اس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ اس وقت پوری دنیا الجھی ہوئی ہے۔ ایسے میں پاکستان میں بھی قیادت کا الجھنا‘ شش و پنج میں مبتلا ہونا اور بعض مواقع پر درست فیصلہ کرتے وقت انتہائی دباؤ محسوس کرنا کسی بھی درجے میں کوئی انوکھی بات نہیں۔ رعایتی نمبر دیئے جاسکتے ہیں مگر خیر اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ ہر معاملے میں ''ترقی پاس‘‘ سے کام چلایا جاتا رہے۔ جہاں کچھ کرنا ہے وہاں تو کچھ کرنا ہی ہوگا۔
اس وقت پاکستان سٹریٹجک حوالے سے انتہائی اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ معاملات دن بہ دن کچھ سے کچھ ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں دیدہ و دل کا سلامت رہنا ناگزیر ہے تاکہ دیکھنا اور سمجھنا ممکن ہی نہیں‘ آسان بھی رہے۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ یہ فیصلے کی گھڑی ہے اور ہم ہیں کہ اب تک الجھے ہوئے ہیں۔ باہمی اختلافات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ امریکن اینڈومنٹ فار ڈیموکریسی کا ایک اندرونی خط آج کل سوشل میڈیا میں گردش کر رہا ہے جس میں امریکی حکام نے پاکستان میں امریکا کی بڑھتی ہوئی مخالفت کا رونا روتے ہوئے چند نام بھی گنوائے ہیں جن کے باعث معاملات دردِ سر ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف چند پاکستانی سیاست دانوں کے نام بھی اس خط میں شامل ہیں جن سے بات کرکے ملک میں جمہوریت کو ''بچانے‘‘ کی تگ و دَو کی جارہی ہے۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سیاست دانوں سے رابطوں کا بنیادی مقصد پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ یقینی بنانا اور نئے انتخابات کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اب یہ تو کُھل ہی چکا ہے کہ جو کچھ بھی ملک میں ہو رہا ہے وہ صرف اندرونی حالات اور عوامل کا نتیجہ نہیں۔ بیرونی مداخلت اتنی نمایاں ہے کہ اب اس حوالے سے کچھ زیادہ کہنے کی گنجائش نہیں رہی۔ اچانک رونما ہونے والی سیاسی ہلچل کے پیچھے صرف اندرونی عناصر نہیں۔ یہ سب کچھ ممکنہ طور پر اس لیے ہو رہا ہے کہ ملک نے راہ بدلنے کا اشارہ دیا ہے۔ ایک زمانے سے پاکستان بہت کچھ بھگت رہا ہے۔ امریکا اور یورپ کی باتیں مانتے مانتے ہم اب غلاموں کے درجے میں ہیں۔ مغربی طاقتیں ہمارے معاملات میں اس حد تک مخل رہی ہیں کہ ایک دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں سیاسی سطح پر جو کچھ بھی ہوتا ہے اُس کی پشت پر مغربی طاقتوں کی پالیسیاں ہی ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہم نے سات عشروں تک جھیلا ہے۔ اب مزید جھیلنے کی سکت نہیںرہی۔ جب پوری دنیا بدل رہی ہے تو ہم کیوں نہ بدلیں؟ اور پھر یوں بھی ہے کہ آپشن دستیاب ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں امریکا اور یورپ کی غلامی پر لازماً راضی ہونا پڑے۔ اب کئی ممالک ابھر کر سامنے آچکے ہیں اور مغرب کو للکار بھی رہے ہیں۔ ماہرین تین عشروں سے پیش گوئی کرتے آئے ہیں کہ چین کی طاقت میں غیر معمولی اضافہ روس کو بھی کچھ کرنے کی تحریک دے گا اور اس کے نتیجے میں معاملات ایسا رخ اختیار کریں گے کہ طاقت کا مرکز ایشیا منتقل ہو جائے گا۔ وہ گھڑی اب آن پہنچی ہے۔ امریکا اور یورپ کو بھی بخوبی اندازہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے کم و بیش ایک صدی کے دوران کیا ہے وہ باقی دنیا کو اُن سے حد درجہ متنفر کرنے کے لیے کافی ہے۔ ایسے میں درجنوں ریاستیں متبادل کی تلاش میں تھیں۔ چین‘ روس‘ ترکی اور ایران کی شکل میں وہ متبادل اُنہیں دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان بھی ابھرتی ہوئی اور نئی پنپی ہوئی طاقتوں کے جِلَو میں واقع ہے۔ ایسے میں ہمارے فیصلے کی بہت اہمیت ہے۔ ہم روس سمیت وسط ایشیا کے لیے دروازے کا درجہ رکھتے ہیں۔ چین کے لیے بھی ہم بہت اہم ہیں۔ بھارتی قیادت بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اُس کے لیے سٹریٹجک معاملات میں مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ اُسے بہت جلد فیصلہ کرنا پڑے گا کہ امریکا و یورپ کے ساتھ رہنا ہے یا پھر چین اور روس کا ساتھ دے کر اپنے لیے ایشیائی صدی میں کچھ زیادہ یقینی بنانا ہے۔
پاکستان کی ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کے بیشتر معاملات اب تک امریکا اور یورپ میں الجھے ہوئے ہیں۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت اب تک امریکا اور یورپ سے مرعوب بھی ہے اور اپنے اثاثے بھی اُنہی کے ہاں رکھتی ہے۔ پاکستان سے کرپشن کا پیسہ مغرب میں کھپایا جاتا ہے۔ دبئی میں بھی اچھا خاصا مال لگا ہوا ہے اور کون نہیں جانتا کہ دبئی تو مغرب کا آغوش نشیں ہے۔ پاکستانی اشرافیہ کے اثاثوں کا غالب حصہ امریکا‘ کینیڈ اور یورپ میں ہے۔ ایسے میں یہ توقع عبث ہے کہ مغرب سے بہت تیزی سے دامن چھڑایا جاسکے گا۔
پاکستان کو راہ بدلنے کی ضرورت ہے مگر یہ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری قیادت کوئی فیصلہ کرے گی اور راہ تبدیل ہو جائے گی۔وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں روس کا دورہ کیا تھا۔ اُس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ بظاہر امریکا اور یورپ ہی کے اشاروں پر ہمارے ہاں سیاسی قائدین حکومت کے خلاف متحرک ہوئے ہیں۔ دنیا کی حالت دیکھتے ہوئے عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ وقت حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے تحریک چلانے سے کہیں زیادہ اُس کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ہے تاکہ ملک کساد بازاری‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور افلاس کی دلدل سے نکل سکے۔
پاکستان کے لیے وقت بہت نازک ہے۔ ہمیں کئی فیصلے کرنے ہیں اور فوری کرنے ہیں۔ اب ابہام کی گنجائش ہے نہ تاخیر کی۔ امریکا اور یورپ ہمارے بیشتر معاملات میں اب تک دخیل ہیں اور اُنہیں یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اُنہیں ناراض کرنے کی بھی گنجائش ہے نہ ضرورت۔ یہی تو قیادت کا امتحان ہوتا ہے کہ ناپسندیدہ فیصلے بھی اس طور کرے کہ نقصان کم سے کم ہو۔ہم کسی بھی فریق کو ناراض نہیں کرسکتے۔ چین اچھی طرح جانتا ہے کہ ہم امریکا اور یورپ سے پیچھا چھڑانے کے لیے کچھ وقت چاہتے ہیں۔ سٹریٹجک معاملات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بھارت بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ پاکستان کے لیے کوئی بھی فیصلہ آسان نہیں‘ مگر یہی مسئلہ بھارت کا بھی تو ہے۔ اُسے بھی کئی فیصلے کرنے ہیں اور کوئی بھی فیصلہ اُس کے لیے بھی آسان نہیں۔ راہ بدلنے کی پاکستانی کوششوں کا انجام بھارت کی نظر میں ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اب تک امریکا اور یورپ کے تلوے چاٹنے میں مصروف ہے۔ ٹھیک ہے مگر یہ سب کچھ کب تک چلے گا؟ کیا بھارت ایسی حالت میں کچھ کرسکتا ہے کہ جب پورا خطہ کچھ اور ہو اور وہ کچھ اور؟ اگر چین‘ روس‘ پاکستان‘ ایران‘ ترکی اور ملائیشیا وغیرہ مل کر ایک نیا بلاک تشکیل دیتے ہیں تو بھارت کہاں کھڑا ہوگا؟ کیا وہ تب بھی مغرب ہی کے تلوے چاٹتا رہے گا؟
صورتِ حال اتنی نازک ہے کہ معاملات تصادم کی طرف بھی جاسکتے ہیں۔ امریکا اور یورپ تو چاہیں گے کہ اس مرحلے پر ایشیا کے قلب میں کوئی بحران پیدا ہو جائے اور بحران بھی ایسا کہ جانی و مالی نقصان انتہا کا ہو۔ روس نے یوکرین پر لشکر کشی کرکے مغرب کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب اُس کی مرضی نہیں چلے گی۔ معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کی مشرقی یورپ کی سمت توسیع کی راہ میں روس سب سے بڑی دیوار بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔ روس نے وہی کیا ہے جو اُسے اپنے اور خطے کے لیے بہتر محسوس ہوا ہے۔ امریکا اور یورپ بھی تو یہی کرتے آئے ہیں۔ وہ تو دور افتادہ خطوں میں بھی مداخلت کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ امریکا آج بھی اُس ہزیمت کو روتا ہے جس کا سامنا اُسے ویتنام میں کرنا پڑا تھا۔ سوال یہ ہے کہ وہ ویتنام میں کیا کر رہا تھا۔ اور افغانستان کب امریکا کے لیے خطرہ تھا یا ہے؟
پاکستان کے لیے نادر موقع ہے کہ سٹریٹجک معاملات میں امریکا سے اپنی جتنی باتیں منوا سکتا ہے‘ منوائے۔ یہ وقت متوازن پالیسیاں مرتب کرنے اور بڑی طاقتوں سے ڈیلنگ میں قومی مفادات کو سرِ فہرست رکھنے کا ہے۔ دنیا نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ ایسے مواقع عشروں اور کبھی کبھی تو صدیوں کے بعد آتے ہیں۔ راہ بدلنے کے معاملے میں پاکستانی قیادت کو صورتِ حال کی نزاکت سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے مگر اس کے لیے نجی یا ذاتی مفادات کو بالائے طاقت رکھنا لازم ہے۔