"MIK" (space) message & send to 7575

یہ ریلا کہاں لے جائے گا؟

سیاسی شعور کے اعتبار سے قوم کہاں کھڑی ہے؟ یہ سوال ہر اُس شخص کو پریشان کر رہا ہے جو اس ملک کے لیے سوچ سوچ کر پریشان ہوتا رہتا ہے۔ اس وقت ہم سیاسی اعتبار سے انتہائی پریشان کن کیفیت سے دوچار ہیں۔ انتہائی نوعیت کی ذہنیت ہماری فکری ساخت کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ لوگ سیاست کے نام پر نفرت کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اہلِ وطن یہ تماشا محض دیکھ نہیں رہے بلکہ دھیرے دھیرے اس کا حصہ بھی بنتے جا رہے ہیں۔ تین چار ماہ سے ملک میں جس طرز کا سیاسی ماحول پنپ رہا ہے‘ وہ ہمارے قومی وجود کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ سوال صرف معاشرتی سلامتی کا نہیں‘ سالمیت کا بھی ہے۔ معاشروں میں بگاڑ پیدا ہو تو اُسے کسی نہ کسی طور دور کیا جاسکتا ہے‘ اگر معاشروں کا وجود ہی داؤ پر لگ جائے تو...؟ یہاں ایسی ہی کیفیت پیدا ہوچلی ہے۔
کسی بھی سیاسی کارکن کے لیے اپنے لیڈر سے محبت ایک انتہائی فطری امر ہے۔ لیڈر کی باتوں پر عمل کرکے ہی وہ اپنے دل و دماغ کی تشفی کر پاتا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا جو بھی نظریہ ہو‘ اُس کے مطابق جینا ہر متعلقہ کارکن کا حق ہے۔ لیڈر کو بھی اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ کارکنوں کے ذہنوں میں نظریاتی اساس کے حوالے سے کوئی ابہام، کوئی گرہ باقی نہ رہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ اول تو بیشتر سیاسی کارکنوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اُن کی پارٹی کا نظریہ اور منشور ہے کیا۔ اور اگر کچھ معلوم ہو بھی جائے تو اُس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ معاملات نعروں سے شروع ہوکر نعروں ہی پر ختم ہوتے ہیں۔ محض جذباتیت کو سیاسی شعور سمجھ لیا گیا ہے۔ بات بات پر بھڑک اٹھنا اور بدک جانا اب سیاسی شعور کی نمایاں علامت بن گیا ہے۔ لوگ اپنی جماعت اور اپنے لیڈر کی حمایت میں حد سے گزرنے کو کسی بھی درجے میں برا نہیں سمجھتے۔ اگر کوئی سمجھانے کی کوشش کرے تو سامنے سے دلائل کا انبار لگادیا جاتا ہے۔ جب معاشروں میں عمومی شعور کی سطح انتہائی پست ہو جاتی ہے تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ کسی بھی معاملے میں حقیقی غور و فکر کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اہم ترین معاملات میں بھی صرف سرسری سے جائزے سے کام چلایا جاتا ہے۔ فی زمانہ پاکستانی معاشرے میں یہی ہو رہا ہے۔ جن معاملات کا ہماری زندگی سے بنیادی تعلق ہے‘ اُن کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی اور ہر غیر متعلق معاملہ ہمارے فکری وجود کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ لوگ گزرے ہوئے زمانوں سے کوئی سبق سیکھتے ہیں نہ آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچنے پر مائل ہوتے ہیں۔
یہ لاپروائی اور بے ذہنی کیوں ہے؟ سیدھی سی بات ہے، لوگ اب کسی بھی معاملے میں سنجیدہ ہونے سے کتراتے ہیں۔ سنجیدہ ہونے کا مطلب ہے کسی بھی معاملے میں غور و خوض کے مرحلے سے گزرنا۔ یہ مرحلہ سخت دشوار گزار ہے، جاں گُسل ہے۔ لوگ سوچے اور سمجھے بغیر جینے کے عادی ہوچکے ہیں۔ بیشتر معاملات میں عمومی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جیسے تیسے معاملات کو نمٹاتے ہوئے زندگی بسر کرلی جائے۔ یہ اب پورے معاشرے کی عمومی روش ہے کہ کسی بھی بات کو سنجیدگی سے نہیں لینا اور سوچے سمجھے بغیر جیے جانا ہے۔ سیاست میں یہ معاملہ اپنی انتہا کو چھوتا دکھائی دے رہا ہے۔ قومی سیاست میں بحرانی کیفیت تو پہلے بھی کئی بار وارد ہوئی ہے۔ لوگ جذبات اور جذباتیت کے دھاروں میں بہتے رہے ہیں۔ سیاسی معاملات میں ایسا ہو جاتا ہے مگر سیاسی کارکن اپنے اپنے لیڈر کی خوشنودی کے لیے وہ سب کچھ نہیں کرتے تھے‘ جو اب کیا جارہا ہے۔ لیڈر بھی انسان ہی ہوتا ہے، فرشتہ نہیں ہوتا‘ اُسے انسان ہی سمجھنا چاہیے۔ انسان غلطی بھی کرتا ہے۔ لیڈر سے بھی غلطی ہوسکتی اور ہوتی ہے بلکہ لیڈر کی غلطی کے نتائج زیادہ سنگین ہوتے ہیں۔ ہر دور کے سیاسی کارکن اس حقیقت سے آشنا رہے ہیں کہ لیڈر کا احترام کرنا ہے، اُسے سر آنکھوں پر بٹھانا ہے مگر اُس کی پوجا نہیں کرنی۔ لیڈر اس لیے نہیں ہوتا کہ اُسے دیوتا بنایا جائے بلکہ اُس کا کام لوگوں کو راستہ دکھانا ہوتا ہے۔ جب لوگوں کی سمجھ میں کچھ نہ آرہا ہو تب لیڈر آگے بڑھتا ہے اور ایک ہی جست میں سب کو لے کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔ ہر عبقری (جینئس) کا یہی معاملہ ہوتا ہے۔ وہی لیڈر ایسا کرسکتا ہے جو عبقری ہو۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ ہمارے آج کے لیڈرز میں کتنے ہیں جو، بلا خوفِ تردید، عبقری قرار دیے جاسکتے ہیں۔
چند ماہ کے دوران ملک بھر میں سیاست کے نام پر محض اکھاڑ پچھاڑ، کھوکھلی نعرے بازی، جلسہ بازی اور بڑھک بازی کا کلچر پروان چڑھا ہے۔ تمام معاملات اقتدار کے حصول اور اُسے بچانے تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ قدم قدم پر تضادات ہیں۔ جن سیاسی لیڈرز کے پیچھے لوگ چل رہے ہیں اُن کے اپنے قول و فعل میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ آج وہ کچھ کہتے ہیں اور کل کچھ اور۔ اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ اُن کے قول و فعل کا تضاد کس طرح کے نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ لوگ اپنے اپنے لیڈر کی محبت میں ایسے اندھے ہوچکے ہیں کہ کچھ بھی دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ جب دیکھنے ہی پر کوئی مائل نہیں ہو رہا تو سوچنے پر کیسے مائل ہوگا؟ سوشل میڈیا نے اپنا اصلی رنگ اب دکھانا شروع کیا ہے۔ ساری لڑائی اِسی محاذ پر لڑی جارہی ہے۔ جو جتنی بڑی بڑھک مار سکتا ہے وہ اُتنا ہی مقبول ہے۔ سارا زور hits اور likes پر ہے۔ سیاسی کارکن ایک دوسرے کو سوشل میڈیا کے ذریعے نشانہ بنانے کی دُھن میں کہیں سے کہیں نکل چکے ہیں اور واپس آنے کو بھی تیار نہیں۔ کوشش صرف یہ ہے کہ اپنی بات ہر حال میں منوائی جائے، چاہے غلط ہی ہو۔ یہ ضد، یہ ہٹ دھرمی پورے معاشرے کو دیوار سے لگارہی ہے۔ معاشرے کی جڑیں کمزور پڑتی جارہی ہیں۔ جذباتیت کے ریلے میں بہنے والوں کو یہ اندازہ بھی نہیں کہ وہ کس طرف جا نکلیں گے اور یہ کہ واپسی ممکن بھی ہوگی یا نہیں۔
وقت کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ بیرونی دشمن ہیں کہ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ انتہائی سنجیدہ ہوکر ملک کے بارے میں سوچا جائے۔ سوال صرف سلامتی کا نہیں‘ سالمیت کا بھی ہے۔ جب سالمیت ہی داؤ پر لگتی محسوس ہوتی ہو تب تو سنجیدہ ہونا بنتا ہی ہے۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم خوابِ غفلت سے جاگنے کو تیار نہیں۔ اہلِ سیاست نے اب جذباتیت کو سب کچھ قرار دینے کا کھیل شروع کیا ہے۔ کارکنوں کو قابو میں رکھنے پر برائے نام توجہ بھی نہیں دی جارہی۔ سارا زور اِس بات پر ہے کہ کسی نہ کسی طور فریقِ ثانی کو بات بات پر نشانہ بنایا جائے، ذلیل کیا جائے، اس کا تمسخر اڑایا جائے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب اخلاقی اقدار کو خیرباد کہہ دیا جاتا ہے۔ اس وقت یہی کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پورٹلز پر جاری لڑائی نے متعلقین کو تمام اخلاقی حدود و قیود سے بیگانہ ہو رہنے کی روش اپنانے اکسایا ہے۔ جب یہ طے کرلیا جائے کہ فریقِ ثانی کو کسی نہ کسی طور نشانے پر رکھنا ہے اور ذرا سی بھی عار محسوس نہیں کرنی تو پھر رہ کیا جاتا ہے؟ ایسے میں معاشرے کا تلپٹ ہو جانا کسی بھی لمحے کی بات ہے۔ اس وقت ہمارا معاشرہ جس طرح کے دھاروں کے رحم و کرم پر ہے وہ اُسے کہاں لے جائیں گے‘ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ ایسے معاملات میں صرف تباہی مقدر بنتی ہے۔ سراسر بے بنیاد نوعیت کی جذباتیت سے معاشرے داؤ پر لگ جاتے ہیں اور پھر ایسی پستی میں گرتے ہیں کہ ابھرنا ممکن نہیں رہتا۔
یہ وقت محض تماشا دیکھنے اور اُس سے محظوظ ہونے کا نہیں۔ خود سیاسی قائدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے اپنے پرستاروں اور معتقدین کو اخلاقی حدود و قیود کا خیال رکھنے کا پابند کریں۔ ہمارے لیے بیرونی دشمن ہی کافی ہیں‘سو اندرونی سطح پر دشمنی کا گراف بلند کرنے سے گریز کیا جائے۔ معیشت ڈانواں ڈول ہے‘ معاشرت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ یہ وقت سیاسی جذبایت کے نام پر سب کچھ لٹا دینے کا نہیں بلکہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ملک و قوم کے لیے فکر مند ہو نے کا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں