"MIK" (space) message & send to 7575

سب دو راہے پر کھڑے ہیں

یوکرین کے بحران نے کم و بیش ہر ملک کے لیے ایک عجیب مخمصے کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ کئی خطوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ بعض خطے دور افتادہ سہی مگر لاتعلق رہنے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اُن کے لیے کسی نہ کسی منطقی نتیجے اور فیصلے تک پہنچنا لازم ہوچکا ہے۔ امریکا کئی ممالک پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ یورپ اب تک پیچھے رہنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ اُس نے اپنا کردار یوکرین سے جان بچاکر نکلنے والوں کو پناہ دینے تک محدود رکھا ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس معاملے میں اُسے شدید نوعیت کی نسل پرستی کے حوالے سے تنقید کا سامنا ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ اس بحران کی کوکھ سے اُس کے لیے کچھ نہ کچھ سٹریٹجک فائدہ نکل آئے۔ اُس نے اب بھارت کو بھی وسط ایشیا کے حوالے سے انگیج کرنا شروع کردیا ہے۔ بھارتی قیادت کے لیے بھی یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ اب تک وہ واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان بیلنسنگ ایکٹ کی بھرپور کوشش کرتا آیا ہے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ اُسے واشنگٹن اور ماسکو میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہوگا۔ بھارت ایک بڑی منڈی سہی اور اُس سے معاشی مفادات بھی وابستہ سہی‘ روس یہ برداشت نہیں کر پائے گا کہ بھارتی قیادت اُس سے بھی ہاتھ ملائے اور مغرب کے بھی گلے لگی رہے۔ وہ چاہے گا کہ بھارتی قیادت اب واضح فیصلہ کرے کہ اُسے کس کے ساتھ رہنا ہے۔
پاکستان نے یوکرین کے معاملے میں اپنی سوچ دنیا کے سامنے رکھ دی ہے۔ اُس نے روس اور چین کے ساتھ کھڑے رہ کر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ سب کچھ اُن کی مرضی کے مطابق یا اُن کی مرضی سے نہیں ہوگا۔ امریکا اور یورپ نے بھی محسوس کرلیا ہے کہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک پر اس وقت زیادہ دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا۔ افغانستان‘ عراق اور دیگر معاملات میں تو امریکی فوجی حکام بھاگم بھاگ پاکستان آتے تھے۔ یوکرین کے بحران نے ایسی صورتِ حال پیدا نہیں کی۔ امریکی قیادت بھی جانتی ہے کہ اس وقت پاکستان سے بات چیت شروع کی گئی تو اُسے چند ایک معاملات میں رعایت دینا پڑے گی۔ امریکا چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طور بھارت کو اپنے ساتھ رکھے۔ بھارت کے لیے بھی وسط ایشیا اہم رہا ہے۔ اُس نے افغانستان میں اپنے لیے سٹریٹجک ڈیپتھ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ 2002ء سے 2021ء تک بھارت نے افغانستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ پُل‘ سڑکیں اور ہسپتال تعمیر کرنے میں بھارت نے اہم کردار ادا کیا مگر طالبان کی دوبارہ آمد نے اُس کے لیے امکانات گھٹادیے۔ اب بھارت کے پاس کم ہی آپشن رہ گئے ہیں۔ اگر وہ روس کو ناراض کرتا ہے تو چین کے ساتھ مل کر روسی قیادت اُس کا ناطقہ بند کرسکتی ہے۔ اگر روس کی خوشنودی یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے تو امریکا اور یورپ ہاتھ سے جاتے ہیں۔ اگر بھارت نے چین اور روس کے دباؤ کے تحت مغربی دنیا کو ثانوی حیثیت دی تو وہاں اُس کے لاکھوں باشندوں کے لیے امکانات محدود ہوتے جائیں گے۔
چین کے لیے بھی یہ خاصی بڑی آزمائش کا وقت ہے۔ کم و بیش چار عشروں کی محنت شاقہ سے اس مقام تک پہنچا ہے کہ مغرب کو منہ دے سکے۔ اب اُسے چند ساتھی درکار ہیں تاکہ وہ بھی مغرب کی طرز پر ایک بڑا بلاک بناسکے۔ چین اس مرحلے پر کوئی ایسی بات نہیں چاہے گا جس کے نتیجے میں اُس کے الگ تھلگ کردیے جانے کا امکان ہو۔ اب اُس کے لیے بیلنسنگ ایکٹ کا وقت آچکا ہے۔ لازم ہے کہ وہ امریکا اور یورپ کو کسی بھی اعتبار سے کوئی ایڈوانٹیج نہ دے۔ روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے بارے میں چین کا ردعمل ملا جلا رہا ہے۔ اُس نے ابتدا میں کہا تھا کہ یہ پابندیاں کسی صورت قابلِ قبول نہیں تاہم بعد میں اُس نے اس حوالے سے بیان بازی میں احتیاط برتنا شروع کردیا۔ کیا چینی قیادت اقتصادی پابندیوں کے معاملے میں روس کے ساتھ کھڑی رہے گی؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا کوئی حتمی جواب فی الحال نہیں دیا جاسکتا۔ چین نے عندیہ دیا ہے کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کی عسکری مہم جوئی کی پوری قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں۔ سلامتی کونسل میں روس کے خلاف مذمتی قرارداد پر رائے شماری کے وقت وہ غیر جانب دار رہا تاہم اِس سے یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ ہر وقت کھل کر روس کے ساتھ ہی رہے گا۔ ترکی نے روس اور یوکرین کے معاملات میں متوازن رویہ اپنانے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف اس نے یوکرین کے شہریوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اُن کی مدد کرنے کا اعلان کیا اور دوسری طرف وہ مغربی کی میڈیا مشینری کے سامنے روس کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوا ہے۔ ترکی جیسے ممالک کے لیے غیر جانب دار رہتے ہوئے کسی فریق کا زیادہ ساتھ دینا بہت مشکل ہے۔ وہ اُس خطے سے جڑاہوا ہے جہاں جنگ ہو رہی ہے۔
سوال چند ایک ممالک کا نہیں‘ پوری دنیا دو راہے پر کھڑی ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے نے درجنوں ممالک کے لیے لازم کردیا ہے کہ اب واضح طور پر پارٹنرز منتخب کریں۔ پاکستان کے لیے چین اور روس کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا۔ امریکا اور یورپ نے اب تک جس طور دوستی نبھائی ہے اُس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی بھی مشکل گھڑی میں وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔ 1971ء میں امریکا نے ساتواں بحری بیڑا پاکستانی افواج کی معاونت کے لیے بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ ہم آج تک اُس بیڑے کا انتظار کر رہے ہیں!
یہ وقت پاکستانی قیادت کی سُوجھ بُوجھ کی بھی آزمائش کا ہے۔ ہمیں اپنے لیے اب ایسے پارٹنرز منتخب کرنے ہیں جو ہر مشکل گھڑی میں ہمارے کام آئیں۔ سوال صرف مادی مدد کا نہیں‘ اخلاقی حمایت کا بھی ہے۔ امریکا اور یورپ نے بہت سے مواقع پر طفل تسلیاں دینے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ ایسے میں اُن پر مزید بھروسہ کرنے کا کوئی منطقی جواز نہیں۔ مجموعی طور پر پوری مسلم دنیا دو راہے پر کھڑی ہے۔ مسلم ممالک جن کی طرف جھکیں گے وہی دنیا پر راج کریں گے۔ اب تک ہمارا جھکاؤ امریکا اور یورپ کی طرف رہا ہے۔ اس راہ پر مزید چلنے کی گنجائش نہیں۔ سعودی عرب اور خلیج کا خطہ اگر ایشیا کی طرف جھکاؤ کا فیصلہ کرلیں تو عالمی سیاست و معیشت میں مغرب کی اجارہ داری باقی نہ رہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات تو نہیں ہوسکتا۔ ہاں‘ مرحلہ وار بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ عرب دنیا کے لیے امریکا کے سحر سے راتوں رات نکلنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ ایک صدی کے دوران مغرب نے عرب دنیا میں پنجے خوب گاڑے ہیں۔ اُن کے حلقۂ اثر سے نکلنا آسان نہ ہوگا۔ خیر‘ ابتدا تو کی جائے۔ پھر رفتہ رفتہ بہت کچھ درست ہوتا چلا جائے گا۔ دیرپا ثابت ہونے والے فیصلے کرنے کا وقت آچکا ہے۔ اب طے کرنا پڑے گا کہ کون کس کے ساتھ کھڑا رہنا چاہتا ہے۔ طاقت کا پرانا نظام منتشر ہو رہا ہے اور نیا نظام ابھر رہا ہے۔ صورت حال دن بہ دن واضح تر ہوتی جارہی ہے۔ معاملات بالغ نظری کے متقاضی ہیں۔ عجلت پسندی کے مظاہرے کا وقت نہیں اور یہ محل تذبذب میں مبتلا رہنے کا بھی نہیں۔ نئی دوستیاں اور نئی رفاقتیں قائم کی جانی ہیں۔ عالمی سیاست و معیشت کا ڈھانچا پورا کا پورا تبدیل ہونے والا ہے۔ امریکا اور یورپ نے تین چار عشروں کے دوران بدلتے ہوئے حالات سے کوئی سبق سیکھنے کے بجائے محض ہٹ دھرمی کا سہارا لیا اور پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں بند رکھنے کی کوشش کی۔ ایسی کوئی بھی کوشش اکیسویں صدی میں زیادہ دیر تک کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔
پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ دو راہا غیر معمولی اہمیت کا ہے۔ ایک زمانے سے پاکستان کے لیے حالات بقا کا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ اب تھوڑی بہت گنجائش پیدا ہوئی ہے کہ ہم اپنے لیے کوئی ڈھنگ کی راہ چنیں۔ مغرب کی حاشیہ برداری ہمارے کام نہ آئی۔ حق تو یہ ہے کہ امریکا اور یورپ نے مل کر ہم سے اپنے کام نکلوائے اور ہر بار استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا۔ ہمیں طے کرنا ہے کہ ٹشو نہیں بننا۔ نیا عالمی نظام منصۂ شہود پر آنے کو ہے۔ اس میں ہمیں اپنے لیے جگہ بنانی ہے۔ بھارت میں کوششوں میں لگا ہے کہ رند کا رند رہے اور ہاتھ سے جنت بھی نہ جائے۔ دانش مندی اور مثبت سوچ ہی ہمارے لیے کسی معجزے کا اہتمام کرسکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں