بھارت نے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دیے اور پھر وہ انڈے ٹوٹ گئے۔ انڈے کیا ٹوٹے، سچ تو یہ ہے کہ ٹوکری ہی نہیں رہی! جس انداز سے امریکا اور بھارت کو افغانستان سے نکلنا پڑا ہے اُسے دیکھتے ہوئے میرزا نوشہ یاد آئے بغیر نہ رہے ع
بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے
نریندر مودی سمجھ رہے تھے کہ امریکا کے ساتھ جُڑ کر وہ چین کو گھیرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور پھر ایک طویل مدت تک عالمی سیاست و معیشت میں ''بھارت دے نعرے وجن گے!‘‘ مگر معاملات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کا موجودہ ''گاڈ فادر‘‘ سیاسی و سفارتی اعتبار سے بے پیندے کا لوٹا دکھائی دے رہا ہے جو لڑھکتا چلا جا رہا ہے۔ نریندر مودی اور اُن کی ٹیم نے شاید سوچا بھی نہ ہوگا کہ حالات یوں پلٹا کھائیں گے اور افغانستان کے رِنگ میں اُن کے پاس ناک آؤٹ ہونے کے سوا آپشن نہ رہے گا۔ ایسا پہلی بار کہاں ہوا ہے۔ زمینی حقیقتوں کو یکسر نظر انداز کرنے کے ایسے ہی نتائج نکلا کرتے ہیں۔ ایشیا ٹائمز کے لیے اپنے ایک مضمون میں سیاسی اور سٹریٹیجک امور کے معروف نیپالی تجزیہ کار بھیم بُھرتیل نے لکھا ہے کہ نریندر مودی نے امریکا پر ضرورت سے زیادہ بھروسا کرکے جو جوا کھیلا تھا اُس نے معاملہ اُلٹ دیا یعنی لینے کے دینے پڑگئے۔ بھارت نے بازی یوں ہاری ہے کہ فی الحال اُس کے پاس صرف پچھتاوے کا آپشن بچا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی فتح نے بھارت کے لیے علاقائی ہی نہیں‘ عالمی سطح پر بھی مثالی نوعیت کی رُسوائی کا سامان کیا ہے۔ دو عشروں کے دوران بھارت نے افغانستان میں اپنے لیے گنجائش پیدا کرنے کی خاطر تین ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی۔ افغانستان میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں بھی بھارت نے کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ یہ سب کچھ فائدہ بھی دے سکتا تھا مگر سوال نیت کا تھا۔ بھارت کی نیت کچھ اور تھی۔ اگر بھارتی قیادت افغانستان کا بھلا چاہتی تو بات اور تھی مگر وہ تو افغانستان میں پاکستان کا مقابلہ کرنے کے لیے بیٹھی تھی۔ بھارت نے اس دوران چند برسوں میں امریکا سے کئی معاہدے کیے جن کی بنیاد پر وہ اُس کا پارٹنر اور اتحادی بن گیا۔ خواہش یہ تھی کہ چین کو کسی نہ کسی طور قابو میں رکھا جائے۔ اِس کے لیے امریکا پر کچھ زیادہ ہی بھروسا کرلیا گیا۔ اور پھر وہی غلطی ہوئی جس کا ڈر تھا، نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی پالیسی میکرز نے تمام انڈے امریکی ٹوکری میں رکھ دیے۔ چین کو الجھانے کے قابل ہونے کے لیے امریکا کا سہارا تلاش لیا گیا جبکہ امریکا تو خود افغانستان سے جان چھڑانے کے فراق میں مبتلا تھا۔ اس غلطی کا جو نتیجہ برآمد ہوسکتا تھا‘ وہی برآمد ہوا ہے۔ امریکا نے افغانستان سے اپنی بساط لپیٹ لی ہے۔ بھارت کو بھی مجبوراً ایسا ہی کرنا پڑا۔ دونوں کو افغانستان سے شدید پریشانی، تناؤ، بے یقینی اور مایوسی کے عالم میں رخصت ہونا پڑا ہے۔ امریکا نے تو اپنے بہت سے ہتھیار، گاڑیاں، طیارے وغیرہ تباہ کردیے یا اُن کی ایسی حالت کردی کہ اُنہیں ناقابلِ استعمال بنا دیا ہے۔ بھارت ایسا کیسے کرسکتا تھا؟ اُس نے پُل بنائے تھے، سڑکوں کے علاوہ ایک ڈیم بھی تعمیر کیا تھا۔
بھارت کے وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی نے بعض ایسے فیصلے کیے جن کا کوئی بھی جواز پہلے تھا‘ نہ اب ہے۔ انہوں نے زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرکے ایسا بہت کچھ کیا جو بھارت کے مفاد میں نہیں تھا۔ یہی سبب ہے کہ آج خطے میں خشکی سے گِھرے ہوئے بھوٹان کے سوا، جو اپنے معمولی سے رقبے اور انتہائی قلیل آبادی کے باعث بغل بچے کی حیثیت رکھتا ہے، کوئی بھی ملک بھارت کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔ نریندر مودی کو بھوٹان کے سوا خطے کے کسی بھی ملک میں احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ وزیر اعظم کے منصب پر ہوتے ہوئے اُنہوں نے ملکی سیاست کے بعض ایسے فیصلے کیے جو اس منصب کو کسی طور زیبا نہیں۔ اُن کی کوتاہ بینی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ وہ مغربی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ وزیر اعظم بننے سے قبل اُنہوں نے مرکز میں کسی بھی منصب پر کام نہیں کیا تھا۔ اُمورِ خارجہ اور سٹریٹیجک معاملات میں اُن کا تجربہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایسے میں وزیر اعظم بن کر اُنہیں بلنڈر ہی تو کرنا تھے‘ سو وہ کر رہے ہیں۔ اُن کی کوتاہیوں ہی کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی تگ و دَو سے نہ تھکنے والا بھارت آج خود تنہا کھڑا ہے۔ کئی معاہدوں کے تحت وہ امریکا کا پارٹنر اور اتحادی ہے مگر امریکا اُس کی کیا مدد کرے‘ وہ تو خود اس وقت مشکلات کا شکار ہے اور عالمی برادری میں رہی سہی ساکھ بچانے کی کوشش کر رہا ہے ع
وہ شاخ ہی نہ رہی جو آشیاں کے لیے
افغانستان میں تو اب بھارت کے لیے کچھ بچا نہیں۔ رسمی نوعیت کے سفارتی تعلقات بحال ہوسکتے ہیں مگر وہاں اپنے لیے حقیقی گنجائش پیدا کرنے کی خواہش کسی بھی طور عملی شکل اختیار نہیں کر پائے گی۔ طالبان نے دو عشروں تک جو کچھ برداشت کیا ہے اُس کے تناظر میں بہت آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ اب وہ بھارت سمیت ایسے کسی بھی ملک کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے جنہوں نے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا ساتھ دیا ہو۔ چین کو منہ دینے کی کوشش میں ناکامی پر بھارت کی بے بسی اب اِس حد کو پہنچی ہے کہ اُسے مشرقِ وسطیٰ اور وسطِ ایشیا میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے خود چین کی مدد درکار ہے۔ چین سب سے بڑی منڈی ہے، بیرونی سرمایہ کاری میں بھی چین کسی سے کم نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مغرب جن ٹیکنالوجیز کی منتقلی میں اب تک شدید خِسّت کا مظاہرہ کرتا رہا ہے وہی ٹیکنالوجی تھوڑے سے فرق سے چین کی معرفت مل سکتی ہیں۔
ایک زمانے سے عالمی سیاست و معیشت اور سٹریٹیجک امور کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ طاقت کا مرکز اب ایشیا کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ چین نے مغرب کے لیے حقیقی حریف کی حیثیت سے ابھر کر اپنے حصے کا کام بہت حد تک کردیا ہے۔ امریکا کو یورپ کا سہارا درکار رہا ہے۔ چین نے اب روس، پاکستان اور ترکی وغیرہ کی طرف نظریں اٹھائی ہیں۔ چین، روس، پاکستان، ترکی اور ایران مل کر ایک وسیع تر اتحاد یا بلاک کی منصوبہ سازی کر رہے ہیں۔ یہ کوئی خواب و خیال کی بات نہیں‘ زمینی حقیقت ہے۔ نریندر مودی نے شاید یہ کہاوت نہیں سنی تھی کہ جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے‘ وہ خود اُس میں گرتا ہے۔ نریندر مودی اینڈ کمپنی نے چین اور پاکستان کے لیے گڑھا کھودنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے اُس امریکا کا سہارا لینے کی کوشش کی گئی جو پہلے ہی یورپ کے آسرے پر جیتا آیا ہے۔ اب یورپ نے امریکا کو رونے کے لیے اپنا کاندھا فراہم کرنے سے انکار کرنے کی روش اپنالی ہے۔ ایسے میں واشنگٹن کے پالیسی میکرز کے پاس تنہا چلنے کا آپشن بچا ہے۔ امریکا کو چند خلیجی قیادتوں کا ساتھ نصیب ہے مگر یہ معاملہ بھی کب تک چلے گا؟ عالمی سیاست و معیشت کی بات تو جانے ہی دیجیے، اب تو بھارت علاقائی معاملات میں بھی تنہا ہوچکا ہے۔ حالات و واقعات کو نظر انداز کرنے پر بیشتر بھارتی تجزیہ کاروں کو حیرت بھی ہے اور ملال بھی مگر اِس کی اب کوئی گنجائش نہیں کیونکہ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
اب بھی وقت ہے۔ بھارتی قیادت خطے کے حالات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ایسی پالیسیاں مرتب کرے جن سے اشتراکِ عمل کی راہ ہموار ہوتی ہو نہ کہ مخاصمت کی۔ بھارت عسکری بنیاد پر چین سے لڑ سکتا ہے نہ ہی پاکستان سے۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا اب اُس کی بالا دستی قبول کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہیں نہ مجبور۔ ایسے میں صرف دوستی، مفاہمت اور اشتراکِ عمل کا آپشن ہی باقی رہ جاتا ہے۔