"MIK" (space) message & send to 7575

افغانستان فوری توجہ کا طالب

طالبان نے اگست میں افغانستان کا نظم و نسق سنبھالا تب سے معاملات پوری طرح قابو میں نہیں آسکے۔ افغانستان کے حالات پہلے ہی بہت خراب تھے۔ طالبان کی آمد کے بعد مزید خراب اس لیے ہوئے کہ طالبان کے اقتدار اور تصرف کو دنیا نے اب تک قبول ہی نہیں کیا۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ ملک چلایا تو جارہا ہے مگر چل نہیں پارہا۔ طالبان کا تصرف قائم ہونے کے بعد سے اب تک مغربی دنیا نے افغانستان کے لیے بہت سی الجھنیں پیدا کی ہیں۔ افغانستان کے بیرونی اثاثے اور کھاتے منجمد کردیے گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملک بھر میں شدید نوعیت کی انتظامی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ معیشت پہلے ہی دگرگوں تھی طالبان کو قبول نہ کیے جانے کی طرزِ فکر و عمل نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ اس کے نتیجے میں افغانستان کے طول و عرض میں شدید نوعیت کا انسانی المیہ سر اٹھاچکا ہے۔ اقوامِ متحدہ سمیت متعدد عالمی ادارے افغانستان کے بحران کی طرف عالمی برادری کی توجہ دلاتے آئے ہیں مگر عملاً ایسا کچھ بھی نہیں کیا جارہا جس سے یہ اشارا ملے کہ دنیا کو اس پسماندہ اور بُرے حالات کے چنگل میں پھنسے ہوئے ملک کی کچھ فکر لاحق ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا ایک اہم سیشن کل اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔ اس سیشن کا ایجنڈا صرف ایک نکتے پر مشتمل ہے اور وہ ہے افغانستان کی صورتحال اور وہاں انسانی المیے کو روکنا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس سیشن کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی دو کروڑ 28 لاکھ کی آبادی میں نصف کو غذا کی قلت کا سامنا ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ملک بھر میں تقریباً 32 لاکھ بچوں کو غذائیت کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
افغانستان کے لیے جن ممالک نے امداد کا اعلان کیا ہے اور امداد روانہ کی ہے اُن میں پاکستان بھی سر فہرست ہے۔ خوراک کی فراہمی کے معاملے میں افغانستان کو پاکستان کا بھرپور تعاون حاصل رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کے دوران انتباہ کیا کہ اگر افغانستان کی فوری مدد ممکن نہ بنائی گئی اور وہاں کے معاملات کو جوں کا توں چھوڑ دیا گیا تو اس کے سنگین اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ او آئی سی وزرائے خارجہ کے سیشن میں امریکا‘ برطانیہ‘ چین‘ روس اور فرانس کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے تاکہ خالص انسانی بنیادوں پر افغانستان کے لیے کچھ کرنے کی بہتر حکمتِ عملی تیار کی جاسکے۔ یورپی یونین کے علاوہ عالمی بینک اور دیگر عالمی امدادی اداروں اور تنظیموں کو بھی اس سیشن میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے تاکہ اس مشکل گھڑی میں افغان عوام کی بھرپور امداد یقینی بنانے کے لیے ڈھنگ سے کچھ کیا جاسکے۔
افغانستان سے ایک اعلیٰ سطح کے وفد کی آمد متوقع ہے تاکہ وہ خود بڑی طاقتوں اور تنظیموں کے نمائندوں سے مل کر ان پر اپنے مسائل واضح کریں اور بھرپور امداد کا حصول یقینی بنائیں۔ ایسا نہیں ہے کہ افغانستان کی صورتحال سے صرف پاکستان کو پریشانی لاحق ہے۔ ایران‘ تاجکستان اور دیگر پڑوسی ممالک بھی افغانستان کے حالات پر فکر مند ہیں اور کسی نہ کسی طور مدد کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے متعدد اجلاس ہوچکے ہیں۔ بھارت بھی اس معاملے میں دلچسپی لیتا رہا ہے۔ نئی دہلی میں افغانستان کے پڑوسیوں سمیت آٹھ ممالک کا اجلاس گزشتہ ماہ منعقد ہوا جس میں افغان عوام کی فوری مدد یقینی بنانے کے حوالے سے معاملات کا جائزہ لیا گیا۔ بھارت نے سابق افغان حکومت کے دور میں افغانستان میں ''سٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ ممکن بنانے کے لیے خاصی نمایاں حد تک سرمایہ کاری کی تھی۔ بھارت نے وہاں سکول اور ہسپتال بھی بنوائے اور سڑکیں بھی تعمیر کروائیں مگر معاملہ صرف مدد کرنے کا نہ تھا۔ بھارت وہاں قدم جماکر پاکستان کے خلاف فضا پیدا کرنا چاہتا تھا۔ چار ماہ قبل جب طالبان نے اشرف غنی حکومت کو ہٹاکر اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا تب بھارت نے پاکستان کو مطعون کرنے اور عالمی برادری میں بدنام کرنے کے لیے الزام تراشی کا سلسلہ شروع کیا۔ پاکستان پر طالبان کی مدد اور نام نہاد منتخب حکومت کو ٹھکانے لگانے میں کلیدی کردار ادا کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ پاکستان نے بھارتی الزامات کو بروقت اقدامات کے ذریعے غیر موثر بنایا۔ اب بھارت نے اہم دواؤں پر مبنی امدادی کھیپ افغانستان بھیج کر طالبان کو رام کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے۔
افغانستان کی بھرپور امداد یقینی بنانے کے معاملے میں پاکستان اور چین غیر معمولی حد تک فعال رہے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان اور بڑی طاقتوں کے نمائندوں کے درمیان رابطے یقینی بنانے پر بھی توجہ دی ہے تاکہ افغانستان کی صورتحال کو مزید خراب ہونے سے روکا جاسکے۔ طالبان کو عالمی سطح پر قبولیت ملنے تک افغانستان کے معاملات درست نہیں کیے جاسکتے۔ سابق افغان حکومتوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے کرپشن کے ذریعے جو کچھ بیرونی بینکوں میں جمع کرا رکھا ہے وہ سب افغان باشندوں کا ہے جو انہیں واپس ملنا ہی چاہیے۔ افغانستان کے پڑوسی بھی اب تک مجموعی طور پر تذبذب کی حالت میں رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ وہ افغانستان کو کھلے دل سے قبول کرنے کی طرف بڑھیں۔ ایران اور تاجکستان اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ افغانستان سے بھارت کا زمینی رابطہ نہیں۔ وہ کسی بھی تعریف کی رُو سے افغانستان کا پڑوسی نہیں۔ اب تک کا ٹریک ریکارڈ گواہ ہے کہ بھارت نے افغانستان میں دلچسپی لی ہے تو صرف اس لیے کہ پاکستان کے خلاف فضا تیار کرسکے۔ افغان معاشرے کا ایک طبقہ ایسا ہے جو بھارت کے عزائم کو اچھی طرح سمجھنے میں ناکام رہا ہے اور اُس کی دل لبھانے والی باتوں میں آکر اپنے ہی قومی مفادات کو داؤ پر لگاتا رہا ہے۔ بھارتی قیادت اب پھر وہاں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے تجوری کا منہ کھول رہی ہے۔ افغان عوام کو مدد کی ضرورت ہے مگر اس بہانے اُن کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی روش ترک کی جائے۔
یہ وقت محض باتیں بنانے کا نہیں بلکہ کچھ کر دکھانے کا ہے۔ افغانستان شدید مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ بیالیس سال قبل سابق سوویت یونین کی لشکر کشی کے وقت بھی افغانستان شدید بحران سے دوچار ہوا تھا اور اُس کے بعد تو مسائل کی چَکّی سی چل پڑی تھی۔ افغان عوام نے چار عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران بہت کچھ جھیلا ہے۔ افغانستان کو زیادہ سے زیادہ استحکام درکار ہے۔ معیشت کو زندہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ افغانستان کا حکومتی نظام درہم برہم ہے۔ ریاستی مشینری شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ فوج کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا ہی ہوگا۔ امریکا‘ چین‘ برطانیہ‘ فرانس‘ روس اور اقوام متحدہ کو آگے بڑھ کر افغان عوام کی اس طور مدد کرنا ہوگی کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ پاکستان ہر دور میں افغانستان کے لیے بہت اہم رہا ہے۔ جو کچھ افغانستان میں ہوتا رہا ہے اُس کا اچھا خاصا خمیازہ پاکستان بھی بھگتتا رہا ہے۔ سابق سوویت یونین کی لشکر کشی کے بعد افغانستان سے پناہ گزینوں کے سیلاب نے پاکستان کا رخ کیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو معاشی اور معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ آج بھی لاکھوں افغان باشندے پاکستان کی سرزمین پر بسے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں حقیقی امن و استحکام یقینی بنانے میں کامیابی ممکن بنائی جائے تو پاکستان بھی فائدے میں رہے گا۔ افغانستان کا استحکام ویسے تو پورے خطے کے لیے ضروری ہے مگر پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔ او آئی سی کے اجلاس کو نشستند و گفتند و برخاستند کی منزل سے کئی قدم آگے جاکر افغانستان کے لیے ایسے اقدامات یقینی بنانے پر توجہ دینا ہوگی جن کے ذریعے افغان عوام کے لیے بہتر زندگی کے دروازے کُھلیں اور وہ عالمی برادری میں پورے وقار کے ساتھ سر اٹھاکر چلنے کے قابل ہوسکیں۔ او آئی سی کا ہنگامی سیشن بلاکر پاکستان نے اپنا کردار ادا کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ دعا کی جانی چاہیے کہ یہ کوشش بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہو اور افغانستان کو مکمل تباہی سے روکا جاسکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں