"MIK" (space) message & send to 7575

کتب بینی کا کلچر بحال کرنا ہے

ہر آن بدلتے رہنا دنیا کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ ہر دور کا انسان ایسے ماحول کا حصہ رہا ہے جس میں اگر کوئی مستقل قدر ہے تو بس تبدیلی۔ سب کچھ بدل جاتا ہے، بس تبدیلی اپنا مزاج نہیں بدلتی۔ گزشتہ تمام ادوار کے مقابلے میں آج کا دور زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ پہلے تبدیلی کا عمل خاصا سُست رفتار تھا‘ اب بہت کچھ اِتنی تیزی سے بدل جاتا ہے کہ کبھی کبھی تو انسان سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ آخر ہوا کیا ہے۔ بدلتے ہوئے معاملات کو سمجھنے کی کوشش ہر انسان پر لازم ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں زندگی خاصی الجھ جاتی ہے۔ ماحول میں جتنی بھی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوں اُن سے مطابقت رکھنے والی تبدیلیوں کو گلے لگانا ہی پڑتا ہے۔ یہ کام ہر حال میں ہونا چاہیے۔ جب ایک کام کرنا ہی ٹھہرا تو خوشی خوشی کیوں نہ کیا جائے؟ زمانے اور حالات کو سمجھنے کا سب سے کارگر طریقہ ہے مطالعہ۔ مطالعے ہی سے انسان اپنے ماحول اور اُس میں پیدا ہونے والی مشکلات کو کماحقہٗ سمجھ پاتا ہے۔ معاملات میں پائی جانے والی الجھنوں کی تفہیم انسان کو اصلاحِ احوال کی طرف لے جاتی ہے۔ ہم اس عہد کا حصہ ہیں جس میں پڑھنا انتہائی آسان ہوگیا ہے۔ غالباً اِسی لیے معاملہ گھر کی مرغی دال برابر جیسا ہوگیا ہے۔ ایک دور تھا کہ کسی کتاب کا مطالعہ کرنے کے لیے کتب خانے کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ایک طریقہ تو وہیں بیٹھ کر پڑھنے کا تھا۔ ضخیم کتاب کو ایک نشست میں یا تھوڑی دیر میں ختم نہیں کیا جاسکتا تھا‘ اس لیے اُسے جاری کرانا پڑتا تھا۔ کتب خانے کا کارڈ بنوانا پڑتا تھا۔ اِتنی مشقت سے حاصل ہونے والی کتاب کو انسان پڑھ ہی لیتا تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ سمارٹ فون کے ذریعے کسی بھی پسندیدہ کتاب کو آسانی سے ڈاؤن لوڈ کرکے یا پھر آن لائن پڑھا جاسکتا ہے۔ بس‘ اِس آسانی ہی نے مطالعہ مشکل بنادیا ہے۔
مطالعہ یوں تو عمر کے ہر مرحلے میں شخصیت کی تشکیل و تطہیر کی ایک بنیادی شرط ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ چھوٹی عمر میں یہ عادت پختہ ہو جائے تو زندگی بھر ساتھ دیتی ہے۔ مطالعے کی عادت بالعموم سکول کے دور سے پیدا کی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں سکول کے بچوں کو مطالعے کی طرف مائل کرنے کے لیے سو جتن کیے جاتے ہیں۔ والدین کو بھی اس حوالے سے ہدایات جاری کی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنی اولاد کو مطالعے کی عادت اپنانے میں مدد دیں۔ اساتذہ خود بھی اُن میں مطالعے کا محض شوق نہیں بلکہ ذوق بھی پیدا کرنے پر متوجہ رہتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں اساتذہ خود بھی بہت پڑھتے ہیں‘ اس لیے وہ جانتے ہیں کہ مطالعے سے زندگی میں کتنی اور کیسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور یہ کہ بچوں میں مطالعے کی منظم عادت پروان چڑھانے سے اُن کی شخصیت کی تشکیل و تطہیر میں کس حد تک مدد مل سکتی ہے۔ منظم مطالعہ کسی بھی بچے کو بہتر زندگی کے لیے تیار ہونے میں غیر معمولی مدد فراہم کرتا ہے۔ مطالعے ہی کی بدولت انسان اپنے ماحول اور باقی دنیا سے اپنے تعلق کو سمجھ پاتا ہے اور اِس تعلق کے تقاضے نبھانے کے حوالے سے ذہن بھی بنا پاتا ہے۔ سلجھے ہوئے گھرانے اپنے بچوں کو مطالعے کا عادی بنانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں کیونکہ دنیا کی بہتر تفہیم اور اپنا کردار کے ادا کرنے کی بہتر تیاری کے لیے مطالعے سے زیادہ کارگر طریق کوئی نہیں۔ ہاں! مطالعہ بے لگام گھوڑے کی مانند نہیں ہونا چاہیے۔ انسان ویسے تو تحریروں سے بہت کچھ سیکھتا ہے مگر ہر زبان کا ادبِ عالیہ شخصیت ڈھنگ سے پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ہر زبان کے بڑوں یعنی تسلیم شدہ اکابر کے رشحاتِ قلم کے فیض سے انسان بہت کچھ پاتا ہے۔ زمانوں کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے۔ ماضی کو جاننے کا موقع ملتا ہے اور ماضی کی تفہیم مستقبل کے حوالے سے ذہنی تیاری میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
انسان پڑھنے کو تو بہت کچھ پڑھ سکتا ہے۔ اخبار بینی بھی انسان کو بہت کچھ دیتی ہے۔ جرائد کا مطالعہ بھی خیالات کی تطہیر کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ طویل مضامین پڑھنے سے بھی انسان بہت کچھ پاتا ہے مگر جو بات کتب بینی میں ہے وہ کسی اور طریقِ خواندگی میں نہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ کسی مضمون یا فیچر کے مقابلے میں کتاب کہیں زیادہ منصوبہ سازی اور عرق ریزی کے ساتھ لکھی جاتی ہے۔ کتاب لکھتے وقت مصنف کے ذہن میں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ اُس کا لکھا ہوا برسوں‘ عشروں تک زندہ رہے گا یعنی کتاب کی شکل میں محفوظ رہے گا۔ یہی سبب ہے کہ کتاب بالعموم طویل مدت میں مکمل ہو پاتی ہے اور اِس کے حوالہ جات بھی خاصی احتیاط سے دیے جاتے ہیں۔ مصنف جانتا ہے کہ اُس کی کتاب میں پایا جانے والا غلط حوالہ اُس کی ساکھ پر اثر انداز ہوگا۔ کتب بینی کے ذریعے کسی بھی موضوع کا خاصا مبسوط علم آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کتاب میں اندازِ تحریر چونکہ خاصا پختہ ہوتا ہے اور وہ کئی مراحل سے گزر کر منظرِ عام پر آئی ہوتی ہے اس لیے پڑھنے والوں کو بہت کچھ ملتا ہے۔ مبسوط علم کے حصول کے ساتھ ساتھ یہ سوچ کر بھی اطمینان حاصل ہوتا ہے کتابی شکل میں میسر مواد بالعموم مستند ہوتا ہے یعنی اُس کی صداقت کے بارے میں زیادہ تحفظات پالے نہیں جاسکتے۔
فی زمانہ سارا زور چلتے پھرتے پڑھنے پر ہے۔ لوگ سوشل میڈیا کی سطحی پوسٹس پڑھ لینے کو بھی مطالعہ گرداننے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے کسی بڑی کتاب کے چند اجزا تو میسر ہوسکتے ہیں، حقیقی استفادے کے لیے تو کتاب ہی سے رجوع کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا پوسٹ آپ کو کسی بڑی کتاب کے مطالعے کی تحریک دے سکتی ہے مگر مطالعے کا نعم البدل ثابت نہیں ہوسکتی۔ ہر دور میں کتاب ہی نے انسان کو بہتر زندگی کی طرف مائل کیا ہے۔ کتب بینی ہی انسانی مزاج کی پیچیدگیوں کو دور کرنے اور زندگی بسر کرنے کے حقیقی آداب سکھانے کے حوالے سے معاون ثابت ہوئی ہے۔ کسی بھی معاشرے نے کتب بینی کو پروان چڑھائے بغیر ترقی نہیں کی۔ کتب بینی ہی کسی انسان میں علم کی بنیاد مضبوط بناکر اُسے حقیقی معنوں میں صاحبِ فکر بناتی ہے۔ آج بھی آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے کہ ترقی یافتہ معاشرے کتاب کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں اور ہمارے جیسے معاشروں نے کتاب کو دیس نکالا دے دیا ہے۔ حد یہ ہے کہ اِس پر کچھ شرم محسوس ہوتی ہے نہ افسوس۔ ایک نقصان سا نقصان ہے مگر اُس کا احساس تک نہیں ع
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کی ایک نمایاں شکل یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ اور ضروری‘ دونوں طرح کے موضوعات سے متعلق زیادہ سے زیادہ مواد پڑھے۔ اور اگر یہ مواد کتابوں کی شکل میں ہو تو کیا کہنے۔ باقاعدہ، منظم اور مربوط و مبسوط مطالعہ نئی نسل کو دنیا کی بہتر تفہیم میں غیر معمولی حد تک مدد فراہم کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے اساتذہ اور والدین‘ دونوں ہی کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اساتذہ بتاسکتے ہیں کہ کیا پڑھنا چاہیے اور کیا نہیں جبکہ والدین دیکھیں کہ بچوں میں مطالعے اور بالخصوص کتب بینی کا رجحان برقرار رہتا ہے یا نہیں۔ گھر اور خاندان کے بزرگ بھی کتب بینی کے رجحان یا کلچر کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر وہ خود پڑھتے ہوں تو بچوں کو زیادہ مؤثر انداز سے مطالعے کی تحریک دے سکتے ہیں۔ بزرگ خود مطالعے کی عادت ڈالیں تو گھر کے چھوٹے اُن سے بہت کچھ سیکھیں گے۔ یہ سب کچھ ایک طویل اور صبر آزما مشق کے نتیجے میں ہو گا۔ کتب بینی کا رجحان ہمارے ہاں تیزی سے دم توڑ رہا ہے یا یوں کہیے کہ آخری سانسیں لے رہا ہے۔ مطالعے کے معاملے میں جتنی آسانیاں اب ہیں‘ پہلے کبھی نہیں تھیں۔ ہر دور گواہ ہے کہ کسی بھی مردہ رجحان کو نئی زندگی بخشنا کبھی ناممکن نہیں ہوتا ؎
ذرا سی ہمتِ پرواز کی ضرورت ہے
نہیں ہیں دور بہت شاخِ آشیاں سے ہم

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں