"MIK" (space) message & send to 7575

نئے معاشی تفکر کی ضرورت

جب کوئی معاشرہ مجموعی طور پر جمود کا شکار ہوتا ہے تو کم و بیش ہر معاملے پر لگی بندھی سوچ کا راج ہوتا ہے۔ ایسے میں جدتِ فکر کا تصور‘ اول تو پایا ہی نہیں جاتا اور اگر کسی نہ کسی طور کوئی ہمت کرکے جدتِ فکر کی راہ پر گامزن ہونے کی کوشش کرے تو اُسے آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ پختہ عادتیں بدلنے پر آسانی سے راضی نہیں ہوتے، پھر چاہے وہ نقصان ہی کیوں نہ پہنچا رہی ہوں۔ کچھ نہ کچھ کمانا کم و بیش ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے۔ جن کے لیے کمانا ناگزیر نہ ہو‘ اُنہیں بھی کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اچھا خاصا ذہنی خلل واقع ہوتا ہے۔ معاشی جدوجہد جب ناگزیر ہی ٹھہری تو کیوں نہ ڈھنگ سے کام کیا جائے، طبیعت کی پوری جولانی کے ساتھ کام کیا جائے تاکہ اپنے دل و دماغ کو بھی راحت ملے اور فریقِ ثانی بھی ہم سے اچھی طرح مستفید ہو۔ ہر دور میں وہی لوگ کامیاب رہے ہیں جو بے ذہنی کے ساتھ نہیں بلکہ معاشی جدوجہد سے جڑے ہوئے ہر معاملے اور ہر پہلو کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں دل و دماغ کو عجیب طرز کی تازگی اور شگفتگی میسر ہوتی ہے۔
روز افزوں مہنگائی کے باوجود معاشرہ کسی نہ کسی طور چل ہی رہا ہے۔ معاشرے کسی بھی حال میں زندہ رہتے ہیں۔ ہاں! انتہائی ناکامیوں سے عبارت معاشروں کو حقیقی معنوں میں زندہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ مجبوری کا سودا ہے۔ بعض معاشرے ناکامیوں سے ایسے اَٹے ہوتے ہیں کہ بھکاریوں کی سی سطح پر جی رہے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے ماحول میں بھی ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو کچھ بھی نہیں کرتے اور زندہ رہتے ہیں یعنی اُن کی زندگی کی بندوق دوسروں کے کاندھوں پر دَھری رہتی ہے۔ مانگ تانگ کر بھی زندگی گزاری جاسکتی ہے مگر اِس میں‘ ظاہر ہے‘ کسی بھی درجے کی توقیر نہیں ہوتی۔ جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو وہاں لوگ خرابیوں کے ساتھ جینا سیکھ لیتے ہیں۔ ایسی حالت میں خرابی اپنی پوری جولانی کے ساتھ خرابی نہیں رہتی۔ معاشی ماحول میں پیدا ہونے والی خرابیاں صرف اُن کے لیے پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں جو بھرپور محنت کے ذریعے زندگی کا معیار بلند کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔ جو لوگ اصولی طور پر مرتے دم تک اپنے زورِ بازو پر زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں‘ وہی جانتے ہیں کہ دل و دماغ پر کیا گزرتی ہے۔ کئی افراد کی کفالت کا فریضہ انجام دینے والوں کو بغور دیکھئے تو وہ زبانِ بے زبانی سے کہتے ہوئے ملتے ہیں ؎
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
پاکستانی معاشرے میں بھی حالات کی خرابی کا زیادہ بوجھ وہی لوگ محسوس کر رہے ہیںجو پوری دیانت سے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور کفالت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن نبھانے کی بھرپور کوششوں میں جتے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ حالات کی اسیری پر اپنے اصولوں کی غلامی کو ترجیح دیتے ہیں۔ معاشرے کی روش چاہے جتنی بھی گئی گزری ہو‘ ہمیں اپنے درمیان ایسے بہت سے لوگ ملتے ہیں جو خرابیوں کا بوجھ ہنس کر اٹھاتے ہیں اور کسی سے کوئی شکوہ کیے بغیر اپنے حصے کا کام کیے جاتے ہیں۔ بادی النظر میں ایسے لوگ خسارے کا سودا کر رہے ہوتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اِن کا وجود تاریکی میں تابناک ستاروں جیسا ہوتا ہے۔ آج کا ہمارا معاشرہ بہت سے معاملات میں کیسا ہی کیوں نہ ہو‘ اب بھی کچھ لوگ ہیں جو دوسروں کے لیے لیاقت، محنت اور دیانت کی روشن مثال ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اب ایسے لوگوں کی پیروی کرنے کا رواج نہیں رہا۔ لوگ محض لیاقت، محنت اور دیانت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو حماقت کے درجے میں رکھنے لگے ہیں! حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ بظاہر اُسے چنداں پروا نہیں کہ کون کس حال میں ہے۔ یہ چلن کچھ موجودہ حکومت کی خصوصیت نہیں۔ ہم تو ایک زمانے سے اِسی چلن کا دور دورہ دیکھ رہے ہیں۔ حکومت کی صفوں میں موجوداکثریت کا سارا زور حکمرانی برقرار رکھنے پر ہے۔ اِن کے ہاتھ میں اپنے عہدے بچانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ سرِدست کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس پر متعلقہ مافیا کا راج نہ ہو۔ عوام کی مشکلات دور کرنے سے کسی کو کچھ غرض نہیں۔ زیادہ سے زیادہ منفعت کے حصول کی خواہش پورے معاشرے اور معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ عوام کی جیب سے سب کچھ نکالنے، بٹورنے اور رگوں سے خون بھی نچوڑ لینے کی گھناؤنی کوشش اتنی واضح ہوچکی ہے کہ اب اُبکائیاں سی آنے لگی ہیں۔ منافع خور بھیڑیے عوام کی بوٹی بوٹی نوچ لینا چاہتے ہیں۔ درآمدی اشیا کے نرخوں میں اضافے والی بات تو سمجھ میں آتی ہے۔ جو کچھ ملک میں پیدا ہوتا ہے یا تیار کیا جاتا ہے‘ اُس کی قیمت میں اضافہ کس کھاتے میں ہو رہا ہے؟ شوگر مافیا مکمل سفاکی کے ساتھ سامنے آچکا ہے۔ گنے کی فصل تیار ہے مگر کرشنگ سیزن شروع نہیں کیا جارہا۔ شوگر مافیا چینی کی مصنوعی قلت کے ذریعے دام بڑھاتے جانے کی روش پر گامزن ہے اور کسی بھی مرحلے پر، کسی بھی درجے میں شرمندگی محسوس نہیں کی جارہی۔
پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی جو لہر چل رہی ہے اُس کے نشانے پر‘ ہمیشہ کی طرح‘ سب سے زیادہ تنخواہ دار لوگ ہیں جنہیں ہر ماہ ایک مخصوص رقم ملتی ہے۔ وہ اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ قیمتیں بڑھتے رہنے سے تنخواہ دار لوگوں کی قوتِ خرید کم ہوتی جا رہی ہے اور یوں معیارِ زندگی روز بروز گرتا جا رہا ہے۔ اس مصیبت کا کیا توڑ ہونا چاہیے؟ ایک طریقہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ زیادہ کام کیا جائے۔ بعض اوقات اِس سے بھی کام نہیں چلتا۔ اگر کسی نے اچھا ہنر نہ سیکھا ہو تو زیادہ کام کرنے کی صورت میں بھی بہتری کی کوئی صورت نہیں نکلتی۔ ہاں! اَپ گریڈیشن کے ذریعے آمدن میں اضافہ ضرور کیا جاسکتا ہے یعنی انسان مزید ہنر سیکھے یا جس ہنر کے ذریعے کمارہا ہے اُس میں مزید مہارت ممکن بنائے۔ یہ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ اِس کے لیے وقت کی بھی قربانی دینا پڑتی ہے اور سماجی زندگی کو بھی بہت حد تک داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ تیسرا طریقہ ہے اپنا روزگار یعنی نوکری نہ کرے بلکہ ذاتی حیثیت میں کام کرے۔ اِسے سیلف ایمپلائمنٹ کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں سیلف ایمپلائمنٹ کا رجحان خاصا مقبول ہو رہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان کسی کا پابند ہوئے بغیر آسانی سے کام کرتا ہے اور کم وقت میں زیادہ کماتا ہے۔ ملازمت کی صورت میں کبھی کبھی کسی جواز کے بغیر وقت ضائع ہوتا ہے۔ آجروں کی اکثریت جب کسی کو ماہانہ مشاہرے پر رکھے تو سوچ یہ ہوتی ہے کہ اُس سے زیادہ کام لیا جائے اور اگر زیادہ کام لینا ممکن نہ ہو تب بھی اوقاتِ کار کی مکمل پابندی کرائی جائے۔ یوں اچھا خاصا وقت کسی مصرف کے بغیر ضائع ہوتا ہے۔ یہ بھی انفرادی اور اجتماعی سطح کا خسارہ ہے۔ یہ تصور عام ہوتا جارہا ہے کہ نوکری سے کہیں بہتر ''جاب‘‘ ہے۔ جی ہاں! ہمارے ہاں انگریز کا لفظJOB خاصے غلط تصور کے ساتھ مستعمل ہے۔ انگریزی میں جاب ملازمت کو نہیں بلکہ طے شدہ معاوضے کے لیے کیے جانے والے کام کو کہتے ہیں۔ جیسے ہم گھر میں کسی چیز کو درست کرنے یا تزئین و آرائش کے لیے کسی کاریگر کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ آج کل ہر معاملے میں ذہانت بروئے کار لانے پر زور دیا جارہا ہے۔ زندگی کا ہر پہلو ذہانت کا طالب ہے تو پھر معاشی پہلو کیوں نظر انداز کیا جائے؟
ناگزیر ہے کہ معاشی معاملات میں بھی مطالعے اور ماہرین سے مشاورت کا کلچر پروان چڑھایا جائے۔ نئی نسل کو بہتر معاشی جدوجہد کا ہنر سکھانے کے لیے نئے معاشی نظریات اور نئی سوچ سے رُو شناس کرانا لازم ہے۔ اہلِ فکر و نظر کو اِس معاملے میں کلیدی اور قائدانہ کردار ادا کرنا ہے تاکہ معاشی جدوجہد کے لیے ولولہ بھی سلامت رہے اور اِس جدوجہد سے حَظ اُٹھانے کی ذہنیت بھی پنپتی رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں