پاک امریکا تعلقات؟ ہائے! یہ بھی کیا کہانی ہے کہ جس میں موڑ ہی موڑ ہیں، چونکادینے والے لمحات کی بھرمار ہے۔ دیکھنے اور سُننے والوں کے لیے یہ لمحات حیران کر دینے والے ہیں۔ ہم اس کہانی میں ہیں اور دم بدم ہیں‘ اس لیے یہ لمحات ہمارے لیے تو دل دہلادینے والے بھی ہیں۔ سات عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران ہم کم و بیش ہر معاملے میں امریکا کے حلیف رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تعلق یکطرفہ ناز برداری سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ امریکی قیادت کے رویے نے ہمیں اُس سے بدظن اور بددل کیا مگر کم و بیش ہر بار معاملہ یہ رہا کہ ؎
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
ہماری قیادت نے بارہا امریکا کے معاملے میں عجیب و غریب طرزِ فکر و عمل اختیار کی۔ کبھی کبھی تو معاملہ اس طرح کا رہا ہے کہ خود اہلِ وطن بھی سمجھ نہیں پائے کہ ملکی قیادت نے آخر کس بات کا ڈول ڈالا ہے اور دنیا کا معاملہ تو یہ رہا کہ ہم اُس کے سامنے توضیح و تصریح کے قابل بھی نہیں رہے ع
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو بتائے نہ بنے
پاک امریکا تعلقات چٹنی چورن جیسے رہے ہیں، تھوڑے کھٹے‘ تھوڑے میٹھے۔ یہ الگ بات کہ اپنے حالات کے ناموافق ہونے کے باعث ہمیں کھٹاس کچھ زیادہ محسوس ہوتی رہی اور اگر ان میں مٹھاس ہوتی بھی ہے تو ہمارا منہ میٹھا نہیں کر پاتی۔ ہماری کوشش رہی کہ ہمیں علاقائی اور عالمی سطح پر احترام کی نظر سے دیکھا جائے، عالمی برادری برابری اور اخلاص کی بنیاد پر ہمیں قبول کرے ،اس میں ہم کس حد تک کامیاب ہوئے‘ کچھ ڈھکا چھپا نہیں۔ ہم نے اُنہیں دوست بنایا جو اب تک کسی کے نہیں ہوئے۔ امریکا اور برطانیہ کی یاری نے ہمیں قدم قدم پر دھوکا دیا، ہمارا دل توڑا۔ امریکا اور یورپ نے مل کر ہمارے تمام ارادے اور منصوبے ناکام بنائے۔ کیفیت یہ رہی ہے کہ ؎
کبھی جو میں نے مسرت کا اہتمام کیا
بڑے تپاک سے غم نے مجھے سلام کیا
دوستی کے نام پر دونوں خطوں نے ہمیں صرف دلاسا دینے پر اکتفا کیا اور ہم بھی اِس پر راضی ہیں۔ اگر کبھی معاملات زیادہ بگڑے یعنی مغرب نے کچھ زیادہ زیادتی کی ہے اور ہم نے راستہ بدلنے کی کوشش کی تو دیکھتے ہی دیکھتے ایسے حالات پیدا کیے گئے ہیں جن میں ہمارے لیے ناموافقت کے سوا کچھ نہ تھا۔ کمزوری اور مجبوری کی حالت میں انسان پر جو گزر سکتی ہے اور گزرتی ہے‘ وہ ہم پر بھی گزرتی رہی۔ ہم نے جب بھی راستا بدلنے کی کوشش کی، امریکا اور یورپ نے مل کر ایسے حالات پیدا کیے کہ ہمیں سوچنا پڑا ؎
نہ تو ہوش سے تعارف نہ جنوں سے آشنائی
یہ کہاں پہنچ گئے ہم تری بزم سے نکل کے
ہم جسے مغرب سے دوستی سمجھتے رہے وہ دراصل ایک خالص مفادات کی پارٹنر شپ تھی اور ہے۔ اِس پارٹنر شپ میں بھی ہم غیر فعال پارٹنر ثابت ہوئے یعنی ہمارا مفاد برائے نام ہی رہا، منافع میں کچھ زیادہ حصہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ دامن چھڑانے کی ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہوتی رہی ہے۔ بارہا یہ محسوس ہوا ؎
ایسا نہیں کہ اُن سے محبت نہیں رہی
جذبات میں وہ پہلی سی شدت نہیں رہی
دنیا بھی چین سے کہاں بیٹھتی ہے۔ جب بھی راستا بدلنے کا عندیہ دیا گیا یا نئی دوستی، نئی پارٹنر شپ قائم کرنے کی کوشش کی گئی تب اِدھر اُدھر سے طنز کے تیر برسائے گئے۔ اصلاحِ احوال کی خواہش کا اظہار طعن و تشنیع کی نئی راہیں کھولنے کا ذریعہ بن گیا۔ مغرب سے ہٹ کر کسی بھی طاقت کی طرف دیکھنے پر کہا گیا ؎
حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمارؔ
کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا
ایسا نہیں ہے کہ ہم نے دوستی اور پارٹنر شپ کے نام پر مغرب سے دھوکا کھانے پر کبھی احتجاج نہ کیا ہو، تحفظات کے اظہار میں تساہل کا مظاہرہ کیا ہو۔ ہم بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں اور کہتے بھی ہیں مگر وہ سُن کر بھی نہیں سُنتے جنہیں ہم سُنانا چاہتے ہیں ؎
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے ؍ آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
عربی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ جب نصیب ساتھ نہ دے رہا ہو تب اونٹ پر بیٹھے ہوئے شخص کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ مغرب سے تعلقات کے معاملے میں ہماری یہی کیفیت رہی ہے۔ اور نصیب کی بات کیا بیان ہو کہ ہمارا تو اونٹ بھی بیٹھا ہوا ہے! مغرب نے چار سو ایسے جال بُن رکھے ہیں کہ نکلنے کا سوچتے بھی جھرجھری سی آتی ہے۔ جس طرف بھی قدم اٹھائیے، کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کردی جاتی ہے۔ اب نیوزی لینڈ کے دورے کی تنسیخ کا معاملہ ہی لیجیے۔ چند ہفتے پہلے ہی کی بات ہے کہ افغانستان سے جیسے تیسے یہ گورے بھاگ کر پاکستان آرہے تھے۔ تب پاکستان سب کے لیے ''سیف ہیون‘‘ تھا۔ اب اچانک یہ ملک سکیورٹی رسک بن گیا! کہیں اس معاملے کا تعلق ارجنٹائن کو 12 جے ایف تھنڈر لڑاکا طیاروں کی فروخت سے تو نہیں کیونکہ اس ڈیل پر برطانیہ کو اعتراض تھا اور جب ہم نہ مانے تو سبق سکھانے کے لیے پہلے مرحلے میں نیوزی لینڈ کا دورہ منسوخ کرایا گیا اور دوسرے مرحلے میں‘ شنید ہے کہ اپنی اور آسٹریلوی ٹیم کا دورہ منسوخ کرایا جائے گا!
یہ بھی کون سی نئی بات ہے۔ کھیلوں کی دنیا میں ہماری نمایاں حیثیت ختم کرنے پر تو مغرب نے باضابطہ کام کیا اور یہ ریکارڈ پر ہے۔ یہاں کرکٹ اور ہاکی کے علاوہ سکواش، ٹینس، ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن اور دیگر کھیلوں میں بھی قابلِ رشک ٹیلنٹ پایا جاتا تھا جو منصوبہ بندی کے ذریعے ختم کرایا گیا۔ ہاکی میں ایک دنیا پاکستان کی قابلیت کا لوہا مانتی تھی۔ اس کھیل کی بساط لپیٹ دی گئی۔ یہی حال سکواش کا ہوا۔ اب سکیورٹی رسک کا بہانہ بناکر دنیا بھر کی ٹیموں کو پاکستان آنے سے روکا جا رہا ہے تاکہ کرکٹ کی بھی بساط لپیٹ دی جائے۔
وقت آگیا ہے کہ مغرب پرستی کا چولا اتار کر پھینک دیا جائے اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی رفاقتوں کا اہتمام کیا جائے جن میں ہمارے لیے برابری کا سامان ہو۔ جتنی ہماری صلاحیت و سکت ہے اُتنا تو ہمیں ملنا ہی چاہیے۔ عالمی برادری کسی جواز کے بغیر، محض مغرب کی طرف سے ڈالے جانے والے دباؤ کے نتیجے میں، ہمیں ہر معاملے میں نظر انداز ہی نہیں کرتی بلکہ پس ماندہ رکھنے پر بھی متوجہ رہتی ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے یہ سب کچھ انتہائی سوہانِ روح ہے۔ خود داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور عزتِ نفس کو محترم سمجھنے کی روش پر گامزن ہوکر ہی ہم مغرب پرستی کا چولا اتار سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کی پاداش میں جو کچھ ہونے کا خدشہ لاحق ہے‘ وہ تو اب بھی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے! بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی ماحول میں تھوڑی سی ہمت کرکے مغرب سے کہہ سکتے ہیں ع
تیرا پردہ ہے مرے خاک بہ سر ہونے تک
سوال صرف یہ ہے کہ ہم اتنا کہنے کا ارادہ رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔