مثل تو آپ نے سنی ہوگی گھر کی مرغی دال برابر۔ جو چیز آسانی سے، ہر وقت اور وافر مقدار و تعداد میں میسر ہو وہ رفتہ رفتہ اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ کسی بھی معاشرے یا وطن کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہم جس سرزمین پر بستے ہیں اُسے زیادہ خاطر میں نہیں لاتے۔ حد یہ ہے کہ جب دوسرے اُسے سراہتے ہیں تب بھی متوجہ ہونے کی توفیق کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ گو بینکنگ ریٹس کمپنی نے ایک حالیہ سروے میں بتایا ہے کہ رہن سہن کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ کون سا ملک کس حد تک مہنگا یا سستا ہے‘ اِس کا تعین کرنے کے لیے جو معیارات مقرر کیے گئے تھے ان میں اشیائے خور و نوش، روزمرہ استعمال کی اشیا، مکان کا کرایہ اور سفر کے اخراجات کو مدنظر رکھا گیا۔ ان تمام معاملات کا آمدن سے موازنہ کیا گیا۔ افغانستان اور بھارت بھی پاکستان سے مہنگے نکلے۔ مہنگے ترین ممالک میں امریکا، کیمن جزائر، برمودا، ناروے اور سوئیڈن ہیں۔ ناروے اور سوئیڈن مہنگے تو ہیں مگر یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دونوں فلاحی ریاستیں ہیں یعنی آمدنی کا کم و بیش 70 فیصد مختلف ٹیکسوں کی مد میں کاٹ کر ان ممالک کی حکومتیں اپنے باشندوں کو تمام سہولتیں بطریقِ احسن فراہم کرتی ہیں۔
کیا واقعی پاکستان سستا ترین ملک ہے؟ یقین تو نہیں آتا۔ اگرچہ دوسروں نے گواہی دی ہے‘ تب بھی یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ اِسی لیے تو کہتے ہیں گھر کی مرغی دال برابر۔ حق یہ ہے کہ پاکستان آج بھی صرف رہن سہن نہیں بلکہ اور بہت سے معاملات میں بھی باقی دنیا سے بہت اچھا ہے۔ اگر خالص اخلاقی ماحول کی بات کریں تب بھی پاکستان کا شمار اُن ممالک میں کیا جاسکتا ہے جو بہت حد تک بچے ہوئے ہیں۔ بگاڑ پایا تو جاتا ہے مگر اُس سطح پر نہیں کہ جہاں امید ہار دی جائے اور اصلاحِ احوال کا عزم ترک کرکے گوشہ نشینی اختیار کی جائے۔ رہن سہن کا معاملہ یہ ہے کہ باقی دنیا میں زمینوں اور مکانات کی قیمتیں آج بھی مجموعی طور پر پاکستان میں اس حوالے سے پائی جانے والی قیمتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ دور کیوں جائیے، ممبئی ہی کی مثال لیجیے۔ ممبئی پر چونکہ پورے ملک کا معاشی دباؤ ہے‘ اس لیے وہاں زمین کی قیمت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ کراچی میں جو اپارٹمنٹ آج بھی ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے میں دستیاب ہے ممبئی میں ویسی لوکیشن کا اپارٹمنٹ پچیس تیس کروڑ میں ملتا ہے۔ ممبئی کے پسماندہ یا مضافاتی علاقوں میں جو مکان سات آٹھ کروڑ کا ہے‘ ویسا مکان کراچی میں آج بھی ڈیڑھ دو کروڑ میں مل جاتا ہے۔ یہی معاملہ بسوں اور ٹیکسیوں کے کرایوں کا بھی ہے۔ ممبئی میں کام پر جانے اور واپس آنے کے لیے جو کرایہ دینا پڑتا ہے وہ آمدنی کے تناسب سے آج بھی کراچی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
بات ہو رہی ہے رہن سہن کی۔ رہن سہن میں بنیادی چیز ہے بنیادی سہولتوں کی فراہمی۔ کراچی میں سمیت پاکستان کے بیشتر بڑے شہروں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان موجود ہے۔ اہلِ کراچی کو آج بھی پینے کا صاف پانی حاصل کرنے میں غیر معمولی دشواریوں کا سامنا ہے۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی ہو رہی ہے مگر معاملہ اِس حد تک نہیں بگڑا کہ مایوس ہوا جائے۔ بجلی کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان موجود ہے تو پاکستان سستا ترین ملک کیسے ہوا؟ حالیہ سروے کے نتائج سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں بنیادی سہولتوں کا فقدان کس منزل میں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگر تمام بنیادی سہولتیں عام آدمی کو آسانی سے اور ضرورت کے مطابق میسر ہیں تو وہاں عوام سے وصولی بھی تو کی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں لوگ سب کچھ چاہتے ہیں مگر دینے کو تیار نہیں۔ کراچی کے باشندوں کی اکثریت (چاہے مکانات میں رہتی ہو یا اپارٹمنٹس میں) بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کا اہتمام تو کرتی ہے مگر پانی کے بل باقاعدگی سے ادا نہیں کیے جاتے۔ کیوں؟ سیدھی سی بات ہے کہ پہلے مرحلے میں بجلی اور گیس کی فراہمی معطل کرنا اور دوسرے اور حتمی مرحلے میں ان دونوں سہولتوں کا کنکشن کاٹنا زیادہ مشکل نہیں۔ خاکسار کی رہائش جس بلڈنگ میں ہے اس میں 260 سے زائد اپارٹمنٹس ہیں۔ اس پروجیکٹ کو 23 سال ہوچکے ہیں۔ اب تک زیادہ سے زیادہ 30 فیصد مکینوں نے پانی کے بل ادا کیے ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ اب تک پانی کے بل کی مد میں کچھ بھی ادا نہیں کیا! جب کوئی اپارٹمنٹ فروخت ہوتا ہے تب پانی کا بل اٹھارہ بیس سال تک کی عدم ادائیگی کے جرمانے کے ساتھ چکانا پڑتا ہے۔ لوگ اس کے لیے تو تیار ہیں‘ وقت پر بل ادا کرنے کو تیار نہیں۔ باقی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر بنیادی سہولتوں میں سے کسی چیز کا بل باقاعدگی سے ادا نہ کیا جائے تو باضابطہ قانونی کارروائی تک کی جاتی ہے۔ بھارت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب کسی چیز کا بل پابندی سے ادا نہیں کیا جائے گا تو متعلقہ ادارہ اس سہولت کی فراہمی کیوں جاری رکھے گا؟ ایک زمانے سے ہمارے ہاں بجلی کی فراہمی کا معاملہ بھی رُلا ہوا ہے تو اِس کا بنیادی سبب صرف اور صرف یہ ہے کہ لوگ یا تو وقت پر بل ادا نہیں کرتے یا پھر غیر قانونی کنکشن کے ذریعے اُس سہولت کے مزے لُوٹ رہے ہیں۔ بجلی چُرانے کا سلسلہ ہمارے ہاں چار پانچ عشروں سے جاری ہے۔ بعض علاقوں میں کنکشن کبھی رہا ہی نہیں یعنی بجلی چوری کی ہی استعمال کی جاتی رہی ہے۔ اب متعلقہ ادارے نے باضابطہ کنکشن دے کر بل وصول کرنا شروع کیا ہے تو احتجاج کیا جارہا ہے، رو پیٹ کر خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان میں اگر بیشتر معاملات بگڑے ہوئے ہیں اور زندگی مشکلات سے اَٹی ہوئی ہے تو اِس کی ذمہ داری صرف عوام یا ریاستی مشینری پر عائد نہیں ہوتی۔ سسٹم اگر بگڑا ہے تو سب کی وجہ سے بگڑا ہے۔ اب ایک چھوٹی سی مثال سے خرابی کا اندازہ لگائیے۔ جنہیں کہیں جانا ہوتا ہے وہ گھر سے نکل کر سڑک پر آتے ہی پبلک ٹرانسپورٹ کی کسی بھی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ اِس طور کہیں بھی اترنے کے لیے گاڑی رکوادی جاتی ہے۔ کیا باقی دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟ بالکل نہیں! خاکسار دو بار ممبئی جاچکا ہے اور وہاں قانون پر پورا عمل دیکھا ہے۔ سٹاپ کے سوا بس کو کہیں بھی ہاتھ دے کر روکنے کی ''روایت‘‘ وہاں بالکل نہیں پائی جاتی۔ بس ڈرائیور بھی مسافر کو سوار کرانے یا اتارنے کے لیے مقررہ مقام ہی پر بس کو روکنے کا پابند ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو کوئی بھی مسافر متعلقہ افسر کو متوجہ کرکے اُس کا چالان کراسکتا ہے۔ حد یہ ہے کہ اگر کسی روٹ پر مختلف نمبرز کی سات آٹھ بسیں چلتی ہوں تو سٹاپ الگ الگ بنائے جاتے ہیں تاکہ ایک ہی مقام پر زیادہ بھیڑ نہ ہو۔ جس بس کے لیے جو سٹاپ مقرر کیا گیا ہو‘ اُسے وہیں رُکنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں کسی ایک معاملے میں بھی سسٹم نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ اس کے باوجود پاکستان سستا ترین ملک ہے۔ گزر بسر آسانی سے ہو رہی ہے۔ یہ اللہ کا کرم نہیں تو اور کیا ہے؟ اب ذرا سوچیے کہ اگر معاملات درستی کی طرف جائیں، ریاستی و انتظامی امور میں نظم و ضبط پایا جائے، عوامی سطح پر بھی اصول پسندی کو شعار بنایا جائے، قوانین کی تعمیل لازم قرار پائے اور لوگ منظم زندگی بسر کریں تو پاکستان معاشرہ کہاں سے کہاں پہنچے۔
1950 اور 1960 کے عشروں میں پاکستانیوں کا جوش و خروش قابلِ داد تھا۔ پوری قوم ایک رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ یہ رنگ تھا وطن پرستی کا۔ اس سرزمین کا بُرا چاہنے والوں نے غیر معمولی منصوبہ سازی سے معاشرے کو بگاڑا۔ اِس کام کے لیے ہمارے ہی لوگ بروئے کار لائے گئے۔ پانچ عشروں کے دوران ملک کو اُس مقام پر پہنچادیا گیا جہاں کوئی بھی شعبہ اپنی اصل حالت میں نہیں۔ اس کے باوجود ہم سستے ترین ملک میں جی رہے ہیں یہ بڑی بات ہے۔ اس کرم پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُس کی مرضی اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق جیا جائے۔