"MIK" (space) message & send to 7575

ہر کسی سے جڑے رہنے کا جنون

آج کے انسان کے مسائل انوکھے ہیں۔ جب ہر چیز انوکھی ہے تو مسائل بھلا کیوں پیچھے رہیں؟ ہر انسان کی زندگی میں طرح طرح کی پیچیدگیاں ہیں۔ ذہن بُری طرح الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں بہت سے معاملات سرسری طور پر دیکھنے سے تو سمجھ ہی نہیں آتے۔ غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز جیسی دکھائی دیتی ہے‘ ویسی ہے نہیں، کچھ اور ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ آج کے انسان کو ہر وقت یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ باقی دنیا سے ہر وقت جڑ کر رہا جائے۔ میڈیا کے شعبے میں حیرت انگیز ترقی نے کسی سے بھی رابطہ کرنا اِتنا آسان کردیا ہے کہ کبھی کبھی تو یقین ہی نہیں آتا کیونکہ ڈھائی تین عشرے قبل صورتِ حال انتہائی پریشان کن تھی۔ اور اُس سے ایک ڈیڑھ عشرہ پہلے کا سوچیے تو یقین ہی نہیں آتا کہ ہم اُن ادوار میں بھی زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ خیر‘ آج ایک بڑا مسئلہ بلکہ فتنہ یہ ہے کہ انسان اپنے تمام بنیادی مسائل بھول بھال کر صرف اس فکر میں غلطاں رہنے لگا ہے کہ کس طور زیادہ سے زیادہ لوگوں سے جڑ کر رہا جائے، اُن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کی جائیں اور اپنے بارے میں دنیا کو زیادہ سے زیادہ بتایا جائے۔
کیا یہ ضروری ہے؟ کیا ساری دنیا کے بارے میں جاننا لازم ہے؟ اور کیا ساری دنیا کو اپنے بارے میں بتائے بغیر کام نہیں چل سکتا؟ نہ تو پوری دنیا کے بارے میں سب کچھ جاننا ضروری ہے اور نہ ہی دنیا کو اس بات سے کچھ خاص غرض ہے کہ آپ کون ہیں اور کیا سوچتے ہیں۔ بات اتنی سی ہے کہ دوسروں کے بارے میں بہت زیادہ جاننے اور اپنے بارے میں سب کو بہت کچھ بتانے کا ایک ہَوکا سا ہے۔ اس دوڑ میں سبھی ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کے درپے ہیں۔ جب کوئی شخص بہت کچھ جاننا چاہتا ہے تو اپنے وجود کو غیر متعلق باتوں کی دلدل میں گرانے لگتا ہے۔ یہ عمل تواتر سے جاری رہے تو زندگی کا کوئی مصرف باقی نہیں رہتا۔ یہ مسئلہ صرف ہمارے معاشرے کا نہیں۔ آج دنیا بھر میں کروڑوں بلکہ اربوں افراد شدید ذہنی الجھنوں سے دوچار ہیں۔ وہ ایسا بہت کچھ سوچ رہے ہیں جو انہیں بالکل نہیں سوچنا چاہیے اور وہ ایسا بہت کچھ کر رہے ہیں جس کے کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ مین سٹریم اور سوشل میڈیا کی مہربانی سے لوگ ہر اُس معاملے میں دلچسپی لے رہے ہیں جس کا اُن کی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو اور دوسری طرف ایسے بہت سے معاملات ایک طرف کھڑے رہ جاتے ہیں جو زندگی کا حصہ ہیں اور جنہیں نظر انداز کرنے سے زندگی کا معیار گرتا ہے۔
زندگی بہت کچھ مانگتی ہے۔ ہم صرف اس لیے تو روئے ارض پر نہیں ہیں کہ محض سانسوں کی گنتی پوری کریں اپنے حصے کا وقت ختم ہونے پر چل دیں۔ ہماری زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد تو ضرور ہوگا۔ اور ہوگا کیا‘ یقینا ہے۔ جس نے ہمیں خلق کیا ہے وہ رب ہم سے بہت کچھ چاہتا ہے۔ اُس کی منشا ہے کہ ہم اُس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریں اور جزا پائیں۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ معقولیت کے دائرے میں لائیں، غیر متعلق معاملات سے چھٹکارا پائیں اور جو کچھ بھی کریں وہ پورے ہوش و حواس کے ساتھ دلجمعی اور دیانت سے کریں۔ آج کم و بیش ہر انسان کو وقت کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ یہ قلت بھی انسان کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ بہت سے معاملات میں ہم اپنے آپ کو خواہ مخواہ الجھائے ہوئے ہیں۔ وقت سب کو برابر مقدار میں ملتا ہے۔ جو لوگ منظم زندگی بسر کرتے ہیں وہ کسی بھی ضروری معاملے کے لیے وقت مختص کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ جو لوگ وقت کے معاملے میں لاپروا ہوتے ہیں وہ ضروری امور کے لیے خاطر خواہ حد تک وقت نکال نہیں پاتے اور یوں زندگی میں عدم توازن در آتا ہے۔ ہر وقت دوسروں سے جڑے رہنے کا ہَوکا انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ آج ہمارے معاشرے میں ایسے افراد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہیں جو ڈیسک ٹاپ، لیپ ٹاپ اور سمارٹ فون کے ذریعے ہر وقت آن لائن رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ آپ کو رات کے تین بجے بھی‘ کہ جب دنیا خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی ہے‘ فیس بک اور وٹس ایپ پر موجود و متحرک ملیں گے۔ اگر رابطہ کیجیے تو فوری جواب بھی ملے گا۔ یہ انتہا ہے! اس انتہائی رویے نے ہماری اجتماعی زندگی کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔
نئی نسل اس معاملے میں بہت زیادہ مشغول معلوم ہوتی ہے۔ نئی نسل کے پاس جوش و خروش تو ہوتا ہے، پختہ فکر نہیں ہوتی۔ کچی سوچ کے ساتھ کچھ بھی کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کی لت نے نئی نسل کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ خاصا باریک کام کرتے ہوئے سوشل میڈیا نے ہر انسان کو یہ یقین دلادیا ہے کہ وہ اپنی جگہ بہت اہم ہے اور اِس دنیا کے لیے اُس کا وجود غیر معمولی حیثیت کا حامل ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ہر انسان کی اپنی ایک حیثیت ہوتی ہے اور اُسے اس حیثیت کا احساس بھی ہونا چاہیے مگر یہ کیا کہ انسان اپنے آپ کو اَپ ڈیٹ کرے نہ اَپ گریڈ اور یہ سوچنے لگے کہ اُس کا وجود دنیا کے لیے بہت کام کا ہے۔ ہم دنیا کے لیے اُسی وقت کام کے ثابت ہوسکتے ہیں جب ہم یہ طے کریں کہ اِس دنیا سے بہت کچھ لینا ہے اور اُس کے بدلے بہت کچھ دینا ہے۔ آج بیشتر افراد بالعموم اور نئی نسل بالخصوص سوشل میڈیا کی دیوانی ہوکر اپنے آپ کو حقیقی اور مکمل ضیاع کی طرف لے جارہی ہے تو اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اُس کی ذہنی یا فکری ساخت میں یہ بات کیل کی طرح ٹھونک دی گئی ہے کہ اگر اُس نے اپنے آپ کو معاشرے یا دنیا سے مربوط نہ رکھا تو زندگی میں کوئی بھی بڑی کمی رہ جائے گی۔ میڈیا پر ایسا بہت کچھ پیش کیا جاتا ہے جو عمومی سطح پر ہر انسان اور خصوصی سطح پر نئی نسل کی برین واشنگ کرتا ہے اور اُسے یقین دلاتا رہا ہے کہ اگر اُسے بامقصد زندگی بسر کرنا ہے تو سب کے ساتھ ہر وقت جڑ کر رہنا پڑے گا۔ سب کے ساتھ بیشتر وقت جڑے رہنے کی بیماری نے اب انتہائی خطرناک شکل اختیار کرلی ہے۔ لوگ نیند بھی پوری نہیں کرتے۔ بیداری کی حالت میں بھی انسان کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے مگر لوگ اس کی بھی پروا نہیں کرتے۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ جیسے بھی ہوسکے‘ بہت کچھ جان لیا جائے اور دوسروں کو بہت کچھ بتایا جائے۔
ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہے جو ہمیں جاننا چاہیے اور ہمارے پاس ایسا کیا ہے کہ دنیا کو اُس کے بارے میں معلوم ہونا ہی چاہیے۔ یہ صرف عادت، لت اور اُبال ہے۔ کچے ذہن خود کو بلیغ باور کرنے لگتے ہیں اور پھر اُن پر ایک جنون سا طاری ہو جاتا ہے کہ میڈیا فورمز کے ذریعے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور اپنی حیثیت منوائیں۔ اِس جنون ہی نے connectivity کی بمباری کو جنم دیا ہے۔ یہ ذہنی عارضہ آج بہت سے انسانوں کے پورے وجود کو کھا رہا ہے۔ ہر انسان کا اپنے وجود پر بھی اچھا خاصا حق ہوتا ہے۔ انسان کو اپنی صحت کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے تاکہ صلاحیت و سکت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی پوزیشن برقرار رہے۔ اگر ہر وقت دوسروں کے بارے میں ٹوہ لیتے رہنے کی بیماری لاحق ہو جائے تو انسان اپنے وجود کو معقول حد تک وقت اور توجہ نہیں دے پاتا۔ اِس کے نتیجے میں زندگی کا توازن بگڑتا ہے۔ صرف معاشی سرگرمیاں ہی متاثر نہیں ہوتیں بلکہ پورا کیریئر بھی داؤ پر لگ جاتا ہے اور سماجی معاملات بھی کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں۔ ہم پر ہمارے اہلِ خانہ، خاندان اور دوستوں کا بھی حق ہے۔ ورچوئل دنیا میں رہنے سے ہمارے معاملات کبھی درست نہیں ہوسکتے۔ ہمیں حقیقی دنیا میں رہتے ہوئے اپنے معاملات درست کرنے پر متوجہ ہونا ہے۔ زمینی حقیقتوں کو بدلا نہیں جاسکتا۔ اُن کے مطابق اپنا آپ بدلنا ہوتا ہے۔ ڈیجیٹلائزڈ یا ورچوئل دنیا میں ہر وقت دوسروں سے جڑے رہنے کو ہم نے اپنے ذہنوں پر خود سوار کیا ہے اور ہمیں ہی اِس سے کنارا بھی کرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں