"MIK" (space) message & send to 7575

’’مُرغی کا چکن سُوپ‘‘

تبدیلی اور انقلاب کے نام پر مچائی جانے والی دھما چوکڑی کی گرم بازاری اپنی جگہ‘ حکومت کے ارادوں میں پایا جانے والا انجماد اب اس مرحلے تک پہنچ گیا ہے کہ موسم بھی تھوڑی بہت خنکی پیدا کرنے کے لیے حکومت کی طرف دیکھنے لگا ہے! سیاسی موسم کچھ ایسا چل رہا ہے کہ حکومت عوام سے ہر چیز کے دام وصول کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ایسے میں اسے حکومت کی مہربانی پر محمول کیجیے کہ وہ اپنے ٹھنڈے ٹھار ارادوں اور منصوبوں کے ذریعے موسم کو خنک ہونے میں مدد دینے کا معاوضہ ہم سے وصول نہیں کر رہی! کراچی سمیت ملک بھر کا موسم روز بروز سرد تر ہوا جاتا ہے۔ فضا میں پائی جانے والی خنکی بڑھ کر اب باضابطہ سردی کا روپ دھارنے کو ہے۔ ہر بار موسمِ سرما آتا ہے تو چند روایتی اشیا جا بجا دکھائی دیتی ہیں۔ گرمی اور سردی کے مشروبات الگ الگ ہیں۔ موسمِ سرما کی آمد کھانے پینے کے معاملات میں نمایاں تبدیلیوں کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ہمارے ہاں اب صرف ایسی ہی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں! سردی اور سُوپ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انگریزوں کی طرح انگریزی نے بھی ہم پر بہت ستم ڈھائے ہیں بلکہ اب تک ڈھارہی ہے۔ اب اِس soup اور soap سے پیدا ہونے والے مغالطے نے بہت سوں پر 'وختا‘ ڈالا ہوا ہے ؎
روکے مجھ سے کہ رہا تھا میرا اِک بدحال دوست
میری اُردو میڈیم بیوی کو انگلش کھاگئی!
مانگ بیٹھا سُوپ تو صابن مجھے پکڑادیا
بیڈ ٹی مانگی تو گندی چائے لے کر آگئی!
خیر‘ soup اور soap کا تجزیہ پھر کبھی سہی۔ عرض یہ کرنا ہے کہ وہ سردی ہی کیا جس میں سُوپ سے لطف کشید نہ کیا جائے۔ ویسے تو خیر برے حالات اور اُن سے بھی بری مہنگائی کے ہاتھوں بیشتر اہلِ وطن کا یخنی سُوپ بن چکا ہے؛ تاہم کڑاکے کی سردی کے دوران چکن یخنی سوپ پینے کی بات ہی کچھ اور ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ گرمی میںاگر ''ٹھنڈی کولڈ ڈرنک‘‘ باقاعدگی سے نہ پئیں تو خود کو ادھورا سا محسوس کرتے ہیں۔ بالکل اسی طور کچھ اہلِ ذوق و شوق ایسے بھی ہیں جو سخت سردی میں دل و دماغ کو تھوڑی بہت ''گرمائش‘‘ بخشنے کے لیے ''مُرغی کا چکن سُوپ‘‘ حلق میں یوں اُنڈیلتے ہیں گویا سوپ نہ پیا تو زندگی میں کوئی بہت بڑی کمی رہ جائے گی یا حکومت بھاری جرمانہ عائد کردے گی!
روشنیوں کے شہر کو جرم پسند ذہنیت رکھنے والوں نے مکمل تندہی اور چابک دستی سے اندھیروں کے گڑھے میں دھکیلنے کے حوالے سے کبھی خوف محسوس کیا ہے نہ شرمندگی۔ لازم ہے کہ ایسے مجرموں کو تختۂ دار پر لٹکادیا جائے۔ یہ تو ہم سے اب تک ہو نہیں سکا‘ ہاں! بے چاری مُرغیوں کو ہم نے ضرور دار کی خشک ٹہنی پر وارنے کی قسم کھا رکھی ہے! مرغیاں اس انجام سے بچ بھی کیسے سکتی ہیں؟ قصور اُن کا نہیں‘ اُن کی کمزوری کا ہے۔ کیا کیجیے کہ ؎
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
کراچی میں جب موسمِ سرما اپنے عہدِ شباب یا مرحلۂ جولانی کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے تب جا بجا ٹھیلوں پر مُرغیاں اپنے کردہ و ناکردہ گناہوں کی پاداش میں لٹکائی ہوئی پائی جاتی ہیں اور تھال میں اُبلتے ہوئے سُوپ کی حرارت سے ریزہ ریزہ پگھل کر سُوپ کی لذت کا دائرہ وسیع فرماتی جاتی ہیں۔ شہرِ قائد میں متعدد مقامات پر چکن سُوپ کے ٹھیلوں کی بہار دکھائی دے رہی ہے۔ اُن ٹھیلوں پر لٹکی ہوئی مرغیوں کو دیکھ کر لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ حکومت نے اب ہمیں بھی تو شدید بلکہ جان لیوا افراطِ زر کی ٹکٹکی پر لٹکا رکھا ہے! عوام کو ٹھیلوں اور ٹِھیوں پر چکن یخنی سُوپ پیتے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں متمکن لوگوں نے جب بھی جی میں آیا‘ اُن کا ایسا ہی یخنی سُوپ تیار کیا! کچھ فرق اگر ہے تو صرف اتنا کہ اُن کے لیے موسم کی کوئی قید نہیں۔ کراچی کے طول و عرض میں کھانے پینے کی عجیب و غریب اشیا بنائی اور بیچی جاتی ہیں۔ یہاں آباد ہر برادری اپنی روایات کی امین کا کردار ادا کرنے والی سوغاتیں لے کر بازار میں آتی ہے۔ کہیں کاٹھیا واڑی چھولے مقبول ہیں تو کہیں کوئٹہ کی چکن سجی۔ کہیں پنجاب کے دہی بھلے شوق سے کھائے جاتے ہیں تو کہیں دہلی کی ہر دلعزیز سوغات نہاری۔ ایک دنیا ہے کہ حیدر آبادی اچار اور چٹنیوں کی دیوانی ہے۔ ہر صوبے اور ہر برادری کی ہر نمایاں ڈش کراچی میں نہ صرف دستیاب ہے بلکہ مقبولیت سے ہم کنار بھی ہے۔ اشیائے خور و نوش کے اس رونق میلے میں چکن یخنی سُوپ بھی خوب بہار دکھا رہا ہے۔ ویسے تو کراچی میں اب کم و بیش ہر برادری کے لوگ چکن یخنی اور چکن کارن سُوپ فروخت کر رہے ہیں مگر اس سُوپ کا اصل تصور پشتون برادری سے وابستہ ہے جو الگ ہی شان رکھتا ہے۔ کسی بھی سُوپ کے ٹھیلے پر ایک نظر ڈالیے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ دنیا کی مضبوط ترین‘ حالات کا ہر ستم‘ ہر وار سہنے والی یعنی ''زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ ٹائپ کی مُرغیاں اگر کہیں پائی جاتی ہیں تو وہ پاکستان میں‘ بالخصوص کراچی میں۔ چکن یخنی سُوپ کی تیاری میں معاونت کرنے والی مرغیوں کی ثابت قدمی اور پائیداری ملاحظہ فرمائیے کہ ایک ہی ٹھیلے پر لٹکے لٹکے‘ کوئی شِکوہ کیے بغیر پورا سیزن گزار دیتی ہیں اور اُن کی ''تازگی‘‘ کا سورج ہے کہ غروب ہونے کا نام بھی نہیں لیتا! جس طرح چکن یخنی سُوپ بیچنے والے صاحبان کا ''یک زبان ہوتا ہے‘‘ بالکل اُسی طرح اُن کے ٹھیلوں پر لٹکی ہوئی مُرغیاں بھی اپنے موقف پر قائم رہتی ہیں۔ ٹھیلوں کی ٹکٹکی پر لٹکی ہوئی مُرغیاں سُوپ کی بھاپ سے پگھل پگھل کر کچھ کی کچھ ہو جاتی ہیں‘ کسی اور دنیا کی مخلوق دکھائی دینے لگتی ہیں‘ گوری چمڑی جلتے جلتے عجیب و غریب رنگت کی
ہو جاتی ہے مگر یہ ٹس سے مَس نہیں ہوتیں یعنی ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں! حقیقت تو یہ ہے کہ مُرغیاں ہوں یا عوام‘ دونوں کا ایک سا حال ہے! دونوں ہی سخت نامساعد حالات کو جھیلنے کے باوجود زندہ و سلامت ہیں۔
اب ہمارا نام بھی تاریخ کے صفحات میں رقم ہوکر رہے گا کیونکہ ہم مہنگائی کے ''عہدِ زرّیں‘‘ میں جی رہے ہیں! بہت سی چیزیں موسم کے پلٹا کھانے پر مہنگی ہوتی ہیں۔ کراچی سمیت پورے پاکستان میں اب کسی بھی شے کی قیمت اِس کلیے کی محتاج نہیں رہی۔ موسم کے اُلٹ پھیر نے جہاں اور بہت سی اشیائے خور و نوش کو عوام کی قوتِ خرید کی دسترس سے باہر کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے وہیں انڈے بھی محفوظ نہیں رہے۔ اب کے تو گرمیوں میں بھی انڈوں کے نرخ خاصی بلندی پر رہے ہیں تو پھر سردی میں بھلا وہ کیوں پیچھے رہیں؟ بے زبان انڈوں کو بھی یقین نہیں آتا ہوگا کہ اُنہیں فروخت کرنے کی آڑ میں لوگ اپنے محل تعمیر کرنے پر تُل جائیں گے! ہمارا خیال ہے انڈوں نے طے کرلیا ہے کہ جب سُوپ کے نام پر ایک پیالا پتلا سا گرم مشروب تیس چالیس روپے میں فروخت ہوسکتا ہے تو پھر وہ بھی خود کو سستا نہیں بیچیں گے! ہم نے بھی آپ کو خواہ مخواہ باتوں میں لگالیا۔ یہ ساری باتیں تو بعد میں بھی ہوتی رہیں گی۔ سُوپ میلے کی رونق روز افزوں ہے۔ اگر آپ سُوپ پینا چاہتے ہیں تو فوراً گھر سے نکل کر کسی مُرغی بردار ٹھیلے کا رخ کیجیے۔ کراچی کی نام نہاد سردی کا کچھ پتا نہیں کہ کب شروع ہو اور کب ختم ہو جائے۔ افرادی قوت کی طرح سردی بھی کراچی میں باہر سے آتی ہے۔ سائبیریا میں سب کچھ جم جاتا ہے تب یخ بستہ ہواؤں کے ساتھ سردی کی ایک خفیف سی لہر بلوچستان تک آتی ہے۔ اور پھر جب کوئٹہ کی سمت سے ہوا چلتی ہے تو ہم بھی تھوڑا بہت ٹھٹھر لیتے ہیں۔ چکن سُوپ کے ٹھیلوں کی بہار بھی سردی کی مختصر دورانیے والی شدید لہر تک ہے۔ کوئٹہ کی طرف سے آنے والی یخ بستہ ہواؤں نے بوریا بستر باندھا تو پھر کون سے ٹھیلے اور کہاں کا سُوپ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں