"MIK" (space) message & send to 7575

جو پڑھتا ہے‘ وہ بڑھتا ہے

معاشرے بہت سے عوامل کے نتائج سے عبارت ہوتے ہیں۔ بہت سے عوامل ملتے ہیں تو بات بنتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں حقیقی ترقی و خوشحالی یقینی بنانے والے عوامل گنتے جائیے‘ آپ تھک جائیں گے، عوامل ختم نہیں ہوں گے۔ بعض عوامل ہماری زندگی میں خواہ مخواہ ہوتے ہیں۔ اُن کے ہونے‘ نہ ہونے سے ہماری زندگی پر کوئی بھی اچھا یا بُرا اثر مرتب نہیں ہوتا۔ بعض عوامل کا معاملہ کبھی کبھار کا ہوتا ہے یعنی جب ضرورت محسوس ہو اُن پر توجہ دیجیے اور جب یہ محسوس ہو کہ زیادہ ضرورت نہیں رہی تب اُن سے کنارہ کرلیجیے۔ جن معاملات اور عوامل کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اُن میں شخصی ارتقا ناگزیر حیثیت کا حامل ہے۔
شخصی ارتقا یعنی اپنی شخصیت کی تعمیر و ترقی۔ اس میں تطہیر و تہذیب بھی شامل ہے۔ ہر انسان میں بہت سی خامیاں اور کمزوریاں مزاجاً یا فطرتاً ہوتی ہیں۔ اُنہیں دور کرنے پر توجہ دینا بھی لازم ہے مگر ماحول سے جو کچھ ملتا ہے اُس کے منفی پہلوؤں سے جان چھڑانا زیادہ اہم ہے۔ ماحول ہماری سوچ پر اثر انداز ہوتا ہے اور ہمارے جوش و جذبے کو ٹھکانے لگانے پر بھی تلا رہتا ہے۔ اگر ہم خود کو حالات کے دھارے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں تو خدا جانے کہاں سے کہاں جا نکلیں۔ حالات کے دھارے پر بہتے رہنا بیشتر اوقات خاصا احمقانہ سودا ثابت ہوتا ہے۔ زندگی سر بسر شعور کا سودا ہے۔ ہم سنجیدہ ہوئے بغیر اور شعور کو بروئے کار لائے بغیر ڈھنگ سے جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ شخصی ارتقا ہر انسان کا لازمی معاملہ ہے۔ کسی کو ترکے میں کروڑوں‘ اربوں روپے ملے ہوں تب بھی شخصی ارتقا کے منطقی مراحل سے گزرے بغیر وہ اپنے وجود کا معیار بلند نہیں کرسکتا۔ شخصی ارتقا کے کئی مراحل ہیں۔ انسان اپنے وجود کا معیار بلند کرنے کے لیے بہت کچھ کرتا ہے۔ یہ جو ''بہت کچھ‘‘ ہے اِس میں مطالعہ سب سے بڑھ کر ہے۔ مطالعہ ہی انسان کو وہاں تک لے جاتا ہے جہاں تک جانے کے خواب دیکھے جاتے ہیں۔ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کا تجزیہ کرنے بیٹھیے تو اندازہ ہوگا کہ جتنی بھی ترقی ہوئی اور جتنی بھی خوشحالی ممکن بنائی گئی اُس کی پشت پر اگر کچھ ہے تو صرف مطالعہ اور علم دوستی ہے۔ علم سے دوستی کیے بغیر زندگی کو اپنائیت کے ساتھ قبول کرنے کی راہ ہموار ہو ہی نہیں سکتی۔
کسی بھی انسان کے لیے حقیقی ارتقا کی راہ اُسی وقت ہموار ہوتی ہے جب اُس میں مطالعے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ مطالعے کا محض شوق کافی نہیں، ذوق کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے یعنی دیکھنا پڑھتا ہے کہ کیا پڑھنا چاہیے۔ بہت سے لوگ بہت پڑھتے ہیں مگر اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ زندگی کا معیار صرف معیاری مطالعے سے بلند ہوتا ہے۔ غیر متعلق، پست معیار اور فضول مواد پڑھنے سے فکری ساخت کو ذرا بھی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ کبھی کبھی تو نقصان پہنچتا ہے۔ مطالعے کی عادت انسان کو عمومی سطح سے بلند کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ وسیع اور معیاری مطالعہ ہی انسان میں وہ بالغ نظری پیدا کرتا ہے جو زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے درکار ہوا کرتی ہے۔ مطالعے ہی سے عام آدمی اپنا معیار بلند کرتے کرتے دوسروں کی قیادت کے قابل ہو پاتا ہے۔ حقیقی قائدانہ کردار ادا کرنے والا ہر انسان مطالعے کا عادی ملے گا۔ ریاست کو چلانے کی مہارت (سٹیٹس مین شپ) کے حامل افراد میں مطالعے کی عادت ناگزیر طور پر ملے گی۔ ریاستی امور سے جڑا ہوا ہر شخص حالات پر نظر رکھنے کا عادی ملے گا۔ حالات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانے بغیر اُنہیں درست کرنے یا اُن سے مطابقت رکھنے والے اقدامات ممکن نہیں بنائے جاسکتے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ ہمارے ہاں بیشتر سیاست دان مطالعے کے عادی نہیں۔ اور اس کا نتیجہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ وسیع اور معیاری مطالعہ ہی انسان میں وہ بالغ نظری پیدا کرتا ہے جو کسی بھی قائد کو ریاست کے اُمور ڈھنگ سے چلانے میں مدد دیا کرتی ہے۔
ہر دور کے انسان کو دوسروں سے بلند تر کرنے میں کلیدی کردار ماحول سے مطابقت کے ساتھ ساتھ ذہن کی وسعت نے ادا کیا۔ ذہن کی وسعت مطالعے اور مشاہدے کے بغیر ممکن نہیں۔ گزرے ہوئے زمانوں میں جب کسی چیز کو طبع کرکے بڑے پیمانے پر تقسیم کرنا ممکن نہ تھا تب مشاہدے کی بھی اہمیت تھی اور بالمشافہ ملاقات بھی ذہن کو وسیع کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی تھی۔ یہ مطالعے ہی کے طریقے تھے۔ جب کتابوں کے ذریعے مطالعہ ممکن نہ تھا تب لوگ بالمشافہ ملاقاتوں کے ذریعے گفتگو کی صورت میں دوسروں سے بہت کچھ سیکھا کرتے تھے۔ کسی زمانے میں داستان گوئی عام تھی۔ داستان گو بھرے مجمع کو دنیا بھر کی رسوم، روایات اور تہذیب و ثقافت کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔ یہ سب کچھ افسانے یا داستان کے کرداروں کی زبانی یا دہوا کرتا تھا۔ تب کسی کو زیادہ سیکھنا ہوتا تو وہ تقریریں یا داستانیں سُن کر یا پھر ملاقاتوں کی شکل میں معلومات حاصل کیا کرتا تھا۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ مطالعے کی بھرپور سہولت میسر ہے۔ ہم کم و بیش ڈھائی ہزار سال کی دانش سے جب چاہیں مستفیض ہوسکتے ہیں۔ کتاب پڑھنا بھی ممکن ہے اور سننا بھی۔ آئی ٹی کے شعبے میں غیر معمولی پیشرفت نے مختلف آلات کی مدد سے مطالعہ بہت آسان کردیا ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی شائع ہونے والی کوئی بھی کتاب آسانی سے پڑھنے کو مل جاتی ہے اور کم و بیش مفت۔ فی زمانہ مطالعہ جتنا آسان ہے اُتنا ہی اس کا رجحان کم اور مشکل ہے۔ مشکل اس لیے کہ بہت سے لوگ انتخاب کے مرحلے میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ بہت سوں کا مطالعہ سرسری نوعیت کا ہے یعنی کتابوں کو صرف الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں، چند ایک پیرا گراف پڑھتے ہیں اور پھر کتاب ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ اِس عمل کو مطالعہ سمجھ کر دل بہلانے کا چلن عام ہے۔
اکثریت کا یہ حال ہے کہ مطالعے کو کسی بھی درجے میں اہم نہیں گردانا جاتا۔ شدید بے ذہنی و بے علمی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا طریق اِس طور رواج پاچکا ہے کہ اب ہماری نفسی ساخت کا حصہ ہے۔ عام شخص کا یہ حال ہے کہ مطالعے کا کہا جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ مشورہ دینے والا اول درجے کا گھامڑ ہے اور یہ مشورہ تمسخر اڑانے کی نیت سے دے رہا ہے۔ خدا کی بخشی ہوئی آنکھیں اگر ڈھنگ سے کام کر رہی ہوں تو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ دنیا بھر میں وہی لوگ کامیاب رہتے ہیں جو اپنے آپ کو بھرپور مطالعے کے ذریعے اَپ ڈیٹ رکھتے ہیں۔ مطالعہ ہی تو انسان کو درست فیصلے کرنے کی پوزیشن میں لاتا ہے۔ مطالعہ ہی بتاتا ہے کہ کس میں کتنا دَم ہے، کون کتنے پانی میں ہے۔ ہم جس زمانے اور کلچر میں جی رہے ہیں وہ مختلف چیزوں سے عبارت ہے۔ ہر معاملے میں اپٹ ڈیٹ رہنا آج کی بہت بڑی اور بنیادی ضرورت ہے۔ جسے کچھ بننا ہو، کچھ کر دکھانا ہو اُس کے لیے ناگزیر ہے کہ زیادہ سے زیادہ پڑھے، اپنے آپ کو اپ ڈیٹڈ رکھے۔ قائدین کے لیے اپ ڈیٹ رہنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ کسی بھی شعبے سے وابستہ افراد کے لیے اپ ڈیٹ ہونا ناگزیر ہے۔ قائدین کے لیے تو یہ ناگزیر ہے کیونکہ اُنہیں بہت سے اُمور کو دیکھنا ہوتا ہے۔ مطالعے کے بغیر وہ خود کو اپ ڈیٹ نہیں رکھ سکتے۔ دنیا بھر میں ہر شعبے کے قائدین پڑھتے رہنے کی صورت میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر پاتے ہیں، آگے بڑھ پاتے ہیں۔
ہر عہد میں ایک بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ جب مطالعہ کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے ٹھیک اُسی وقت اُسے سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ آج پاکستان میں عام آدمی کو مطالعے کی طرف بلائیے تو وہ کہے گا اِس میں کیا رکھا ہے؟ کسی کا فرمان ہوگا کہ دو وقت کی روٹی کمانے سے رخصت ملے تو کچھ پڑھا جائے۔ اب یہ بات کون سمجھائے کہ مطالعے ہی سے زندگی کا معیار اِس قدر بلند ہو پاتا ہے کہ انسان دو وقت کی روٹی کی منزل کو بہت پیچھے چھوڑ پاتا ہے۔ نئی نسل کو یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا ہے کہ وہ صرف مطالعے (اور اُس کے نتیجے میں یقینی بنائی جانے والی اپ ڈیٹ) ہی سے آگے بڑھ سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں