کیا امریکا کو نئے وار تھیٹر کی تلاش ہے؟ یہ سوال بہت سے تجزیہ کاروں کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے۔ افغانستان سے انخلاء کے نتیجے میں جو سُبکی ہوئی ہے وہ اپنی جگہ مگر بُری عادتیں آسانی سے کہاں جان چھوڑتی ہیں۔ امریکا اب بھی طاقت کے مظاہرے کی ذہنیت ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کم و بیش پانچ عشروں سے امریکی پالیسی میکرز جو کچھ کرتے آئے ہیں وہی مزید کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کرنا اُن کی مجبوری اور ضرورت ہے کیونکہ معیشت کے ایک بڑے اور نمایاں حصے کے برقرار رہنے کا مدار اصلاً اس بات پر ہے کہ امریکا دنیا بھر میں قتل و غارت کا بازار گرم رکھے۔ امریکا میں ہتھیاروں اور دیگر دفاعی ساز و سامان کی تیاری سے وابستہ اداروں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور سینکڑوں ارب ڈالر کا یہ دھندا راتوں رات ختم نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا جو کچھ دنیا بھر میں کر رہا ہے اُس کے خلاف باقی دنیا ہی نہیں بلکہ خود امریکا میں بھی صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کی کمی نہیں۔ اس کے باوجود پالیسیوں میں کوئی بڑی اور حقیقی تبدیلی نہیں لائی جارہی۔
گلوبل ریسرچ ڈاٹ سی اے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ٹم کلفرڈ نے لکھا ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے معروف سٹاف رائٹر باب وڈ ورڈ اور رابرٹ کوسٹا نے اپنی نئی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ 6 جنوری 2021ء کو امریکی دارالحکومت میں سرکاری عمارات پر دھاوا بولنے کے موقع پر جب صورتحال نے سنگین شکل اختیار کی تب معاملات درست رکھنے کی خاطر امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک مِلے نے چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے جنرل لی ژو چینگ سے ہاٹ لائن پر رابطہ قائم کیا تھا۔ پہلی بار اُنہوں نے 30 اکتوبر 2020ء کو بات کی تھی اور دوسری بار 8 جنوری 2021ء کو۔ باب وڈ ورڈ اور رابرٹ کوسٹا لکھتے ہیں کہ جنرل مارک مِلے نے جنرل لی ژو چینگ سے کہا کہ امریکا میں حالات قابو میں ہیں‘ فی الحال چین پر حملے کا کوئی امکان نہیں اور اگر حملے کے حالات بنے تو پہلے سے مطلع کردیا جائے گا!
اب ذرا سوچیے کہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو کیا ہوتا۔ جو کچھ جنرل مارک مِلے نے کہا وہی کچھ اگر جنرل لی ژو چینگ نے کہا ہوتا تو؟ امریکا میں ہاہاکار مچ گئی ہوتی اور حفظِ ماتقدم کے طور پر چین پر حملے کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنے کا عمل فوری شروع کردیا گیا ہوتا!
امریکا اب بحرِ ہند اور بحرالکاہل کے ملے جُلے خطے میں کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے آسٹریلیا اور برطانیہ کو ساتھ ملاکر سلامتی کے حوالے سے ایک معاہدہ کیا ہے‘ اتحاد قائم کیا ہے جسے AUKUS کہا جارہا ہے یعنی آسٹریلیا‘ برطانیہ اور امریکا۔ اس معاہدے کا بظاہر بنیادی مقصد یہ ہے کہ اعلیٰ درجے کی دفاعی ٹیکنالوجیز کا تبادلہ کیا جائے۔ یوں آسٹریلیا پہلی بار جوہری آبدوزیں تیار کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں مصنوعی ذہانت‘ کوانٹم فزکس اور سائبر سپیس کے حوالے سے بھی اشتراکِ عمل یقینی بنایا جائے گا۔
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ الگ تھلگ واقع ہوئے ہیں۔ باقی دنیا سے ان کا تعلق کم رہا ہے۔ یہ خاصا پُرامن خطہ ہے اور امریکا اس خطے کا امن بھی داؤ پر لگانا چاہتا ہے۔ جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطٰی سے توجہ ہٹاکر امریکی قیادت کا اوشیانا کی طرف متوجہ ہونا اِس پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیا اب بھی کسی کو اس امر میں کوئی شک ہے کہ امریکا کسی اور کو نہیں بلکہ چین کو براہِ راست نشانے پر لینا چاہتا ہے؟ اس خطے میں آسٹریلیا اور برطانیہ کے مفادات کو کسی بھی طرح کے خطرات لاحق ہونے پر کوئی بھی بہانہ گھڑ کر امریکا لشکر کشی کرسکے گا۔ امریکا کو افغانستان کے حوالے سے ہونے والی سُبکی کے اثرات بھی دور کرنے ہیں اور سپر پاور کی حیثیت سے کچھ بھی کر گزرنے کی سکت کا حامل ہونے کا تاثر بھی برقرار رکھنا ہے۔ یہ خواہش اور کوشش غیر معمولی سطح پر عالمی امن و استحکام کو متاثر کرسکتی ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چین کا موڈ تبدیل ہو رہا ہے۔ کل تک چین اور امریکا کے صدور کی ملاقات کو چینی قیادت سفارت کاری اور پروپیگنڈے کی سطح پر اپنے لیے بڑی کامیابی گردانتی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے۔ چین اپنے مقام کو سمجھتا ہے اور اُسی کے مطابق معاملات کو برت رہا ہے۔ 10 ستمبر کو امریکی صدر نے چینی ہم منصب سے فون پر بات کرنا چاہا مگر انہوں نے انکار کردیا کہ چین کے صدر شی جن پنگ فی الحال سربراہ ملاقات کے لیے تیار نہیں۔ کورونا کی وبا پھیلنے پر وہ کم و بیش 600 دنوں میں بیرونِ ملک نہیں گئے ہیں۔ خیر‘ امریکی صدر سے ملاقات نہ کرنے کا معاملہ کورونا کی وبا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ بات اتنی سی ہے کہ اس ملاقات سے چینی قیادت کو اندرونی سطح پر کسی فائدے کی توقع نہیں۔
چین سے بہتر تعلقات رکھنے میں کامیاب ہونے والے 10 امریکی صدور میں آنجہانی رچرڈ نکسن پہلے تھے۔ 1970 ء کی دہائی کے اوائل میں چین اور امریکا کے درمیان رابطے بڑھے۔ اس کا فائدہ دونوں ہی کو پہنچا۔ چین میں جدت اور ترقی کی راہ ہموار ہوئی جبکہ امریکا کو ایک بڑی منڈی ملی۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا سلسلہ شروع ہوا جو بہت سی مشکلات کے باوجود برقرار رہا۔ تیاننمن سکوائر کے واقعات‘ بلغراد میں چینی سفارت خانے پر امریکی بمباری‘ عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) میں چین کی شمولیت‘ دو طرفہ تجارت میں چین کی برتری‘ تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت‘ دلائی لامہ سے امریکا کے رابطوں اور دیگر بہت سے شدید ناموافق معاملات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارت جاری رہی اور سیاسی روابط بھی بہت حد تک برقرار رہے۔
چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ نے قدرے غیر لچک دار موقف اپنایا ہوا ہے۔ وہ معاملات کو سخت گیری سے طے کرنے کے حق میں ہیں۔ یہ حقیقت بھی خاصی دلچسپ ہے کہ سیاست اور تجارت اب الگ الگ معاملات ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی تجارتی تعلقات کو متاثر نہیں کرتی۔ یہ تاثر بھی اب دم توڑ رہا ہے کہ دو طرفہ تجارت جاندار ہو تو سیاسی روابط بھی بہتر رہتے ہیں۔
چین بہت سے معاملات میں پریشانی سے دوچار ہے۔ سرکاری مشینری میں کرپشن بھی ایک بنیادی اور بڑا مسئلہ ہے۔ ماحول کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے بھی چین کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود شی جن پنگ یہ سمجھتے ہیں کہ چین کا وقت آگیا ہے یعنی اب اُسے دب کر رہنے کی پالیسی ترک کرکے سینہ تان کر سامنے آنا چاہیے اور اپنے آپ کو تمام شعبوں میں منوانا چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ وہ ہر معاملے میں امریکی بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔
امریکی قیادت چین کی پیش رفت روکنے کے لیے بے تاب ہوئی جارہی ہے۔ چین اپنے خطے سے نکل کر بہت کچھ کرنے کے موڈ میں ہے۔ چینی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اتنی طاقت جمع ہوچکی ہے کہ بحیرۂ جنوبی چین اور اوشیانا کے خطے سے نکل کر بھی کچھ کیا جانا چاہیے۔ افریقہ میں اُس کی سرمایہ کاری غیر معمولی ہے۔ اُس نے جنوبی ایشیا میں بھی خطیر سرمایہ کاری کی ہے۔ بنگلہ دیش کو اپنا حلیف و ہم نوا بنانے کی اُس کی کوششوں پر بھارت برہم ہے۔ چین نے اب تک نرم قوت کی راہ پر گامزن رہنے پر اکتفا کیا ہے یعنی وہ علم و فن اور تجارت و سرمایہ کاری کے ذریعے آگے بڑھ رہا ہے۔ کسی بھی ملک یا خطے کے خلاف عسکری مہم جوئی سے اس نے مکمل گریز کیا ہے۔ ہر معاملے میں امریکا کے گُن گانے والوں کو چینی قیادت کی امن پسندی اور انسان دوستی کی داد بھی دینا چاہیے۔
امریکا نے چین کی راہیں مسدود کرنے کے نام پر اب اوشیانا کے خطے کو وار تھیٹر میں تبدیل کرنے کا ڈول ڈالا ہے۔ اگر چین سے مناقشوں تک بات پہنچی تو یہ پورا خطہ شدید عدم استحکام کی نذر ہو جائے گا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے لیے یہ وقت حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے امریکا اور برطانیہ کی عسکری مہم جوئی کا حصہ بننے سے بچنے کا ہے۔ امریکا کو اپنے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی بقا کے لیے نیا محاذ کھولنا ہے۔ یہ نیا محاذ خطے کے تمام ہی ممالک کے لیے شدید پریشان کن حالات پیدا کرسکتا ہے۔ کینبرا کو سوچنا چاہیے کہ اب تک واشنگٹن کا ساتھ دینے والوں کو کیا ملا ہے۔