ٹیم انڈیا نے ایک بار پھر شاپنگ شروع کردی ہے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ اُسے ایک بار پھر خریداری پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ آپ نے سُنا ہوگا کہ کوئٹہ میں بعض بلند مقامات پر ٹرین کے پیچھے بھی انجن لگانا پڑتا ہے‘ تا کہ چڑھائی مشکل سے ایک درجہ آگے بڑھ کر ناممکن نہ ہو جائے۔ ٹیم انڈیا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ بھارت میں کرکٹ کو کسی نہ کسی طور زندہ رکھنے میں امپائرز کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ میچ اگر بھارت میں ہو رہا ہو اور بھارتی ٹیم بیٹنگ کر رہی ہو تو کسی بھی کھلاڑی کو ایل بی ڈبلیو قرار دینا ممنوع تھا۔ مہمان ٹیموں کے باؤلرز کو وکٹیں اور گلّیاں اڑانے یا پھر کیچ لینے پر اکتفا کرنا پڑتا تھا۔ کبھی کبھی تو بھارتی امپائرز کیچ بھی کھا جاتے تھے۔ جب کرکٹ میں تجارت کی آمیزش ہوئی تب سبھی کچھ بدل گیا۔ کرکٹ کے نام پر میدانوں میں اب اور بھی بہت کچھ کھیلا جاتا ہے۔ شائقین میچ کے دوران جذباتیت کا شکار ہو جاتے ہیں مگر جب اُنہیں میچ کے نتائج سے متعلق اصلیت کا علم ہوتا ہے تو جذباتیت مایوسی میں بدل جاتی ہے۔
جب یہ طے ہوگیا کہ بھارت اور بہت سی چیزوں کی طرح کرکٹ کی بھی سب سے بڑی منڈی ہے تو کسی بھی بڑے ایونٹ میں بھارت کے لیے امکانات آخر تک زندہ رکھنے کی خاطر بہت کچھ الٹا سیدھا کیا جانے لگا۔ ایک دور تھا کہ کرکٹ میں سپاٹ فکسنگ ہوتی تھی۔ کسی بھی کمزور ٹیم کے دو ایک کھلاڑیوں کو خرید کر نتیجہ اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ بھارت کے اظہر الدین، اجے جدیجا اور ہمارے محمد آصف، محمد عامر وغیرہ کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں بھی اِسی ذیل میں تھیں۔ پھر کسی بھی بین الاقوامی ایونٹ میں بھارت کو اوپر لانے یا اوپر رکھنے کی خاطر پورے پورے میچ خریدنے کا عمل شروع کیا گیا۔ 1996ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کے مابین کھیلا گیا کوارٹر فائنل آج تک سوالیہ نشان کی زد میں ہے۔
1999 کے ورلڈ کپ کا فائنل بھی آج تک مشکوک ہی سمجھا جاتا ہے۔ اُس وقت جو پاکستانی ٹیم فائنل میں کھیلی تھی‘ ویسی مضبوط ٹیم پھر کبھی نہیں بن پائی۔ پھر بھی آسٹریلیا کے خلاف محض 132 رنز کے ٹوٹل پر پویلین لوٹ جانا کسی کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ اُس ٹورنامنٹ میں پاکستان نے ہر مدِمقابل کو عبرت ناک انداز سے شکست دی تھی۔ بنگلہ دیش سے شکست بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ 2011ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان موہالی (چندی گڑھ، بھارت) میں کھیلے گئے میچ پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ ٹیم انڈیا کو یہ میچ ہر صورت درکار تھا اور پاکستانی ٹیم کھیل کر ہارنے کے لیے تو تیار تھی مگر میچ پلیٹ میں سجاکر بھارت کے سامنے رکھنے کے لیے تیار نہ تھی۔ پاکستانی ٹیم کی قیادت شاہد آفریدی کے ہاتھ میں تھی۔ وہ بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے، ہتھیار ڈالنے کے لیے بالکل راضی نہ تھے۔
کہا جاتا ہے کہ پہلے نون لیگ اور اُس کے بعد کسی حد تک پی پی پی دور میں بھی ''فرینڈلی کرکٹ‘‘ کے نام پر کئی میچ دیے گئے۔ 1999ء میں شعیب اختر نے ایک ٹیسٹ میچ کی دو گیندوں پر پہلے راہل ڈریوڈ اور پھر لٹل ماسٹر سچن ٹینڈولکر کی گلّیاں اڑاکر ایک دنیا کو حیران کردیا تھا۔ امسال 3 نومبر کو ٹیم انڈیا نے افغانستان کو ''عبرت ناک‘‘ انداز سے شکست دے کر ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں پہلی فتح درج کرائی۔ سیمی فائنل کی دوڑ میں شامل رہنے کے لیے ٹیم انڈیا کو فتوحات ہی نہیں، اچھا اور فیصلہ کن رن ریٹ بھی درکار ہے۔ رن ریٹ بلند کرنے کے لیے ٹیم انڈیا کا افغانستان سے محض جیتنا کافی نہ تھا، فتح کم و بیش 65 رنز کے فرق سے لازم تھی اور یہی ہوا یعنی ٹیم انڈیا نے 66 رنز سے فتح پائی!
2019ء کے ورلڈ کپ میں بھارت نے پاکستان کو ٹورنامنٹ سے باہر کرنے کے لیے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کو میچ ''عطیہ‘‘ کیے تھے۔ اِس پر دنیا بھر میں ٹیم انڈیا پر تُھو تُھو ہوئی تھی۔ اب پھر یہی معاملہ تھا۔ افغانستان کی ٹیم نئی ضرور ہے مگر ایسی گئی گزری نہیں کہ ٹیم انڈیا سے یوں شرم ناک انداز سے ہار جاتی۔ بھارت کی اننگز کے دوران افغانستان کے باؤلرز نے خاصی نمایاں بے دِلی سے باؤلنگ کی جبکہ وہ جانتے تھے کہ ٹورنامنٹ میں اُن کے امکانات کا مدار بھی اِس میچ کے نتائج پر تھا۔ ایک اور سٹار لیگ سپنر مجیب الرحمن کو کھلایا ہی نہیں گیا۔ ٹیم انڈیا کے لیے افغانستان سے میچ اِتنے بھونڈے طریقے سے لیا گیا کہ عام آدمی بھی معاملہ سمجھ گیا۔ بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ ٹیم انڈیا کسی نہ کسی طور ٹورنامنٹ میں رہے یعنی سیمی فائنل تک تو پہنچے۔ 2003ء کے ورلڈ کپ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ ٹیم انڈیا کو کسی نہ کسی طور یعنی امپائرنگ اور میچ فکسنگ کے ذریعے دھکا دے کر فائنل تک لایا گیا تھا اور فائنل میں آسٹریلیا نے اُسے عبرت ناک شکست سے دوچار کرکے دنیا کو بتادیا تھا کہ بلیو شرٹس اس قابل نہ تھے کہ فائنل تک آتے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب پھر ٹیم انڈیا کو سیمی فائنل میں پہنچانے کی تیاری کی جارہی ہے۔
اگر ٹیم انڈیا کی ''اِچّھا کے انوسار چمتکار‘‘ ہوجائے یعنی نیوزی لینڈ کی ٹیم اپنے آخری گروپ میچ میں افغانستان سے شکست کھا جائے تو نمیبیا کے وارے نیارے ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں افغانستان، ٹیم انڈیا اور کیویز کے تین تین پوائنٹس ہوجائیں گے اور رن ریٹ کی بنیاد پر اوپر آنے کے لیے ٹیم انڈیا کے مقابل 100 رنز کے فرق یا پھر 100 وکٹوں سے ہارنے کے لیے نمیبیا کو منہ مانگی قیمت دی جاسکتی ہے! اس موقع پر ہمیں بھارت کا ایک فلمی گیت یاد آرہا ہے (جس کا ٹیپ کا مصرع لے کر حبیب پینٹر قوال نے بھی یادگار آئٹم بنایا تھا) ۔
ہر چیز یہاں بکتی ہے
بولو جی، تم کیا کیا خریدو گے!
بہرحال یہ سارا میرا تجزیہ ہے‘ جو غلط بھی ثابت ہو سکتا ہے لیکن آئندہ ہونے والے میچز کے نتائج اسے درست بھی ثابت کر سکتے ہیں۔پاکستان اور بھارے کے مقابلے یا بھارت کے دوسرے ممالک سے مقابلوں کے احوال میں جو تجزیہ بیان کیا گیا ہے‘ وہ بھی میرا ذاتی خیال ہے‘ اگرچہ کئی اور کرکٹ فینزبھی ایسی ہی آرا رکھتے ہیں مگر ممکن ہے کہ یہ درست نہ ہو اور حقیقت وہ نہ ہو جو بیان کی گئی ہے۔بہرحال بھارت کے حوالے سے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے آئندہ میچوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔
وہ زمانے ہوا ہوئے کہ جب لوگوں کو کھیل دیکھ کر واقعی لطف محسوس ہوا کرتا تھا۔ اب کھیلوں کے نام پر خدا جانے کون کون سے کھیل کھیلے جارہے ہیں۔ کمزور ٹیموں کو اوپر آنے ہی نہیں دیا جاتا۔ ہر معاملہ مالی مفادات کی چورنگی کے چکّر کاٹتا رہتا ہے۔ ایسے میں بڑے بڑے ٹورنامنٹس میں دھانسو قسم کے میچ دیکھنے کا مزا باقی نہیں رہا۔ اتوار کو نیوزی لینڈ اور افغانستان کے درمیان گروپ کے آخری میچ سے اندازہ ہو جائے گا کہ یو اے ای کرکٹ ایکسپو سے ٹیم انڈیا کے لیے کہاں تک شاپنگ کی گئی اور مزید کتنے تماشے دیکھنے کو ملیں گے۔ کسی بھی کرکٹ ٹورنامنٹ کے حتمی مراحل تک بھارت کے لیے امکانات زندہ رکھنے کی بھونڈی کوششیں اب ختم ہونی چاہئیں۔ یہ تو کوئی بات نہیں کہ بھارت اگر آئی سی سی کے لیے بڑی منڈی ہے تو دیگر تمام ٹیموں کے مفادات اُس کے چرنوں میں قربان کردیئے جائیں۔ اللہ نے چاہا تو ایسی تمام بھونڈی کوششوں کے باوجود ورلڈ کپ ہمارا ہوگا۔