وزیراعظم عمران خان نے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں خاصے مصروف دن گزارے۔ اس معاملے میں ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ افغانستان کے حوالے سے معاملات درست کرنے کا عمل شروع کرنے میں انہوں نے ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی۔ ویسے افغانستان میں طالبان کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے مصروف تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی بہت رہے ہیں۔ انہوں نے بھی وسطی ایشیا کی ریاستوں کے دورے کرکے افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال کے تناظر میں خطے کے لیے دوستی، مفاہمت اور اشتراکِ عمل کی گنجائش پیدا کرنے پر خاصی توجہ دی ہے۔ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی نے پورے خطے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ چین اور روس بھی غیر معمولی سطح پر متحرک ہیں۔ ایسے میں پاکستان کا متحرک ہونا بھی لازم ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے بیسویں سربراہی اجلاس کے علاوہ روس کی چھتری تلے کام کرنے والی یوریشیائی تنظیم ''کلیکٹیو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن‘‘ (سی ایس ٹی او) کے اجلاس سے بھی خطاب کیا۔ وزیر اعظم کی مصروفیات میں طالبان سے مذاکرات بھی شامل ہیں تاکہ افغانستان میں وسیع البنیادی حکومت کا قیام یقینی بنایا جاسکے۔ ان مذاکرات کا بنیادی مقصد حکومت کی صفوں میں تاجک، ازبک اور ہزارہ شخصیات کو بھی شامل کرنا ہے تاکہ ایک ایسی حکومت یقینی بنائی جاسکے جسے ملک کے ہر حصے میں قبول کیا جائے۔ خطے کی بدلی ہوئی صورتِ حال کے تناظر میں پاکستان کی اہمیت اچانک بہت بڑھ گئی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ کچھ دن قبل اسلام آباد میں پاکستان کی میزبانی میں چین، روس، قازقستان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران کے انٹیلی جنس چیفس کی ملاقات ہوئی۔ اس سے قبل امریکی خفیہ ادارے سی آئی کے سربراہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ سی آئی اے چیف نے نئی دہلی جاکر بھارتی قیادت سے بھی افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال پر گفت و شنید کی اور ''امکانات‘‘ کا جائزہ لیا۔ خطے کے حالات سے بھارت بہت پریشان ہے۔ بہت کچھ ہے جو اُس کے ہاتھوں سے اچانک نکل گیا ہے۔ بھارتی قیادت افغانستان کو بنیاد بناکر علاقائی سطح پر اپنے لیے قائدانہ کردار تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ سٹریٹیجک معاملات میں گنجائش تلاش کرنے کا عمل جاری تھا کہ اچانک سب کچھ بدل گیا۔ ؎
وہ یوں گئے کہ ہاتھ سے جاتا رہا یہ دل
میں دیکھ ہی رہا تھا کہ منظر بدل گیا
بھارت کی پریشانی میں یوں بھی اضافہ ہو رہا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے علاقائی سطح پر جتنی بھی مشاورت ہو رہی ہے اُس میں بھارتی قیادت کو زحمتِ شرکت نہیں دی جارہی۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بھارت کا افغانستان سے براہِ راست کوئی جغرافیائی اور سٹریٹیجک تعلق ہے ہی نہیں۔ افغانستان میں اپنے لیے سٹریٹیجک ڈیپتھ پیدا کرنے کی بھارتی قیادت کی خواہش کی کوئی بنیاد نہیں تھی۔ افغانستان کو اپنے طفیلی کا درجہ دے کر بھارت خطے میں اپنی برتر پوزیشن منوانے کا خواہش مند رہا۔ سرد جنگ کے زمانے میں بھی بھارت نے افغانستان کو بروئے کار لاتے ہوئے خطے میں اپنی مرضی کا ماحول پیدا کرنے کی کئی بار کوشش کی تھی۔ ناکامی کی صورت میں بھارتی قیادت جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتی تو غصہ کمزور پر اُترتا، اب بھی ایسا ہی ہے، بھارت بھر میں انتہا پسند ہندوؤں کو کچھ بھی کر گزرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ افغانستان میں بھارت کو جس عبرت ناک انداز سے منہ کی کھانا پڑی‘ اُس سے پیدا ہونے والی خفت مٹانے کے لیے بھارت بھر میں مسلم مخالف لہر میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان کی بدلتی صورتحال کو بعض ممالک ایک بار پھر ابھرتے ہوئے خطرے کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ علاقائی سطح پر آنیاں جانیاں بڑھ گئی ہیں۔ خفیہ اداروں کے آپس میں رابطے بھی اِسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے کوئی بامعنی اور بامقصد کردار ادا کرنے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم بھی خاصی تیزی سے متحرک ہوئی ہے۔ افغانستان سے امریکا جس بھونڈے انداز سے نکلا ہے اور انخلا کے آخری لمحات میں جو کچھ دکھائی دیا اُس کے منطقی نتیجے کی شکل میں افغانستان کو شک کی نظر سے دیکھنے پر مجبور کرنے والے حالات بھی موجود ہیں؛ تاہم حالات کی مہربانی سے پاکستان سٹریٹیجک اعتبار سے‘ اچانک ابھر کر سامنے آگیا ہے ؎
زہے نصیب کہ اب ہم ہیں مرکزِ اُمید
امیرِ شہر تو اپنا وقار کھو بھی چکا
افغانستان اور پاکستان کا امن‘ چین اور روس دونوں کو عزیز ہے کیونکہ دونوں کے حقیقی مفادات اس خطے میں امن و استحکام سے جُڑے ہیں۔ امریکی قیادت تاحال کوئی فیصلہ نہیں کرپائی کہ اب جنوبی ایشیا کے حوالے سے کیا کرنا ہے، کسے ساتھ رکھنا ہے اور کسے ردّی کی ٹوکری میں ڈالنا ہے۔ جنوبی ایشیا سے وسطی ایشیا تک کا خطہ عالمی سیاست میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ امریکی انخلا کے بعد‘ اب خطے میں خلا پایا جاتا ہے۔ چین اور روس اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان اپنے محلِ وقوع کی مناسبت سے ترجیحات میں نمایاں ہے۔ علاقائی سطح پرکسی بھی بڑے فیصلے سے پاکستان کو الگ یا دور نہیں رکھا جاسکتا۔ وقت کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ ہم سنجیدہ ہوں اور ہر فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کریں۔ ہم مرکزِ اُمید ہیں تو ہم پر ذمہ داریاں بھی زیادہ عائد ہوتی ہیں۔ذمہ داریوں سے بڑھ کر اہمیت ہے احساسِ ذمہ داری کی۔ پاکستان کو دوسروں کی پالیسی کو آگے بڑھانے سے بچنا اور اپنے لیے ایسا کردار تراشنا ہے جس کی مثال دی جائے۔ مغربی طاقتوں کو جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور یوریشیا کے خطے میں دوبارہ قدم جمانے سے روکنے کے لیے لازم ہے کہ ان تینوں خطوں کے ممالک مل کر وسیع بنیادوں پر سٹریٹیجک اور معاشی اتحاد تشکیل دیں۔ آپس کی تجارت بڑھاکر تینوں خطوں کو معاشی اور دفاعی اعتبار سے مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ ایسا ہو تو مغربی طاقتیں یہاں کوئی نیا کھیل کھیلنے سے پہلے غور و فکر پر مجبور ہوں گی۔ یہ بھی لازم ہے کہ تینوں خطوں کی ریاستیں ایک دوسرے کو تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کریں۔ روس یوریشیا کے خطے میں حقیقی قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف چین بھی عالمگیر قوت کی حیثیت کا حامل ہوچکا ہے۔ اب تک دونوں بڑی طاقتوں نے مفادات کے غیر معمولی تصادم کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ دونوں کو یہ بھی اندازہ ہے کہ انہیں باہم لڑانے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ محاذ آرائی پر ہم آہنگی اور اشتراکِ عمل کو ترجیح دی جائے۔ اب تک دونوں طاقتیں یہی کرتی آئی ہیں۔
افغانستان میں غیر متوقع اور اچانک تبدیلی سے بہت کچھ تلپٹ ہوگیا ہے۔ غیر یقینی صورتِ حال نے معاشی معاملات کو زیادہ بگاڑا ہے۔ بیرونی تجارت شدید متاثر ہوئی ہے۔ ایسے میں افغانستان کے طول و عرض میں اشیائے خور و نوش کی قلت پیدا ہوچکی ہے۔ کسی بڑے انسانی المیے کو ٹالنے کے لیے لازم ہے کہ عالمی برادری طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر فوری امداد کا اہتمام کرے۔ اثاثوں کا انجماد ختم کیا جانا چاہیے تاکہ تمام ضروری ریاستی امور کی انجام دہی ممکن ہوسکے۔
پاکستان کی نظر افغانستان پر جمی ہے اور دنیا کی نظریں پاکستان پر۔ افغانستان میں پیدا ہونے والی خرابیاں ہمارے لیے بھی خرابیاں پیدا کر سکتی ہیں جس سے پورے خطے میں عدم استحکام کی راہ ہموار ہو گی۔ پاکستان میں استحکام کی بحالی ناگزیر ہے۔ افغان سرزمین کو شورشوں سے پاک رکھنے میں کامیاب ہونے کی صورت میں ہمارے ہاں بھی استحکام رہے گا۔ یہ استحکام چین اور روس کے مفاد میں بھی ہے۔ ایسے میں بجا طور پر یہ توقع رکھی جانی چاہیے کہ یہ دونوں طاقتیں مل کر اب خطے میں ایسا کچھ نہیں ہونے دیں گی جس سے علاقائی سطح پر وسیع تجارت اور سٹریٹیجک معاملات میں اپنی مرکزیت پیدا کرنے کا ان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے سے رہ جائے۔