"MIK" (space) message & send to 7575

اپنا گھر پھر اپنا ہے

زیادہ سے زیادہ خوش حالی کسے بُری لگتی ہے؟ کم و بیش ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کی زندگی میں سکھ ہی سکھ ہوں‘ مگر ساتھ ہی یہ تصور بھی کر لیا گیا ہے کہ سکھ صرف دولت کے حصول اور اُسے خوب خرچ کرنے کا نام ہے۔ سکھی زندگی کا ذکر ہوتے ہی لوگوں کے ذہن کے پردے پر اچھا مکان، اُس میں بھرا ہوا سامانِ عشرت، شاندار ملبوسات اور گاڑیاں وغیرہ ابھرنے لگتی ہیں۔ یہ تمام چیزیں زندگی کا اہم ترین جز ہیں مگر صرف اِنہیں زندگی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک مدت سے ہم یہ تماشا دیکھ رہے ہیں کہ اپنے وطن کے بہت سے لوگ اپنی اور اہلِ خانہ کی زیادہ خوش حالی یقینی بنانے کے لیے بیرونِ ملک آباد ہونے کی تگ و دَو کرتے رہتے ہیں۔ یہ تگ و دَو بہت کچھ مانگتی ہے اور یہ لوگ وہ سب کچھ دینے کو تیار رہتے ہیں۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ بیرونِ ملک جانے اور وہاں آباد ہونے کی قیمت کیا ہوتی ہے اور کیا ہونی چاہیے؟ وطن کی مِٹی کو چھوڑ کر بیرونِ ملک خاک چھاننے کے لیے انسان کو بہت کچھ داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ یہ کسی بھی درجے میں حیرت انگیز بات نہیں۔ دنیا کی یہی ریت ہے۔ جو لوگ ترکِ وطن کی صورت میں کہیں اور جا بستے ہیں وہ اپنا بہت کچھ قربان کرتے بلکہ داؤ پر لگاتے ہیں۔
اپنا وطن چھوڑ کر ترقی یافتہ ممالک میں آباد ہونے اور اہلِ خانہ کے لیے بہتر زندگی ممکن بنانے کی لگن بری چیز نہیں مگر اِس کے لیے سبھی کچھ داؤ پر لگانا یقینا بُری بات ہے۔ جنوبی ایشیا میں اس حوالے سے بہت حد تک دیوانگی اور ہوس پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے نوجوان بے شمار ہیں جو کسی بھی قیمت پر بیرونِ ملک جانے اور آباد ہونے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ دیہی ماحول کے نوجوانوں میں یہ چیز زیادہ پائی جاتی ہے اور اس کے لیے وہ غیر قانونی ہتھکنڈے اپنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایران اور ترکی سے ہوتے ہوئے غیر قانونی طور پر یورپ جانے والوں کی تعداد بھی کم نہیں اور ایسا کرنے کی خواہش رکھنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ آج بھی لاکھوں پاکستانی ترقی یافتہ ممالک کی شان و شوکت دیکھتے ہیں تو اُن کی نظر میں اپنے وطن کی وقعت کم ہوتی جاتی ہے۔ یہاں حکومتی اور انتظامی سطح پر جو خرابیاں پائی جاتی ہیں اُن سے مایوس ہوکر وہ بیرونِ ملک آباد ہونے کا سوچتے ہیں۔ اِن لاکھوں نوجوانوں کا جسم تو ملک میں ہوتا ہے مگر ذہن کبھی یہاں اور یہاں کا نہیں رہ پاتا۔ وہ دن رات وطن چھوڑ کر ترقی یافتہ دنیا میں آباد ہونے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ باہر جانے کی خواہش ایک بار زور پکڑ لے تو پھر آسانی سے جاتی نہیں۔ جن کی نظر ترقی یافتہ دنیا پر ہو اُنہیں وطن کم و بیش ہر معاملے میں کَھلنے لگتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنی صلاحیت و سکت کی بنیاد پر وہ بھی حاصل نہیں کر پاتے جو وہ حاصل کرسکتے ہیں۔ ملک بھر میں ایسے لاکھوں گھرانے ہیں جن میں والدین اس بات سے نالاں ہیں کہ اُن کی جوان اولاد وطن میں کچھ کرنے سے گریزاں رہتی ہے اور بیرونِ ملک آباد ہونے کے فراق میں کچھ کر ہی نہیں پاتی۔ ہزاروں گھرانے ایسے ہیں جن کے نوجوان کسی ترقی یافتہ ملک میں آباد ہونے کی ہوس کے ہاتھوں مجبور ہوکر اہلِ خانہ کے لاکھوں روپے داؤ پر لگادیتے ہیں۔ بیرونِ ملک آباد کرانے کی بات کرنے والے ایجنٹ جب رقم لے کر غائب ہو جاتے ہیں تب یہ نوجوان اپنے ہی اہلِ خانہ کے لیے حقیقی بوجھ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
معاشرے میں ہر طرح کی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ سوال صرف معیشت کی خرابی کا نہیں بلکہ معاشرتی الجھنوں کا بھی ہے۔ تعلیم اور تربیت کے مراحل سے گزر کر جب کوئی نوجوان اچھی ملازمت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تب کیریئر کی بات تو دور‘ دو وقت کی روٹی کا سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ جب کسی نوجوان کو اپنے ماحول سے چڑ ہو جاتی ہے اور وہ ہر وقت بیرونِ ملک جانے کے خواب دیکھنے لگتا ہے تب اُس کا من کام میں نہیں لگتا۔ ساری صلاحیت و سکت داؤ پر لگ جاتی ہے۔ ایسے میں نئی نسل اپنے اہلِ خانہ کے لیے وہ بھی نہیں کر پاتی جو وہ کرسکتی ہے۔ آج لاکھوں گھرانوں کا یہی المیہ ہے۔
نئی نسل کو اس حوالے سے غیر معمولی کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو بتایا جائے کہ بہتر معاشی امکانات کے لیے بیرونِ ملک جانا اور وہاں بہت کچھ کماکر گھر والوں کو بھیجنا بہت اچھی بات مگر اِس کے لیے پوری زندگی کو داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا۔ ایسا کرنے کو کسی بھی درجے میں دانش مندی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نئی نسل میں وطن سے بیزاری کا بلند ہوتا ہوا گراف انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ ایسے نوجوانوں کو وطن دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لیے بہت آسانی سے استعمال کرسکتے ہیں۔ اور اگر کوئی دشمن اِنہیں استعمال نہ کرے تب بھی یہ اپنے وجود کے دشمن تو ہوتے ہی ہیں۔ وطن سے بیزاری کیا کم ہے؟ جب کوئی نوجوان ہر حال میں، ہر قیمت پر بیرونِ ملک جانے اور وہاں آباد ہونے کے بارے میں سوچنا شروع کرتا ہے تب وہ اپنے ماحول کا نہیں رہتا۔ اُسے وطن بھی کَھلتا ہے اور اہلِ وطن بھی۔ وہ اپنی صلاحیت و سکت کو وطن کی حدود میں بروئے کار لانے کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیتا ہے۔
دیہی ماحول کے بہت سے نوجوان باپ دادا کی زمین بیچ کر لاکھوں روپے ایجنٹس کو دیتے ہیں اور پھر ایجنٹس کے بھاگ جانے پر زندگی بھر روتے بھی رہتے ہیں اور اہلِ خانہ کی نظروں میں بھی کبھی بلند نہیں ہو پاتے۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ جو نوجوان بیرونِ ملک آباد ہونے کے چکر میں دل و جان سے کوئی کام نہیں کر پاتے وہ کسی ایجنٹ کے ہاتھوں دھوکا کھاکر، ماں باپ کی جمع پونجی ٹھکانے لگنے پر بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اپنے ساتھ ساتھ اہلِ خانہ کے بھی کام نہ آنے کا پچھتاوا اُنہیں دن رات اندر ہی اندر کھاتا رہتا ہے۔ ایسے نوجوان اپنے ماحول کے لیے اجنبی ٹھہرتے ہیں۔ بچوں کو یہ بات سکھانے کی ضرورت ہے کہ اپنا وطن پھر اپنا ہے۔ جو بات اِس مٹی میں ہے وہ کہیں اور نہیں۔ وطن سے محبت شرط ہے۔ یہ محبت ہی کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ اگر انسان اپنے وطن اور اُس کے ماحول سے نفرت کرے یا بیزار ہو تو کہیں کا نہیں رہتا۔ لاکھوں نوجوانوں کی حالت یہ ہے کہ معقول تربیت نہ ملنے کے باعث ملک میں کچھ کرنے سے گریزاں رہتے ہیں اور یہاں دن رات ایک کرکے اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے کچھ کرنے والوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ بعض کا تو یہ حال ہے کہ ہر وقت ملک سے باہر جانے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور جو لوگ یہاں دن رات ایک کرکے اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی گزر بسر کا اہتمام کر رہے ہیں اُنہیں حقیر سمجھنے لگتے ہیں۔ وطن سے بیزار نوجوانوں کی نظر میں اپنے ملک کا ہر وہ شخص احمق اور گھامڑ ہے جو دن رات محنت کرکے اپنے اور اہلِ خانہ کے لیے کچھ کرنے کی فکر میں غلطاں رہتا ہے۔ یہ فکری روش آگے چل کر پورے وجود کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے یعنی انسان کہیں کا نہیں رہتا۔
بچوں کو سکول کی سطح سے یہ بات خصوصی طور پر بتائی اور سکھائی جائے کہ بہتر زندگی کے لیے کچھ بھی کرنا اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب اپنے وطنِ کی مٹی اور اُس کے ماحول کو گلے لگایا جائے، اپنے لوگوں کو قبول کیا جائے۔ اگر اِس مرحلے سے ناکام گزرے تو سمجھ لیجیے زندگی برباد ہوئی۔ بچوں کو یہ بھی بتانا لازم ہے کہ اپنا وطن چھوڑ کر کہیں اور جانے، وہاں آباد ہونے اور اہلِ خانہ کے لیے بلند تر معیارِ زندگی یقینی بنانے کی تگ و دو بُری بات نہیں مگر اِس کے لیے سب کچھ داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا۔ اگر بیرونِ ملک بے توقیری کے ساتھ کام کرنا پڑے تو اِس سے کہیں بہتر یہ ہے کہ انسان اپنے وطن میں رہتے ہوئے عزت اور وقار کے ساتھ کام کرتا رہے۔ زندگی صرف مادّی خوش حالی کا نام نہیں۔ گھر میں آسائشوں کا ہونا اچھی بات ہے مگر اِس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ جو کچھ بھی ملے وہ احترام سے ملے۔ یہ نکتہ قدم قدم پر ذہن نشین رہنا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں