"MIK" (space) message & send to 7575

آئیے! چڑیا بن جائیں

بگاڑ حتمی تجزیے میں بھی بگاڑ ہی ہوتا ہے۔ ہاں! ابتدائی مرحلے ہی میں توڑ سوچ لیا جائے کوئی بھی بگاڑ پَر نہیں پھیلا پاتا۔ ہر دور میں ہر معاشرے کا ایک بنیادی المیہ یہی رہا ہے کہ کسی بھی خرابی کو ابتدائی مرحلے میں ختم کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی اور جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تب ازالے اور تدارک کا سوچا جاتا ہے۔ ہم بھی انوکھے نہیں کہ ہمارے لیے ایک آفاقی اصول تبدیل ہوجائے۔ ہم بھی تو بگاڑ کو دیکھتے رہتے ہیں تا آنکہ وہ اِتنا بڑا ہو جائے کہ اُسے آسانی سے روک پانا کسی کے بس میں نہ رہے۔
آج ہر معاشرہ مختلف حوالوں سے انتہائی نوعیت کی الجھنوں کا شکار ہے۔ یہ سب کچھ کسی بھی درجے میں حیرت انگیز ہے نہ غیر متوقع۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ہمارے دائرۂ ادراک سے باہر کا معاملہ نہیں۔ بہت سے معاملات میں ہمیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کب معاملات کون سی سمت جائیں گے، کیا شکل اختیار کریں گے۔ محض تماشا دیکھتے رہنے کی عادت بہت سی خرابیوں کو اس حد تک بگاڑ دیتی ہے کہ پھر تدارک اور ازالے کی صورت نکالنا خاصا جاں گُسل محسوس ہوتا ہے۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہ بھی انتہائی درجے کی خرابیوں سے اَٹا ہوا ہے۔ یہ خرابیاں راتوں رات پیدا ہوئی ہیں نہ راتوں رات پروان چڑھی ہیں۔ بہت کچھ ہے جو ہمیں بہت پہلے سے دکھائی دے رہا تھا مگر ہم متوجہ نہ ہوئے اور معاملات بگڑتے چلے گئے۔ اب بگاڑ اِس حد تک بڑھ چکا ہے کہ محض کہنے سے کچھ نہ ہوگا اور کرنے کے معاملے میں بھی بھرپور جذبۂ عمل، صلاحیت و سکت اور جوش و جذبہ درکار ہوگا۔ اصلاحِ احوال کا معاملہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ محنت طلب ہوتا جارہا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ روز افزوں کیفیت ہے۔ ایسی ہی کیفیت کے لیے غالبؔ کے ایک خط میں شعر منقول ہے ؎
روز اِس شہر میں اِک حکم نیا ہوتا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے
جو کچھ ہم دیکھتے آئے ہوں اُس کے عادی ہو جاتے ہیں، اکثر وہ بہت بُرا ہوکر بھی بُرا نہیں لگتا، دل کو زیادہ دکھ نہیں ہوتا اور اُس سے نجات پانے کی خواہش محض رسمی سی خواہش کے درجے میں رہتی ہے۔ بہت کچھ ہے جو ہمارے سامنے محض تبدیل نہیں ہورہا بلکہ بگڑتا جارہا ہے۔ ہم دیکھ بھی رہے ہیں مگر تدارک کا سوچتے ہیں نہ ازالے کا۔ آپ نے خلیل اللہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے وہ روایت تو ضرور سنی یا پڑھی ہوگی کہ جب نمرود نے آپ علیہ السلام کو الاؤ میں پھینکا تو ایک چڑیا چونچ میں پانی لاکر اُس پر ڈالتی جاتی تھی۔ چرند پرند اُس کی یہ سعی دیکھ کر خوب ہنسے اور کہا کہ کیا تو یہ سمجھتی ہے کہ تیری اِس سعی سے یہ آگ بجھ جائے گی؟ اس چڑیا نے وہ جواب دیا جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ یہ جواب ہر دور کے انسانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ چڑیا نے کہا: یہ تو میں بھی جانتی ہوں کہ میرے چونچ بھر پانی سے یہ آگ نہیں بجھ پائے گی مگر میں یہ چاہتی ہوں کہ قیامت کے دن میرا نام اُن کے ساتھ لیا جائے جنہوں نے نیت کے اخلاص کے ساتھ اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی تھی۔
معاشرے ہر عہد میں خرابیوں کا شکار رہے ہیں۔ یہ بھی قدرت ہی کا طے کردہ اصول ہے۔ جب لوگ اپنی ذمہ داریاں بھول جاتے ہیں تب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور تدارک و ازالے کی سعی نہ کیے جانے کی صورت میں بگاڑ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے معاملات اِتنی بُری حالت میں آجاتے ہیں کہ اُن پر قابو پانا اور اصلاحِ احوال کے حوالے سے کچھ کرنا کم و بیش ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے میں قدرت اپنے اصول کے مطابق کسی انقلابی نوعیت کی تبدیلی کی راہ ہموار کرتی ہے اور خرابیوں کو برداشت کرنے والے لوگ انتہائی نوعیت کی خرابیوں کا شکار ہوکر نئی زندگی کی طرف بڑھتے ہیں۔ آج کا ہمارا معاشرہ تماشا دیکھتے رہنے کی ذہنیت کے منطقی نتیجے کا عکاس ہے۔ ہم نے ایک زمانے سے بہت سی خرابیوں کو اُن کے ابتدائی درجے میں پہچان لینے پر بھی تدارک اور ازالے کے حوالے سے کچھ خاص نہیں سوچا۔ معاشرے کے ہر فرد کو باقی معاشرے کی بھلائی کے لیے کچھ نہ کچھ سوچنا اور کرنا پڑتا ہے۔ معاشرہ جو کچھ دیتا ہے اُس کے عوض فرد کو بھی بہت کچھ کرنا اور دینا پڑتا ہے۔ معاشرے میں پیدا ہونے اور پنپنے والی خرابیوں کے تدارک کے لیے فرد کو اپنا کردار ضرور ادا کرنا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ اُس کی مساعی سے کیا ہوگا۔ اس بات کا خیال و احساس تو چڑیا کو بھی تھا کہ اُس کی کوشش سے آگ نہیں بجھ پائے گی‘ وہ تو صرف اتنا جانتی تھی کہ ایسا کرنے سے اُس کا نام آگ بجھانے والوں کی فہرست میں درج کیا جائے گا اور حساب کتاب کے دن وہ اپنے رب کے حضور سرخرو ہوگی۔ خرابیوں کو دور کرنے سے متعلق فکر و عمل کے معاملے میں ہمیں بھی چڑیا والی سوچ ہی پروان چڑھانی ہے۔ اللہ کی طرف سے ہمیں نیت کا پھل ملتا ہے کیونکہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے۔ نیت کا اخلاص ہی اللہ کو راضی کرتا ہے اور ہم کچھ کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ جن کے فکر و عمل میں گہرائی و گیرائی نہ ہو وہ بھی نیت کے اخلاص کی بنیاد پر بہت کچھ کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ ہمارے خالق و رب کو اصلاً ہماری نیت سے غرض ہے۔ جو کمزور ہے وہ بھی اگر اللہ کی خوشنودی کی خاطر کچھ کرے تو معاملات درستی کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔
آج کے پاکستانی معاشرے میں نیت کا وہی اخلاص درکار ہے جو الاؤ بجھانے کی سعی کرنے والی چڑیا کی نیت میں نمایاں تھا۔ ہمیں بھی چڑیا بننا ہے۔ کوئی بھی خرابی مکمل طور پر ختم کرنا کسی ایک یا چند افراد کے بس میں نہیں ہوتا۔ موقع یا صورتِ حال کی مناسبت سے پورے اخلاصِ نیت کے ساتھ اپنائی جانے والی طرزِ فکر و عمل ہی اس امر کا تعین کرتی ہے کہ ہم کیا اور کتنا کرسکیں گے۔ آج ہمارے معاشرے میں جو مختلف النوع خرابیاں پائی جاتی ہیں وہ کسی بھی درجے میں چند افراد یا چند گروہوں کی پیدا کردہ نہیں۔ ہم نے یہ تمام خرابیاں مل کر پیدا کی ہیں۔ اِنہیں ختم کرنے کے لیے بھی اجتماعی تفاعل درکار ہے۔ پورے معاشرے کی اصلاح اُسی وقت ممکن ہے جب ہر فرد اپنے آپ کو درست کرنے پر متوجہ ہو‘ اپنے حصے کا کام کرے۔ خرابیوں کا الاؤ بجھانے کے لیے نیک اعمال کا چونچ بھر پانی بھی محشر میں سُرخرو کرنے کے لیے کافی ہے۔ جس نے ہمیں خلق کیا ہے‘ وہ ہستی اچھی طرح جانتی ہے کہ ہم سے کیسا سلوک کیا جانا چاہیے۔ نیت کا اخلاص شاملِ حال رہے تو رب کی خوشنودی یقینی سمجھیے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ہم خرابیوں سے ''آراستہ‘‘ دور میں جی رہے ہیں اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ خرابیوں کے تدارک کی ذمہ داری سے ہم کسی بھی طور مستثنا نہیں۔ جو کچھ ہمیں کرنا ہے وہ تو ہر حال میں کرنا ہے۔ معاشرہ ہم سے قدم قدم پر نیت کے اخلاص اور فکر و عمل کے جوش و خروش کا متقاضی ہے۔ معاملہ محض سوچنے اور تماشا دیکھتے رہنے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ جو کچھ ہمارے بس میں ہے وہ ہر حال میں کیا جانا چاہیے۔ ایسا کیے جانے تک بہتری کی کوئی بھی حقیقی اور کارگر صورت نکل نہیں سکتی۔
کسی بھی معاشرے کی ہمہ گیر اصلاح یقینی بنانا چند افراد یا دو چار گروہوں کا کام نہیں۔ انفرادی یا محدود سطح پر کی جانے والی کوششیں پورے ماحول یا معاشرے کو درست نہیں کرسکتیں۔ اِس کے لیے سب کو مل کر بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ آج کا ہمارا معاشرہ بھی ہمہ گیر اصلاح کے لیے مشترکہ اور وسیع البنیاد کاوشوں کا متقاضی ہے۔ انفرادی سطح پر کی جانے والی کوششیں ہی مل کر بڑا، مطلوب نتیجہ پیدا کرتی ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہر فرد اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور اُس سے عہدہ برآ ہونے پر بھی یقین رکھتا ہو۔ ہمیں محض تماشا دیکھتے رہنے پر چڑیا بننے کو ترجیح دینا ہے تاکہ دوسروں کو بھی کچھ کر گزرنے کی تحریک ملے اور حقیقی اصلاح ممکن بنائی جاسکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں