ہم بیک وقت خوش نصیب بھی ہیں اور کم نصیب بھی۔ خوش نصیبی یہ ہے کہ ایک طویل مدت کے گزرنے پر جن تبدیلیوں کے واقع ہونے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے وہ تبدیلیاں اب ہمارے سامنے رونما ہو رہی ہیں۔ صدیوں کے عمل میں جو کچھ اندر ہی اندر پکتا اور پنپتا رہا ہے وہ منظرِ عام پر آتا جارہا ہے۔ ہم ایسا بہت کچھ دیکھ رہے ہیں جس کے دیکھنے کی مختلف ادوار کے کروڑوں افراد نے محض تمنا کی اور پھر اِس تمنا کو حسرت کی شکل میں ساتھ لیے دنیا سے گئے۔ ایجاد و دریافت کا عمل بیسویں صدی کے دوران انتہا کو چھوگیا، بالخصوص آخری برسوں میں۔ اور اکیسویں صدی؟ یہ تو غضب ڈھانے پر تُلی ہے، قیامت سی برپا کر رہی ہے۔یہ تو ہوا خوش نصیبی کا بیان۔ (کسی حد تک) کم نصیبی یہ ہے کہ اس عہد کے ہاتھوں جو کچھ گزر سکتی ہے اور گزر رہی ہے ہم اُس کا براہِ راست ہدف ہیں۔ آج کے کسی بھی انسان کے لیے تبدیلی کے عمل سے بچ نکلنا ممکن نہیں۔ ہر طرف تبدیلیوں کا بازار گرم ہے۔ سیاست ہو یا معیشت، علم و ادب ہو یا ٹیکنالوجی، فیشن ہو یا معاشرتی رجحانات‘ ہر معاملے میں ہمیں بہت کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ سیاست و سفارت کا معاملہ انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرچکا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات کی پیچیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں کئی سپر پاورز نے زوال کا منہ دیکھا اور کئی ممالک سپر پاور بننے کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ایک صدی کے دوران یورپ کی کئی طاقتوں نے دو عالمی جنگوں کے سنگین نتائج بھگت کر عالمگیر اقتدار کی دوڑ سے الگ ہونے کو ترجیح دی۔ پرتگال، فرانس، ہالینڈ اور برطانیہ نو آبادیاتی دور کے احیا سے گریزاں ہیں۔ اُنہیں اس بات سے اب کچھ خاص غرض نہیں کہ اُنہیں عالمی قوت تسلیم کیا جاتا ہے یا نہیں۔ اُن کی توجہ اپنی اپنی حدود میں ترقی و خوش حالی کا گراف بلند کرنے تک محدود ہے۔
سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکا واحد سپر پاور کا درجہ پاگیا۔ اُس نے تین عشروں کے دوران یک قطبی دنیا کے معاملات کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں اچھا خاصا بگاڑ پیدا ہوا۔ چین نے امریکا کے مقابل آنے کے لیے بہت محنت کی ہے۔ کم و بیش چار عشروں کے دوران چینی قیادت صرف اس بات کے لیے کوشاں رہی کہ عالمی معیشت میں امریکا کے مقابل اپنے آپ کو منوائے۔ عالمی سیاست میں بھی چین نمایاں رہا ہے مگر سیاسی و سفارتی معاملات اب تک اُس کی اولین ترجیح نہیں۔ ہاں !امریکا کی طرح عسکری قوت میں اضافے پر بھی اُس نے غیر معمولی توجہ دی ہے۔ اس وقت امریکا اور چین کے درمیان دنیا کا قائد بننے کے حوالے سے دوڑ جاری ہے۔ اس مسابقت نے کئی خطوں کے لیے انتہائی پیچیدہ صورتِ حالات پیدا کی ہے۔ پاکستان جیسے متعدد ممالک کے لیے ''بیلینسنگ ایکٹ‘‘ ناگزیر ضرورت بن کر ابھرا ہے۔ دو بڑی طاقتوں سے تعلقات کو متوازن رکھنا مجموعی طور پر گلے کی ہڈی کا سا درجہ رکھتا ہے۔ جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا (مشرقِ وسطیٰ)، جنوب مشرقی ایشیا اور وسطِ ایشیا کے لیے یہ صورتِ حال انتہائی الجھن کا باعث ہے۔ ایک طرف چین اور امریکا کے درمیان چل رہی مسابقت ہے اور دوسری طرف چین‘ روس اور ترکی کے درمیان بڑھتی ہوئی ہم آہنگی اور اشتراکِ عمل کے نتیجے میں ایک نیا بلاک وجود میں آرہا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے یہ معاملہ بہت حساس ہے۔ سٹریٹیجی کے حوالے سے گہرائی و گیرائی یقینی بنانے کی خاطر پاکستان کو چین کی اور چین کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ بھارت اب تک مخمصے کی حالت میں ہے کیونکہ ایک طرف اس کے امریکا اور یورپ سے بہت اچھے معاشی تعلقات ہیں اور دوسری طرف چین بھی اُس سے بہتر معاشی تعلقات چاہتا ہے۔ دونوں ممالک سرحدی تنازع پر ایک جنگ لڑچکے ہیں۔ 1962ء میں لڑی جانے والی اس جنگ کے نتیجے میں فریقین کے تعلقات اب تک خاصے کشیدہ ہیں۔ پھر بھی بھارت کے پاس بہترین آپشن یہی ہے کہ چین سے تعلقات معمول پر لے آئے۔ ایسا کرنے سے خطے کو عدم استحکام سے بچانا ممکن ہوسکے گا۔
امریکا اور چین کے درمیان جو لڑائی جاری ہے وہ بہت سوں کے لیے دردِ سر ہوتی جارہی ہے۔ اس لڑائی میں مکمل غیر جانبدار ہونے کی اداکاری تو کی جاسکتی ہے مگر غیر جانبدار رہا نہیں جاسکتا۔ چین بعض معاملات میں کسی بھی علاقائی ملک پر زیادہ زور نہیں دیتا مگر امریکا سے یہ سب کچھ ہضم نہیں ہوتا۔ وہ چاہتا ہے کہ جو اُس کا ساتھ دے وہ لازمی طور پر چین کے خلاف جائے۔ چین کی طرف سے ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی جاتی۔ چینی قیادت اس بات کو زیادہ پسند نہیں کرتی کہ کسی کو زبردستی اتحادی بنایا جائے۔ یا کم از کم اب تک تو ایسی کوئی پالیسی وضع نہیں کی گئی۔ اب تک کی صورتحال کا تقاضا یہ ہے کہ امریکا اور چین اپنے معاملات کو غیر معمولی احتیاط سے آگے بڑھائیں کیونکہ اِن کے درمیان محاذ آرائی بڑھنے سے پوری دنیا کا امن و سکون غارت ہوسکتا ہے۔ اب تک دونوں نے معاشی محاذ پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے۔ چین کے خلاف پابندیوں کا ہتھیار استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا مگر معاملہ بہت حد تک قابو میں رہا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے درآمدی ڈیوٹی کی شرح بڑھاکر دو طرفہ تجارت میں چین کی برتری نمایاں حد تک گھٹانے کی کوشش کی مگر زیادہ کامیاب نہ ہوسکے۔ دو ہاتھیوں کی اِس لڑائی میں گنّے کے کھیت پریشان ہیں کیونکہ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اپنے آپ کو کچلے جانے سے کس طور بچائیں۔
دنیا عجیب موڑ پر کھڑی ہے۔ ایک عہد ختم ہوا ہے اور اُس سے بہت مختلف دور شروع ہو رہا ہے۔ یہ نیا عہد عجیب نوعیت کی کشمکش کا ہے۔ ہم نے جس عہد کو ختم ہوتے دیکھا ہے وہ کئی صدیوں کی کشاکش کا حاصل تھا۔ اب جو دور شروع ہو رہا ہے وہ بھی چونکہ کشاکش ہی سے عبارت ہے اس لیے اُس میں بھی ایسا بہت کچھ ہوگا جو لوگوں کو یاد رہ جائے گا۔ مگر ہاں! یہ نکتہ فراموش نہ کیا جائے کہ ہم چونکہ اِس عہد کے ابتدائی حصے سے تعلق رکھتے ہیں‘ اس لیے اس کے بہت سے مضمرات کا ہدف ہمیں بننا پڑے گا، ہم پر بہت سے اثرات مرتب ہوکر رہیں گے۔یک قطبی دنیا کی پیچیدگیاں سب کے سامنے ہیں۔ ایسے میں دانش کا تقاضا تو یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور ایک ایسی دنیا معرضِ وجود میں لائی جائے جس میں کوئی ایک ملک تمام معاملات اپنے ہاتھ میں نہ لے بلکہ چند مضبوط ترین ممالک مل کر دنیا کو ڈھنگ سے چلائیں، بیشتر معاملات میں اعتدال و انصاف یقینی بنائیں۔
امریکا کی طاقت گھٹتی جارہی ہے۔ یورپ بھی عالمی معاملات میں زیادہ نمایاں اور فعال کردار ادا کرنے کے موڈ میں نہیں۔ چین تیزی سے ابھر کر سامنے آیا ہے اور روس کے ساتھ ترکی اور برازیل جیسے ممالک بھی چاہتے ہیں کہ اُن کی سُنی جائے۔ پاکستان، بھارت اور ایسے ہی دیگر متحارب پڑوسیوں کے لیے یہ وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا نہیں بلکہ کچھ کر دکھانے کا ہے تاکہ معاملات سلجھیں۔ امریکا اور چین کی لڑائی اپنی جگہ، بھارت کو پاکستان اور چین سے مل کر معاملات طے کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ خطے کی سلامتی کو داؤ پر لگنے سے بچایا جاسکے۔ جامع مذاکرات کا کوئی دور شروع کرنا ہے تو فی الفور شروع کیا جائے۔ تاخیر کی گنجائش نہیں۔ پاکستان اور بھارت کو آپس کے تعلقات بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ خطے کے معاملات متوازن رکھنے پر بھی خاص توجہ دینی چاہیے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب امریکا اور چین کے درمیان عالمی قائد بننے کی رسہ کشی کی سنگینی کا اندازہ لگاکر معاملات درست کرنے پر توجہ دی جائے۔ یہ بیلنسنگ ایکٹ کا مرحلہ ہے۔ کسی ایک فریق کی بے عقلی پورے خطے کے امن و سکون کو داؤ پر لگاسکتی ہے۔ معاملات کے درست ہونے کا انتظار درست نہیں۔ ایسی کوششیں ناگزیر ہیں جن کے نتیجے میں ہاتھیوں کی لڑائی میں گنوں کے کھیت کو بچانا ممکن ہوسکے۔ ہر خطے سے چار پانچ طاقتور ترین ممالک ایک ایسے عالمی فورم کا حصہ بنیں جو دنیا کو پُرامن اور ترقی و استحکام سے ہم کنار رکھنے کا ذمہ دار ہو۔