اکیسویں صدی کے ابتدائی دنوں میں جو کچھ ہوا وہ پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے انتہائی پریشان کن تھا۔ نائن الیون کو جواز بناکر امریکا اور یورپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑنے کا بہانہ تراشا جس میں مسلم دنیا کو خاص طور پر جھونک دیا گیا۔ پاکستان نے اس لاحاصل جنگ میں حصہ لیا اور خمیازہ بھی بھگتا۔ واپسی کا سفر شروع کرنے کی کچھ گنجائش پیدا ہوئی ہے تو دنیا کا رنگ کچھ سے کچھ ہوگیا ہے۔ امریکا نے افغانستان سے رختِ سفر باندھا تو پاکستان کے لیے کچھ خاص رہا ہی نہیں۔ ڈیڑھ سال قبل کورونا وائرس کی وبا کے پھیلنے سے وہ تھوڑے بہت امکانات بھی ختم ہوگئے جو پاکستان کے حصے میں آنے والے تھے۔ امریکا اور یورپ نے کورونا وائرس کی آڑ میں دنیا کو پھر تقسیم کردیا۔ چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی مغربی ایجنڈے میں بظاہر ساتھی ہیں۔ اُن کے آپس کے تنازعات اپنی جگہ اور ترقی پذیر و پسماندہ دنیا کے مقابلے میں اپنی اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کا معاملہ اپنی جگہ۔
پاکستان کے مفادات کے بارے میں سوچنے والے کہیں اور تو کیا خود پاکستان میں خال خال ہیں! اور اُن کے ذہنوں میں بھی منفی خیالات و تصورات کی بھرمار ہے۔ کچھ دیر سوچنے پر بھی ذہن میں یہی بات ابھرتی ہے کہ پاکستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پاکستان کو گلوبلائزیشن کی ٹرین میں اپنی سیٹ پکی کرنی تھی۔ یہ کام اب تک نہیں ہوسکا ۔ ہو بھی کیسے؟ کسی بھی ملک میں تمام بنیادی تبدیلیاں متوسط طبقے کی مدد سے واقع ہوا کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں اس وقت سب سے زیادہ پریشانی کی حالت میں متوسط طبقہ ہی ہے۔ زیریں متوسط طبقہ بھی افلاس زدہ ہوچلا ہے۔ متوسط طبقے میں جو لوگ بہتر حالت میں ہیں وہ فی الحال کوئی بھی بڑا معاشی یا معاشرتی کردار ادا کرنے کے موڈ میں نہیں۔ سیاسی جماعتوں میں اندرونی طور پر اور آپس میں پائے جانے والے انتشار نے عوام کو مایوسی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ وہ اس بات سے بے حد دکھی ہیں کہ جنہیں ملک کی حالت درست کرنے پر متوجہ ہونا ہے وہ خود خرابیوں کی زد میں ہیں۔ اس وقت پاکستان کی کسی بھی بڑی سیاسی جماعت میں وہ بصیرت نہیں پائی جاتی جو ملک و قوم کو بامقصد زندگی کی طرف لے جانے کے لیے درکار ہوا کرتی ہے۔ بھارتی معاشرہ بہت سے معاملات میں ہم سے گیا گزرا ہے مگر بھارت سے موازنہ کرکے ہم اپنے دل کو زیادہ دیر تسلی نہیں دے سکتے۔ بھارتی قیادت نے چند ایک معاملات میں ایسا کام کیا ہے کہ ملک کے لیے تھوڑی بہت خوش حالی کی راہ ضرور ہموار ہوئی ہے۔ بھارت نے گلوبلائزیشن کی ٹرین میں اپنی سیٹ پکی کرلی ہے۔ خاصی محنت سے بھارت میں علم و فن کے حوالے سے ایک پوری فوج کھڑی کرلی گئی ہے۔ بھارتی نالج ورکرز دنیا بھر میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نالج ورکرز کی شکل میں معیاری اور بہتر امکانات کی حامل افرادی قوت برآمد کرنے سے بھارت نے ترسیلاتِ زر کی شکل میں آمدن کا ایک اچھا اور مستقل ذریعہ قائم کرلیا ہے۔
ترقی یافتہ دنیا صرف اپنے مفادات کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ انتہائی پس ماندہ خطوں کے معاملات سے اُسے بظاہر کچھ غرض نہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسے پچھڑے ہوئے ممالک کے لیے زیادہ امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔ اُنہیں اندرونی مسائل نے بُری طرح جکڑ رکھا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ آبادی میں تیز رفتار اضافے کا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ آبادی میں اضافے کی یہی رفتار برقرار رہی تو 2050ء تک پاکستان کی آبادی کم و بیش 29 کروڑ ہو جائے گی۔ بنیادی سہولتوں کا معاملہ اس وقت خطرناک حد تک رُلا ہوا ہے۔ سوچیے 2050ء میں معاملات کیا ہوں گے۔ نوجوانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے مگر اُن کے لیے امکانات محدود ہیں۔ معیشت کے مختلف شعبوں کو متوازن رکھنے پر اب بھی توجہ نہیں دی جارہی۔ نئی نسل کے لیے بہتر اور موزوں ذرائع معاش یقینی بنانا بھی ایک بہت بڑا ٹاسک ہے۔ پاکستان میں خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ملک کی مجموعی افرادی قوت میں کم و بیش 10 فیصد افراد ایسے ہیں جو دوسروں کی کمائی پر زندہ ہیں۔ یہ لوگ معاشی سرگرمیوں میں کوئی فعال کردار ادا نہ کرنے کے باعث محض بوجھ ہیں۔ ملک کو گلوبلائزیشن کی ٹرین پکڑنے کیلئے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ افرادی قوت آئے کہاں سے کیونکہ جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے اُنہیں تو آپس میں لڑنے ہی سے فرصت نہیں مل پارہی۔ صرف طبقات متعارف کرانے کی سازش پر عمل ہو رہا ہے۔ ایک طرف امیر ہیں جو امیر تر ہوتے جارہے ہیں اور دوسری طرف غریب دن بہ دن غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ بے روزگار نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد وہ ٹائم بم ہے جسے پھٹنے سے روکنا کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ حکومتی سیٹ اپ دن بہ دن کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہا ہے۔ ادارے کمزور پڑ رہے ہیں اور ہر شعبے میں مافیا پنپ رہی ہے۔ اشیائے خور و نوش کا معاملہ ہو یا بنیادی ضرورت کی دیگر اشیا‘ معاملات حکومت کے ہاتھ سے باہر ہوچکے ہیں۔ چند ایک شعبوں میں اگر کچھ بہتری دکھائی دی بھی ہے تو اس کا فائدہ معاشرے کو نہیں پہنچا ۔ معاملہ مال بٹورنے تک محدود رہا ہے۔ آگے بڑھنے کیلئے جو خواہش اور سکت درکار ہوا کرتی ہے وہ بالعموم شدید مایوسی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ پاکستان کی نئی نسل
بھی بے یقینی اور مایوسی کا شکار ہے۔ زندہ رہنے اور کچھ کر گزرنے کی لگن بظاہر دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے مگر پریشان ہونے اور مایوسی کے گڑھے میں گرنے کی ضرورت نہیں۔ کمزور پڑتے ہوئے معاشروں میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ پاکستانیوں کو اپنی حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا‘ تصنع کی حدوں سے نکلنا ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور ان کی پشت پر کارفرما قوتوں کو سمجھنا ہوگا کہ قومی ترقی کے لیے سوچنا اور بصیرت پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ مستقبل کے لیے ابھی سے تیاری کرنا پڑے گی۔ ہوا میں تیر چلانے سے اکیسویں صدی میں جینے کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ کامیابی اور ترقی کے لیے جو کچھ بھی کیا جاتا ہے اس میں مکمل کامیابی کی ضمانت کوئی بھی فراہم نہیں کرسکتا۔ پاکستان طرح طرح کے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ ہر مسئلے کو حل کرنے کے لیے چند اقدامات ناگزیر ہیں اور ہر معاملے میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ چند ایک اقدامات راستے ہی میں دم توڑسکتے ہیں کیونکہ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ ایسے میں نیت کا اخلاص بنیادی شرط ہے۔ بھارت کی شکل میں پاکستان کے لیے ایک اچھی مثال موجود ہے جس پر عمل پیرا ہو کر بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی قیادت پر لازم ہے کہ ہمہ گیر قومی ترقی یقینی بنانے کے لیے تعلیمی معیار بلند کرے اور ہر شعبے کو بہتر نظم و نسق سے ہم کنار کرے۔ سابق سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گوربا چوف نے دنیا کو ایک ایسا سبق دیا جو پاکستان کو گرہ سے باندھ لینا چاہیے۔ وہ سبق یہ ہے کہ معیشت کو داؤ پر لگاکر جو ملک اخراجات میں اضافہ کرتا جائے گا وہ بالآخر تباہی سے دوچار ہوگا۔ بھارت نے تعلیم کی بنیاد وسیع اور مستحکم کی۔ اب وہ نالج انڈسٹری میں کم و بیش قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے اور بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھو رہا ہے۔ پاکستان کے پاس سافٹ ویئر انجینئرز خاصے کم ہیں۔ بھارت نے سافٹ ویئر انجینئرز کی پوری فوج تیار کی ہے جسے دنیا بھر میں کھپایا جارہا ہے۔ پاکستان کو اپنے بیشتر معاملات میں فوری طور پر عمل پسند اور عمل نواز ہونا پڑے گا۔
گلوبلائزیشن کی رفتار بڑھ گئی ہے۔ یہ کھیل اب تک ترقی یافتہ دنیا کی مرضی کے مطابق کھیلا جارہا ہے۔ پسماندہ ممالک کو بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہے۔ پاکستان کو بھی مسابقت کے قابل ہونا ہے۔ ہمارے پاس اب یہی آپشن ہے کہ تعلیم کا معیار بلند کریں‘ جدید ترین ٹیکنالوجی میں مہارت بڑھائیں اور عالمی برادری میں اپنی ساکھ بہتر بنائیں ۔