسی فوجی اڈے موجود ہیں جبکہ کرغیزستان نے امریکی فوجی اڈا 2014ء میں بند کیا تھا اور ازبکستان نے امریکی فوجی اڈا(قرشی خان آباد ) 2005ء میں اس وقت بند کیا جب امریکا سے اس کے تعلقات کشیدہ ہوچلے تھے۔ سرگئی لاوروف کہتے ہیں کہ تمام علاقائی ممالک سے صاف کہہ دیا گیا ہے کہ وہ امریکا کو فوجی اڈا بنانے کے لیے زمین دینے سے قبل اس کا انجام سوچ لیں۔ پورا خطے کا استحکام ایک بار پھر داؤ پر لگ سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ایک کام کی بات یہ بھی کہی ہے کہ جب ایک لاکھ سے زائد نیٹو فوجی افغانستان میں تعیناتی کے دوران طالبان کو قابو میں نہ رکھ سکے اور اپنی بات نہ منواسکے تو کسی علاقائی میں چند سوچ فوجی تعینات کرکے امریکا کون سا تیر مار لے گا۔ سرگئی لاوروف کا کہنا ہے کہ کوئی بھی علاقائی ملک امریکا کو فوجی اڈا دینے پر شاید ہی آمادہ ہو کیونکہ اس کے خطرناک نتائج کا سبھی کو خوب اندازہ ہے۔
افغانستان کے کم و بیش 85 فیصد رقبے پر طالبان کا قبضہ ہوچکا ہے۔ اب صرف اس بات کا انتظار کیا جارہا ہے کہ وہ کب کابل پر متصرف ہوتے ہیں۔ طالبان نے اب تک اس بات کا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ کابل پر متصرف ہوکر فوری طور پر اقتدار اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ انہوں نے روس کو بھی یقین دلایا ہے کہ وہ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والے کسی بھی فعل سے گریز کریں گے۔ امریکا کو بھی اس بات کی ضمانت چاہیے کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد طالبان اُن افغان باشندوں کے خلاف کچھ نہیں کریں گے جنہوں نے امریکا کے لیے کام کیا تھا۔ طالبان کی طرف سے کرائی جانے والی یقین دہانیوں کے باوجود افغان فوج کے بہت سے سپاہی پڑوسی ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔امریکا کا معاملہ ''چور چوری سے جائے‘ ہیرا پھیری سے نہ جائے‘‘ والا ہے۔ وہ افغانستان سے رخصت ہونے کے بعد بھی کسی نہ کسی طور اپنے فوجیوں کو افغانستان کے پڑوس میں رکھ کر پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار رکھنا چاہتا ہے۔ اُس کی اس ہیرا پھیری کو ناکام بنانے کی ذمہ داری اب علاقائی ممالک اور بالخصوص افغانستان کے پڑوسیوں پر عائد ہوتی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کو فوجی اڈوں کے لیے زمین دینے کا مطلب ہے خطے کا امن تاراج کرنے میں معاون ہونا۔ کرغیزستان‘ تاجکستان اور ازبکستان کی حکومتوں کو معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر یہ ممالک امریکی دباؤ کے آگے جھک گئے تو صرف افغانستان تباہی سے دوچار نہیں ہو گا ‘پورے خطے کی سلامتی بھی داؤ پر لگ جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں