"MIK" (space) message & send to 7575

سونے والے ہیں کہ لیتے نہیں انگڑائی بھی

لاپروائی ہے کہ دم بدم بڑھتی جاتی ہے۔ بے حسی ہے کہ گھٹنے کا نام نہیں لیتی۔ زندگی جیسی نعمت کو انتہائے غفلت کی نذر کرنے کی روش ایسی عام ہے کہ دیکھ کر کُڑھنے کے سوا کوئی بھی آپشن دکھائی نہیں دے رہا۔ ایک زمانے سے ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں خامیوں اور خرابیوں نے پنپنے کا عمل ترک نہیں کیا۔ پورے معاشرے پر غیر یقینی کی چادر تنی ہوئی ہے۔ وقت کا کام گزرنا ہے، گزر ہی جاتا ہے۔ ہم یہ حقیقت تسلیم کرنے کے لیے اب بھی تیار نہیں کہ وقت کو اگر بطریقِ احسن بروئے کار نہ لایا جائے تو یہ محض گزرتا نہیں بلکہ ہمیں بھی گزار دیتا ہے۔ وقت واحد اثاثہ ہے جو محفوظ نہیں رکھا جاسکتا اور اِس میں اضافہ بھی ممکن نہیں۔ وقت کے معاملے میں قدرت نے ہر انسان کا کوٹہ مقرر کر رکھا ہے۔ بالکل اِسی طور نسلوں، قوموں اور معاشروں کا بھی کوٹہ مقرر ہوتا ہے۔ جس طور انسان مختلف مراحل سے گزر کر اپنے منطقی انجام کی طرف جاتا ہے‘ بالکل اُسی طور معاشرے بھی مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اپنے منطقی انجام تک پہنچتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ ڈھائی‘ تین عشروں کے دوران انتہائی نوعیت کی تبدیلیوں سے دوچار رہا ہے۔ وہ تبدیلیاں زیادہ ہیں جن سے ہم دوچار ہوئے۔ بدلتے وقت کے تیور ہمیں بہت کچھ سیکھنے کی تحریک دینے کی کوشش کرتے رہے مگر ہم نے اب تک وقت کو اس قابل نہیں سمجھا کہ اُس پر خاطر خواہ توجہ دیتے ہوئے زندگی کو توازن کی حالت میں لانے کی کوشش کی جائے۔ آج معاشرے کی عمومی روش ایسی ہے کہ شدید غفلت کی نیند ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ گہری نیند سونے والے معمولی آہٹ سے نہیں اٹھتے۔ دروازے پر دستک بھی اُنہیں نیند کی وادی سے باہر نہیں لاتی مگر گہری نیند کی بھی ایک حد تو بہرحال ہوتی ہے۔ یہاں خدا جانے کیا معاملہ ہوگیا ہے کہ لوگ حالات کے ڈھول تاشے اور بینڈ باجے بجنے پر بھی نیند کا حصار توڑ کر حواس و احساس و شعور کی وادی میں قدم رکھنے کو تیار نہیں۔
ہر عہد اپنے ساتھ بہت سے تقاضے لاتا ہے۔ پندرہویں صدی عیسوی کے وسط سے دنیا نے بڑے پیمانے پر تبدیل ہونا شروع کیا۔ فطری علوم و فنون میں ممکن بنائی جانے والی پیشرفت نے دنیا کو انقلابی انداز سے تبدیل کرنے کی روش اپنائی اور چار صدیوں کے عمل میں دنیا تبدیل ہونے کے بعد جب بیسویں صدی میں داخل ہوئی تو معاملات نے عجیب ہی رنگ اختیار کیا۔ بیسویں صدی نے سبھی کچھ بدل کر رکھ دیا۔ فطری علوم و فنون میں فقید المثال نوعیت کی پیشرفت نے پوری دنیا کو ایک نئے سانچے میں ڈھالا اور ہر شعبے کی بنیادی اقدار کا ڈھانچا ہی بدل دیا۔ بیسویں صدی کے آخری تین عشروں کے دوران دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہوئی۔ ہر شعبے میں اتنی (مادّی) پیشرفت ہوئی کہ کسی بھی معاشرے کے لیے اپنی عشروں یا صدیوں پرانی روش پر گامزن رہنا ممکن نہیں رہا۔ سوچ بدلی، مزاج بدلا، عادات بدلیں۔ مصیبت ہے تو بس یہ کہ اس تبدیلی نے بگاڑ زیادہ پیدا کیا ہے۔ تیزی سے بدلتی دنیا نے ہر معاشرے کو سوچنے اور کچھ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اب کوئی بھی معاشرہ ٹھہرے ہوئے پانی کی مانند نہیں جی سکتا۔ ہل جل لازم ہوچکی ہے۔ کسی بھی قوم کو جھنجھوڑ دینے والے واقعات ہمارے حصے میں بھی آئے ہیں مگر ہم اِس حوالے سے کچھ سوچنے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہو پارہے۔ نصیرؔ کوٹی مرحوم نے کہا تھا ؎
ہرطرف بانگِ جرس، بانگِ درا، بانگِ اذاں
سونے والے ہیں کہ لیتے نہیں انگڑائی بھی
ہم وہ قوم ہیں جو مشکلات سے دوچار ہونے پر بھی کچھ سوچنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ معاملات کو سمجھنے کی روش کو یوں ترک کردیا گیا ہے کہ دیکھتے ہی بنتی ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم انتہائی نوعیت کی مشکلات کا سامنا کرنے پر بھی اپنے آپ کو تیار کرنے کی طرف نہیں آرہے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے۔ ایسا بہت کچھ رونما ہو رہا ہے جو ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے انتہائی کافی ہے مگر پھر بھی ہمارے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ لوگ اپنے معاملات کی خرابی کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کیے بغیر جیے جارہے ہیں۔ اِس روش پر گامزن رہنے کے نتیجے میں خرابیوں کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ فکری، ساخت، کردار اور مزاج کی خامیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ کسی بھی ماحول میں چند افراد مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ اپنے بلند حوصلے کے ذریعے بہت کچھ سکھاتے ہیں مگر ہمارے ہاں لوگ اُن سے بھی کچھ سیکھنے کو تیار نہیں جو اپنے آپ کو قابلِ عمل اور قابلِ قبول نمونہ بناکر پیش کرتے رہے ہیں۔ جمود نے پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ لوگ معاملات کو سمجھنے، سوچنے اور منصوبہ سازی کے مراحل سے بہت دور ہیں۔ معیاری زندگی بسر کرنے کے قابل ہونا کوئی ایسا معاملہ نہیں جو خود بخود ہو جائے۔ اِس کے لیے شعوری کوششیں کرنا پڑتی ہیں۔ شعوری کوشش اُسی وقت ممکن ہوتی ہے جب انسان یہ محسوس کرے کہ جو زندگی وہ بسر کر رہا ہے اُس میں دم خم نہیں اور وقت محض ضائع ہو رہا ہے۔ وقت کے ضیاع کا احساس انسان کو بہت کچھ سیکھنے پر مائل کرتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ احساس تاحال ناپید ہے۔
کسی بھی معاشرے کو انتہائی درجے کی خرابیوں کے گڑھے سے نکالنے میں مختلف عوامل کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ حالات ہی انسان کو سوچنے اور سمجھنے کی تحریک دیتے ہیں۔ جو سوچتا ہے وہ کامیاب رہتا ہے کیونکہ اُس کی زندگی میں توازن دکھائی دیتا ہے۔ ہاں، لوگوں کو سوچنے پر مائل کرنے میں سب سے اہم کردار اہلِ دانش کا ہوتا ہے۔ کسی بھی پس ماندہ معاشرے میں بہتری کی راہ منتخب کرکے اُس پر گامزن ہونے کی تحریک وہ دیتے ہیں جنہیں اللہ نے دانش اور درد مند دل سے نوازا ہو۔ ہمارے بنیادی المیوں میں یہ المیہ سب سے نمایاں ہے کہ جنہیں اصلاح کی تحریک دینی چاہیے اُنہیں خود بہت حد تک اصلاح کی ضرورت ہے!
اِس وقت دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمیں سیکھنے کی تحریک دینے کے لیے انتہائی کافی ہے مگر یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہوسکتا۔ جنہیں اللہ نے معاملات کا فہم عطا کیا ہے اُنہیں بلند کردار اور بے لوث فکر کے ساتھ سامنے آکر راہ نمائی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ اساتذہ، لکھاری اور سیاسی و مذہبی قائدین کا بنیادی فریضہ بہتر معاشرہ تیار کرنا ہے۔ ہمارے ہاں اساتذہ کی حالت قابلِ رحم ہے اور ڈھکی چھپی بھی نہیں۔ جنہیں نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا ہے اُنہیں پہلے اپنے لیے درست سمت کا تعین کرنا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بچے کو کلاس روم میں جو کردار دکھائی دینا چاہیے‘ وہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اساتذہ بھی دنیا داری کے بحرِ تلاطم خیز میں کودنے کے بعد ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ایسے میں نئی نسل کیا سیکھ سکتی ہے؟ سوچنے اور لکھنے والے معاشرے کو راستا دکھاتے ہیں۔ ہمارے ہاں وہ بھی کما کھانے کی سوچ سے بلند نہیں ہو پارہے۔ یہی سبب ہے کہ زبان اور لہجے کی تاثیر بھی مٹ چلی ہے۔ اہلِ دانش کسی بھی معاشرے کے لیے حقیقی تہذیبی سرمایا ہوتے ہیں۔ اُن کا وجود بہت کچھ سکھا رہا ہوتا ہے مگر ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب اُنہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہو۔ اگر اہلِ علم و دانش نئی نسل کی سرپرستی کے حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کے بجائے صرف منفعت کے چکر میں پڑجائیں تو کسی کو بہتر زندگی کے لیے کیا تیار کریں گے؟ معاشرہ خوش حال ہو یا بدحال، اساتذہ مالی منفعت پر جان دینے کے بجائے اخلاقی بلندی اپناکر مشعلِ راہ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جو گہری نیند میں ڈوبے ہوئے ہیں اُنہیں جگانے کا کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے دل میں ملک و قوم کا درد ہو۔ یہاں پڑھانے، لکھنے اور بولنے والے صرف دنیا دار ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں اصلاحِ احوال کی صورت نکلے تو کیسے نکلے؟ سب سے پہلے تو اُنہیں جاگنا ہے جنہیں باقی سب کو جگانے کا فریضہ انجام دینا ہے۔ ع
اب دیکھیے کیا حال ہمارا ہو سحر تک

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں