کامیابی چھوٹی ہو یا بڑی، کسی ایک فرد یا کسی ایک عامل (فیکٹر) کی مرہونِ منت نہیں ہوا کرتی۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا! اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی بھی شعبے میں پوری کامیابی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا سکتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ اُس کے دماغ میں خلل ہے۔ اس انداز سے سوچنے والے ہر انسان کو نفسی امور کے ماہرین سے ملوانا لازم ہے کیونکہ ہر دور میں محض لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد اِسی مغالطے کے ہاتھوں تنزلی و تباہی سے دوچار رہے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی کئی افراد کی مشترکہ اور متوازن کوششوں کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ یہ حقیقت اٹل ہے کہ کامیابی میں کئی افراد کا کردار ہوتا ہے اور اجتماعی مساعی کے ذریعے ہی ڈھنگ سے کچھ کیا جاسکتا ہے۔ ٹیم ورک اِسی کو تو کہتے ہیں۔ ٹیم ورک کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی ادارے یا ٹیم میں سب مل کر اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں‘ تبھی کچھ ہو پاتا ہے۔ ہاں! چند ایک افراد کی کارکردگی نمایاں ہوتی ہے اور اُنہیں اِس کا معاوضہ بھی زیادہ ملتا ہے۔ بعض صورتوں میں محض معاوضے تک معاملہ محدود نہیں رہتا بلکہ انعام سے بھی نوازا جاتا ہے۔ اِس کے باوجود کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ پوری کامیابی کا کریڈٹ تنِ تنہا لے سکتا ہے۔
ٹیم ورک اور تال میل کو سمجھنے میں چند شعبے نمایاں طور پر مثال کردار ادا کرتے ہیں۔ فلم میکنگ بھی ایک ایسا ہی شعبہ ہے۔ بہت سی فلمیں چہروں کی بنیاد پر چلتی ہیں۔ چہرے یعنی کامیاب اداکار اور اداکارائیں۔ پھر بھی کوئی اداکار یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ کسی فلم یا ڈرامے کی کامیابی صرف اُس کی کارکردگی کی مرہونِ منت ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بہت سی فلمیں مشہور اور کامیاب اداکاروں، اداکاراؤں پر مشتمل کاسٹ کی حامل ہونے پر بھی ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں؟ ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب کوئی فلم میکر محض بڑے اور معروف چہروں ہی کو فلم سمجھ بیٹھتا ہے۔ فلم میں کہانی بھی ہوتی ہے، مکالمے بھی شائقین کو سنیما ہال تک لاتے ہیں، منظر نامہ (سکرین پلے) بھی فلم کے مختلف حصوں کو آپس میں جوڑنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرتا ہے، سیٹ بھی لگتے ہیں، سنیماٹوگرافی یعنی کیمرا مین شپ کا بھی کردار ہوتا ہے، موسیقی بھی اپنے حصے کا کام کرتی ہے، رقص بھی کامیابی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اداکاری کا تنوع بھی فلم کی ضرورت ہوتا ہے۔ محض المیہ اور جذباتی اداکاری سے کام نہیں چلتا۔ صرف ایکشن یعنی مار دھاڑ سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ فلم تھوڑا بہت رومانس بھی مانگتی ہے اور تھوڑے بہت مزاح کی بھی طالب ہوتی ہے۔ اچھا فلم میکر وہ ہے جو فلم کے تمام اجزا میں توازن کا خیال رکھے۔ صرف گانے اچھے ہوں اور باقی تمام شعبوں کو نظر انداز کردیا جائے تو فلم اکثر ناکام رہتی ہے۔ تال میل کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی کامیابی میں جو چیزیں اور باتیں اجزائے ترکیبی کا درجہ رکھتی ہیں اُن میں توازن کا پورا خیال رکھا جائے۔ کمزور کہانی، بے جان منظر نامے اور تھکے ہوئے مکالموں کی حامل فلموں میں دلیپ کمار، امیتابھ بچن اور محمد علی جیسے لیجنڈ اداکاروں کو بھی ناکام دیکھا گیا ہے۔ دلیپ کمار نے بڑھاپے میں عزت دار، دھرم ادھیکاری، قانون اپنا اپنا اور سوداگر جیسی کمزور فلموں میں کام کیا۔ ان فلموں میں ایسا کچھ بھی نہ تھا جسے دلیپ صاحب بامعنی انداز سے نبھاکر اپنے پرستاروں کو مطمئن کر پاتے۔ لال بادشاہ، مرتیو داتا، ہم اور ایسی ہی دوسری بہت سی فلموں میں امیتابھ بچن جیسے اداکار نے بھی مایوس کیا۔ کسی بھی فلم یا ڈرامے کی کامیابی یقینی بنانے میں تمام بنیادی شعبوں کے درمیان تال میل کا کلیدی کردار ہوا کرتا ہے۔ یہ حقیقت نظر انداز کرنے والے منہ کے بل گرتے ہیں۔
اگر دُھن کمزور ہو اور شاعری پُھسپھسی ہو تو محمد رفیع اور مکیش جیسے عظیم گلوکار بھی اپنی آواز کا جادو جگانے میں ناکام رہتے ہیں۔ بڑے بجٹ کی کئی فلمیں محض اس لیے ناکام رہیں کہ دو چار معاملات پر زیادہ توجہ دی گئی اور باقی تمام معاملات کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ یہی معاملہ ٹی وی کے ڈراموں کا بھی ہے۔ جب پروڈیوسرز ساری توجہ صرف کاسٹنگ پر مرکوز رکھتے ہیں تب کشتی ڈوب جاتی ہے۔ اچھا ڈراما لکھنے کے لیے مصنف کو بھی اچھا معاوضہ دینا ہوتا ہے، موسیقی پر بھی دھیان دینا لازم ہے، ایڈیٹنگ بھی معیاری ہونی چاہیے، سیٹ معقول ہونے چاہئیں، لوکیشنز دلکش ہونی چاہئیں۔ کوئی بھی ڈراما محض بڑے چہروں کی بنیاد پر ہٹ نہیں ہوسکتا۔ کوئی بھی اداکار اچھی اداکاری اُسی وقت کرسکتا ہے جب سکرپٹ اچھا ہو اور مدِمقابل بھی جاندار ہو۔ دلیپ کمار، امیتابھ بچن اور محمد علی جیسے اداکاروں نے بھی شاندار اداکاری اُسی وقت کی جب اُن کے مقابل معیاری اور منجھے ہوئے اداکاروں کو سائن کیا گیا‘ بالخصوص منفی کرداروں میں۔ ہیرو کو نمایاں کرنے کے لیے ولن کا نمایاں ہونا بھی ناگزیر ہے۔ کمزور ولن پوری فلم میں جھول پیدا کردیتا ہے۔
کوئی بھی کاروباری ادارہ حقیقی کامیابی سے اُسی وقت ہم کنار ہو پاتا ہے جب تمام اہم شعبوں میں مثالی نوعیت کا تال میل پایا جاتا ہو۔ کسی صنعتی ادارے میں جتنی اہمیت مشینوں کی ہے اُتنی ہی اہمیت اُنہیں چلانے والوں کی بھی ہے۔ شعبۂ مالیات بھی کم اہم نہیں ہوتا کیونکہ یہ شعبہ اہم معاملات کے لیے فنڈز مختص کرنے میں فعال ترین کردار ادا کرتا ہے۔ کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹنٹس بھی صنعتی ادارے کو کامیاب بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ملازمین اور انتظامیہ کے تعلقات بہتر رکھنے کے ذمہ دار شعبے کو بھی اپنا کردار پوری سنجیدگی اور دیانت سے ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر یہ شعبہ ناکام رہے تو ادارے کی مجموعی کارکردگی پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اداروں کا اندرونی توازن برقرار رکھنا مالکان اور انتظامیہ‘ دونوں کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ انفرادی ذمہ داری کا محسوس کیا جانا بھی لازم ہے۔ ملازمین میں کام کرنے کی لگن توانا رکھنے کے حوالے سے بھرپور کردار ادا کرنا انتظامیہ کا کام ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو بات نہیں بنتی۔ اداروں کا اندرونی توازن برقرار رہتا ہے تال میل سے یعنی یہ کہ تمام شعبے اپنے حصے کا کام پوری توجہ سے کریں اور اُنہیں کماحقہٗ اہمیت دی جاتی رہے۔ اگر کسی ایک شعبے پر زیادہ توجہ دی جائے تو دیگر شعبوں سے وابستہ افراد میں بددلی اور بدگمانی پھیلتی ہے جو بالآخر ادارے پر ناکامی کے دروازے کھولتی ہے۔
کرکٹ‘ ہاکی یا فٹ بال کی کوئی بھی ٹیم کسی ایک یا چند کھلاڑیوں کی بنیاد پر چل سکتی ہے؟ تجربہ شاہد ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ کرکٹ ہی مثال لیجیے۔ اگر کسی ٹیم کو پچاس اوورز میں ساڑھے تین سو رنز کا ہدف ملا ہو اور دو کھلاڑی سینچریاں بھی سکور کر ڈالیں تو باقی کھلاڑیوں کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ چلئے! اس مثال کو ذرا پھیلا لیتے ہیں۔ فرض کیجیے پچاس اوورز میں ساڑھے تین سو رنز کے ہدف کی دوڑ میں ٹیم کے نو کھلاڑی دو سو یا سوا دوسو رنز کے مجموعی سکور پر پویلین واپس پہنچ گئے ہیں، اب؟ اگر ایک ہی مرکزی بیٹسمین بچا ہو اور اچھی طرح کھیل رہا ہو تب بھی اتنا تو لازم ہی ہے کہ اُس کے ساتھ دوسرے اینڈ پر ایک کھلاڑی موجود رہے۔ اُس کی شاندار کارکردگی میں دوسرے اینڈ پر ٹِکے ہوئے ٹیل اینڈر کے کردار کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اب چاہے فتح کے لیے درکار آخری سو یا سوا سو رنز میں اس کا عطیہ محض سات آٹھ رنز ہی کا ہو، مین بیٹسمین کی عمدہ کارکردگی یقینی بنانے میں اُس ٹیل اینڈر کے وکٹ پر ٹِکے رہنے کا بھی بنیادی کردار ہوگا۔ حقیقی کاروباری سُوجھ بوجھ رکھنے والے اپنے اداروں کو کامیابی سے ہم کنار رکھنے کے لیے تمام کلیدی شعبوں میں بہترین تال میل ممکن بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ وہ تجربے کی بنیاد پر اِس بات کو سمجھتے ہیں کہ کامیابی بہت سے افراد اور مختلف عوامل کی عمدہ کارکردگی کے امتزاج سے ممکن ہو پاتی ہے۔ مثالی کاروباری ادارے وہ ہیں جو کامیابی کے کریڈٹ میں تمام ملازمین کو شریک کرتے ہیں، اُن کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں۔ اِس سے مورال بلند رکھنا ممکن ہو پاتا ہے اور ادارہ فروغ پاتا رہتا ہے۔ معاملہ صرف مل کر کام کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر شعبے سے وابستہ افراد کی متوازن کارکردگی یقینی بنانے کا بھی ہے۔ اِسی لیے کارپوریٹ کلچر تال میل کا جادو جگانے پر خوب زور دیتا ہے۔