"MIK" (space) message & send to 7575

ذمہ داری تینوں کی ہے

جنوبی ایشیا کے خطے کا بھی کیا نصیب ہے کہ مستحکم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ آبادی اور معیشت کے اعتبار سے دو بڑے ممالک (چین اور بھارت) اس خطے میں واقع ہیں۔ پاکستان بھی محلِ وقوع اور افرادی قوت کے تنوع کے اعتبار سے کچھ کم نہیں۔ پھر بھی یہاں استحکام کی منزل تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ہو پاتا۔ اس کا بنیادی سبب شاید یہ ہے کہ دور افتادہ خطوں کی جن بڑی طاقتوں کو اپنا استحکام عزیز ہے اور جو اپنی طاقت برقرار رکھنے کے فراق میں رہتی ہیں وہ اس خطے پر خصوصی ''نظرِ کرم‘‘ رکھتی ہیں۔ اُن کی پوری کوشش ہے کہ جنوبی ایشیا کے طاقتور ممالک آپس میں دست و گریباں رہیں۔ یہ کیفیت کم وبیش سات عشروں سے برقرار ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں اور ایک فل سکیل جنگ بھارت اور چین کے درمیان بھی ہوئی ہے۔ پڑوسی تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ یہ ممالک ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہوتے ہوئے بھی معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ دانش مندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت مل کر چین کی طرف واضح جھکاؤ پیدا کریں اور اُس کی طاقت و مہارت سے کماحقہٗ مستفید ہوں۔ ایسا ہو تو یہ خطہ عالمی طاقت کا مرکز بننے میں دیر نہ لگائے مگر ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کے برعکس مغرب کے خالص شاطر ذہن جنوبی ایشیا کے تینوں بڑے ممالک کو آپس میں الجھائے ہوئے ہیں۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے بہت سے طریقے اپنائے گئے ہیں۔ ایک اچھا طریقہ اِنہیں آپس میں لڑانے کا رہا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان معاملات کو معمول پر لانے کی ہر کوشش بروقت ناکام بنائی جاتی ہے۔ اِس ''نیک‘‘ کام میں مخصوص لابیاں اپنا اپنا کردار ادا کرتی آئی ہیں۔ جب پاکستان معاملات کو درست کرنے کا ڈول ڈالتا ہے تو نئی دہلی کے مخصوص با اثر حلقے اپنے حصے کا یعنی منفی کام کرنے لگتے ہیں اور جب بھارت کی جانب سے کوئی ایسی کوشش ہو تو کچھ ایسے حالات پیدا ہو جاتے یا کر دیے جاتے ہیں کہ بات بن نہیں پاتی۔ نتیجتاً بگڑی بات کو بنانے کا عمل ابھی شروع بھی نہیں ہوا ہوتا کہ ختم ہونے لگتا ہے۔ یہ تماشا دونوں ممالک کے عوام ہی نہیں بلکہ عالمی برادری بھی کم و بیش سات عشروں سے دیکھ رہی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بھارت اور چین کے مابین ہے۔ دونوں کے تعلقات معمول پر لانے کی کوشش دونوں طرف سے کی جاتی رہی ہیں مگر مغرب اپنا گھناؤنا کردار ادا کرنے سے باز نہیں رہتا اور کسی نہ کسی طور صورتِ حال کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مغرب کی کامیابی کا راز یہ نہیں کہ وہ طاقتور ہے بلکہ اُس کی کامیابی اِس خطے کے ممالک کی کمزوری کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔ چین کے مقابلے میں بھارت ایک چھوٹا ملک شمار ہو گاجبکہ محلِ وقوع کے اعتبار سے پاکستان کا کوئی ثانی نہیں۔ پھر بھی خطے کے حوالے سے حقیقی اور کلیدی کردار سبھی کو ادا کرنا ہے اور چین اور بھارت پر‘ بڑے ملک ہونے کے باعث زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، چین اپنے حصے کا کام بہت حد تک کرچکا ہے مگر بھارت اب تک علاقائی تھانیداری کے زعم میں مغرب کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ بھارت چونکہ ایک بڑی منڈی ہے اور اُس کی تربیت یافتہ اور ہنرمند افرادی قوت پوری دنیا میں پائی جاتی ہے اس لیے وہ مغرب کی خصوصی نظر میں رہتا ہے اور ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرانے میں بھی بسا اوقات کامیاب ہو جاتا ہے۔
سوال ہی سوال ہیں جو تشنۂ توضیح و تصریح ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو مل بیٹھ کر آپس کے تعلقات اور خطے کی صورتِ حال کے تناظر میں ایسی جامع حکمتِ عملی تیار کرنا ہے جس سے دونوں ہی کو فائدہ پہنچے۔ افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال نے لازم کردیا ہے کہ نئی دہلی اور اسلام آباد اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چین کے ساتھ مل بیٹھیں اور خطے کے معاملات درست رکھنے کے حوالے سے جامع حکمتِ عملی تیار کرنے پر متوجہ ہوں۔ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ تعمیری انداز سے کچھ کرنے کی گھڑی یہی ہے۔ افغانستان کی صورتِ حال‘ جو کچھ دکھائی دے رہی ہے اُس سے ہٹ کر بھی کوئی کہانی سُنارہی ہے۔ کئی معاملات ہیں جو اب تک واضح نہیں ہوسکے ہیں۔ طالبان کی آمدِ نو سے متعلق متعدد امور اب تک تشنۂ توضیح ہیں۔ حالات و واقعات پر تھوڑا سا غور کرنے کی صورت میں کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ معاملات وہ نہیں جو دکھائی دے رہے ہیں۔ طالبان جس انداز سے آئے ہیں‘ وہ بھی خاصی مبہم صورتحال ہے‘ یہ کیا چیستان ہے یہ تو وقت آنے ہی پر کھل سکے گا؛ تاہم اِس وقت کرنے کا کام یہ ہے کہ خطے کے بڑے سٹیک ہولڈرز مل بیٹھیں اور افغانستان کے بدلے ہوئے حالات کے تناظر میں اپنا اپنا لائحۂ عمل مرتب کرکے ایک دوسرے کے سامنے رکھیں تاکہ خطے کے مجموعی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر کچھ کیا جاسکے۔ایک زمانے سے جنوبی ایشیا کا خطہ حالات کی شدید خرابی کا شکار ہے۔ تینوں بڑے سٹیک ہولڈرز معاملات کو معمول اور استحکام کی منزل تک لانے میں خاطر خواہ حد تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ بھارت کی طرف سے بے عقلی کا مظاہرہ کچھ زیادہ ہی کیا گیا ہے۔ اس وقت بھی وہاں انتہا پسندجتھے کی حکومت ہے جو معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید بگاڑنے پر تُلی ہوئی ہے۔ نریندر مودی چونکہ انتہا پسندوں کے کاندھوں پر سوار ہوکر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے ہیں اِس لیے اُن سے بہتری کی کچھ خاص توقع رکھنا عبث ہے۔ بھارت میں معتدل یا سیکولر ذہن کی حکومت قائم ہو تو بات بنے۔ اس میں وقت لگے گا۔ خطے کے حالات کا انتہائی نوعیت کا تقاضا ہے کہ ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر بدلی ہوئی صورتِ حال کے مطابق فیصلے کیے جائیں، نئی پالیسیاں مرتب کی جائیں، نئی حکمت ہائے عملی ترتیب دی جائیں۔
بھارت نے افغانستان میں سٹریٹیجک ڈیپتھ پیدا کرنے کا ڈول ڈال کر معاملات کو مزید الجھادیا ہے۔ افغان سرزمین پر اُس نے اچھی خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ ایسے میں حالات کا یکسر پلٹ جانا اُس کی امیدوں پر پانی سا پھیر گیا ہے۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ طالبان کی آمدِ نو سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے حوالے سے کیا رویہ اپنائیں۔ اس صورتِ حال میں بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹس دیوانے پن کا شکار ہو کر خاصے غیر ذمہ دارانہ رویے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک طرف وہ طالبان کے نام کی دہائی دے رہے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کو مطعون کرنے سے باز نہیں آرہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ طالبان کی آمدِ نو پاکستان سے سیٹنگ کے نتیجے میں ممکن ہوسکی ہے اور یہ کہ اِس کا بنیادی مقصد افغانستان میں بھارتی مفادات کو ملیامیٹ کرنا ہے۔ اس سوال کا جواب بھارت کا کوئی بھی میڈیا آؤٹ لیٹ اور کوئی بھی دانشور یا تجزیہ کار نہیں دیتا کہ کیا واقعی پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ امریکا اور نیٹو کو تگنی کا ناچ نچا سکے؟ اور اگر اہلِ بھارت ایسا ہی سمجھتے ہیں تو پھر تو ان کے لیے پاکستان سے ڈرنا لازم ٹھہرا۔ ڈرنے والے چپ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب اگر بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹس اور تجزیہ کار پاکستان کے معاملے میں خاموش نہیں ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو بدنام کرنے اور افغان جنگ میں شکست کا ملبہ اس پر ڈالنے سے زیادہ اُن کا کوئی مقصد نہیں۔جنوبی ایشیا ایک بار پھر دو راہے یا تراہے پر کھڑا ہے۔ اب معاملات مختلف ہیں۔ چین پوری طرح تیار ہے اور روس بھی نئے عزائم کے ساتھ خم ٹھونک کر میدان میں آگیا ہے۔ چین، روس، پاکستان، ایران اور ترکی مل کر خطے کو نئی شکل دے سکتے ہیں۔ بھارت کو اس معاملے سے الگ رکھنا خطے کے لیے سودمند نہیں ہوگا مگر المیہ یہ ہے کہ عاقبت نا اندیش بھارت خود اس معاملے سے الگ تھلگ رہنے کی راہ پر گامزن ہے۔اس کی یہ عاقبت نا اندیشی اور ہٹ دھرمی اسے تو لے ہی بیٹھے گی‘ خدشہ ہے کہ باقی خطے کے لیے بھی یہ نقصان دہ ثابت ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں