"MIK" (space) message & send to 7575

اچھی خبر کب ملے گی؟

دنیا اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ کورونا کی وبا کے شدید منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اقدامات کیے جائیں تاکہ آنے والا وقت زیادہ بگاڑ پیدا نہ کرے۔ اور ہم ہیں کہ اب تک اندرونی معاملات ہی کو مکمل طور پر درست کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ دعووں اور جوابی دعووں کا بازار گرم ہے۔ جو کچھ حکومت کہتی ہے اُسے غلط قرار دینا اپوزیشن کا بنیادی حق اور فرض ہوکر رہ گیا ہے۔ دوسری طرف حکومت بھی اپوزیشن کی ہر بات کو یکسر غلط قرار دینے پر تلی رہتی ہے۔
وفاقی ادارۂ شماریات نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ نومبر اور دسمبر 2021ء کے دوران مہنگائی میں اضافے کی رفتار برقرار رہی، بلکہ دسمبر میں زیادہ ہی رہی۔ سال کے آخری دونوں مہینوں کے دوران ملک بھر میں انتہائی بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران شہریوں کی جان پر بن آئی۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہر اُس شہری کے لیے انتہائی پریشان کن ہے جو معیّن آمدن رکھتا ہے یعنی تنخواہ دار طبقہ مہنگائی کی چکی میں بُری طرح پس رہا ہے۔ مہنگائی میں اضافے کی رفتار کب تھمی؟ چند ایک اشیا کی قیمتیں کم ہو بھی جائیں تو کیا ہوا؟ بعض دوسری اشیا کی قیمتیں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ سارا فرق خاک میں مل جاتا ہے۔ بعض انتہائی ضروری اشیا کی قیمتیں زیادہ تیزی سے بڑھیں تو دیگر اشیا کی خریداری میں ہونے والی بچت کسی کام کی نہیں رہتی۔ وزارتِ خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے گزشتہ ہفتے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی اب نہیں بڑھ رہی بلک چند ایک اشیا کے معاملے میں تو یہ شرح منفی میں بھی ہے۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ ہدف سے زیادہ ٹیکس وصول کیے جانے کے مثبت نتیجے کے طور پر عوام کو بہت جلد پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں رعایت ملے گی۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے حکومت پر دباؤ ڈالا ہے کہ عوام پر 700 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جائے مگر حکومت نے صرف 350 ارب روپے کے ٹیکس وصول کیا ہے۔ علاوہ ازیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھائے جا رہے ہیں۔ یہ ساری باتیں بہت عجیب ہیں۔ ایک طرف تو کہا جارہا ہے کہ ہدف سے زیادہ ٹیکس وصول کیے جانے کے نتیجے میں عوام کے لیے کسی حد تک ریلیف کا اہتمام کیا جائے گا اور دوسری طرف کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کا دباؤ بہت زیادہ ہے جس کے آگے سرِتسلیم خم کرنا پڑے گا۔
اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر رہا کہ کورونا کی وبا نے دنیا بھر میں معیشتوں کو تِگنی کا ناچ نچایا ہے۔ کوئی ایک ملک بھی یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ کورونا کی وبا نے اُسے شدید منفی اثرات سے دوچار نہیں کیا۔ پاکستان بھی بہت سی خرابیوں سے دوچار رہا ہے۔ دو برس کی مدت میں معیشت کی ہوا اُکھڑ چکی ہے۔ ہمارے حالات پہلے ہی کون سے اچھے تھے‘ اگر کورونا کی وبا نازل نہ ہوئی ہوتی تب بھی ہم الجھے ہوئے ہی رہتے اور معاشی مسائل حل کرنے میں قابلِ ذکر اور قابلِ رشک کامیابی یقینی نہ بنا پاتے۔ کورونا کی وبا کے ہاتھوں جو کچھ ہم پر گزری اُس کے حوالے سے حکومت کو تھوڑی بہت رعایت تو ملنی ہی چاہیے۔ حکومت کرتی بھی تو کیا کرتی؟ جو کچھ باقی دنیا کو کرنا تھا وہی ہمیں بھی کرنا تھا۔ کورونا کی وبا نے کسی بھی ملک کو اس قابل چھوڑا ہی کب تھا کہ وہ باقی دنیا سے الگ رہتے ہوئے کوئی بڑا فیصلہ کرتا اور اُس پر عمل بھی کر گزرتا۔ پی ٹی آئی کی حکومت اس اعتبار سے بدنصیب رہی کہ سَر منڈاتے ہی اولے پڑے کے مصداق اقتدار سنبھالتے ہی کورونا کی وبا نے آلیا۔ سارے وعدے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ایسا ہونا ہی تھا۔ حکومت کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ پوری دنیا لاک ڈاؤن کی زد میں تھی۔ معیشتوں کے دروازے بند ہوچکے تھے۔ اگر حکومت چاہتی بھی تو معاشی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتی تھی۔ ترقی یافتہ دنیا کے دروازے بند ہوچکے تھے۔ ایسے میں پاکستان کچھ کرنے کے قابل رہا ہی کب تھا؟ حکومت کے ہاتھ پاؤں بندھے تھے۔ ہاں! کورونا کی وبا پر بہت حد تک قابو پانے کے بعد جب دنیا نے بحالی کی طرف سفر شروع کیا تب اس بات کی ضرورت دکھائی دی کہ حکومت پوری سنجیدگی کے ساتھ قومی معیشت کی بحالی کے لیے کوشاں ہو مگر ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا۔ تب اپوزیشن کے لیے بھرپور تنقید کا جواز پیدا ہوا۔ ہمارے ہاں اپوزیشن اصلاحِ احوال کے لیے نہیں ہوتی بلکہ محض تنقید برائے تنقید کے لیے ہوتی ہے۔ جو کچھ اپوزیشن نے سال بھر میں کیا‘ وہ ہمارے سامنے ہے۔ حکومت نے بھی اُسے کھل کر کھیلنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔
ہم 2022ء میں قدم رکھ چکے ہیں۔ حکومت کو اب اِسی سال کچھ کرکے دکھانا ہے۔ اگلا سال تو الیکشن کا ہوگا۔ تب انتخابی بھاگ دوڑ ایسی ہو گی کہ کچھ بھی ہاتھ میں نہ رہے گا۔ وزیراعظم اور اُن کی ٹیم کے پاس اب بظاہر صرف ایک سال کا وقت ہے۔ اِس ایک سال میں انہیں تھوڑی بہت گنجائش نکالنی ہے تاکہ لوگوں کے آنسو پونچھ سکیں، دل و دماغ کی ڈھارس بندھ سکے مگر اس وقت ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومت اب بھی الزام و جوابِ الزام کے کھیل میں الجھی ہوئی ہے۔ اب بھی صرف اور صرف دعووں سے کام چلایا جارہا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے ترجمان نے کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران جو کچھ کہا‘ وہ مجموعی طور پر حقائق کے منافی معلوم ہوتا ہے۔ وفاقی ادارۂ شماریات نے بھی بتادیا ہے کہ ملک میں مہنگائی کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہے۔ چند ایک اشیا میں ملنے والی ریلیف کی بنیاد پر بلند بانگ دعوے کرنا درست نہیں۔ ایک دل خراش حقیقت یہ بھی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی سے بہت دور عوام بھی اپنے حصے کا کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لوگ بھی مہنگائی کا بہانہ بناکر اپنی اپنی تجوری بھرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کسی بھی چیز کے دام بڑھانے کا محض بہانہ چاہیے۔ جیسے ہی گنجائش نکلتی ہے‘ لوگ منافع خوری پر تُل جاتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھتے ہی لوگ اشیا و خدمات کے منہ مانگے دام وصول کرنا شروع کردیتے ہیں۔ بڑے کاروباری ادارے اگر منافع خوری پر تلے ہیں تو عام دکان دار اور ہنر مند نے کب کسی کو بخشا ہے؟ سبھی حسبِ توفیق و گنجائش لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں معاشی اعتبار سے کسی بھی بہتری کی گنجائش کیسے نکل سکتی ہے؟
حکومتی مشینری پر لازم ہے کہ عوام کو چند ایک معاملات میں کوئی ایک اچھی خبر دینے کی کوشش کرے۔ بعض اشیا کے نرخ کنٹرول کیے جاسکتے ہیں۔ حکومتی مشینری تھوڑی بہت سختی کرے تو چند ایک اشیا و خدمات کے نرخ قابو میں رکھے جاسکتے ہیں۔ اس حوالے سے عام آدمی کی ذہنی تربیت لازم ہے۔ لوگ دیکھا دیکھی بہت کچھ غلط کر رہے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ انتخابی مہم کے دوران جو بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے وہ تو پورے ہوتے دکھائی نہیں دیتے بلکہ اُن کا عشرِ عشیر بھی حقیقت کا روپ دھارتا نظر نہیں آتا مگر ہاں! تھوڑی بہت کوشش ضرور کی جاسکتی ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں معیشتیں بحالی کی طرف گامزن ہیں۔ بڑی طاقتیں اب بھی کمزور اورمجبور ریاستوں سے کھیل رہی ہیں۔ یہ کھیل کب تک جاری رہے گا، کچھ کہا نہیں جاسکتا مگر ہاں! ہمیں تو اپنے طور پر پوری کوشش کرنی چاہیے کہ لوگوں کے لیے تھوڑا بہت ریلیف کا سامان ہو۔ پاکستانی معیشت کو مکمل بحالی کی طرف گامزن کرنے کی ایک بہتر اور معقول صورت یہ ہے کہ حکومت فوری طور پر انتہائی ضروری اشیائے صرف کے نرخ کنٹرول کرکے عوام کو یقینی ریلیف دے۔ علاوہ ازیں بعض معاملات کو کھلا چھوڑنے کے بجائے سختی سے کنٹرول کیا جانا چاہیے، مثلاً پبلک ٹرانسپورٹ کے معاملے کو یونہی نہ چھوڑا جائے بلکہ متعلقہ مشینری سختی کرے تاکہ لوگ ایک دوسرے کو لوٹنے سے باز رہیں۔ عام آدمی کو روزانہ کام پر جانے اور گھر واپس آنے پر بھی اچھا خاصا خرچ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ہی چند دوسرے یومیہ معاملات میں بھی حکومت کی طرف سے ریلیف کا اہتمام نہیں کیا جارہا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں