ترقی و خوش حالی کو ممکن بنانا ہر قوم کے بس میں ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج دنیا میں ایک بھی قوم ترقی و خوش حالی سے ہم کنار نہ ہوتی۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بہت سی اقوام نے جہالت، افلاس اور پس ماندگی کے طویل ادوار گزارے ہیں۔ آج امریکا اور یورپ پوری دنیا کے لیے ترقی و خوش حالی کی روشن مثال بنے ہوئے ہیں مگر کیا ہم نہیں جانتے کہ چار‘ پانچ سو سال پہلے تک یہ دونوں خطے جہالت، بے نظمی، بے تہذیبی اور شدید افلاس و پس ماندگی کے نرغے میں تھے؟ تاریخ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ یورپ کے باشندوں نے جب دوسرے خطوں کو نوچنا اور لُوٹنا کھسوٹنا شروع کیا تب امریکا کی سرزمین پر مقامی باشندوں (ریڈ انڈینز) پر بھی انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ ان مظالم کا سلسلہ صدیوں جاری رہا اور انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں اُس وقت کے امریکی صدر ابراہم لنکن نے غلامی کے ادارے کو باضابطہ ختم کیا۔ خیر‘ دنیا کو تہذیب اور اخلاق کی تعلیم دینے والا امریکا یہ بھول بیٹھا ہے کہ 1960 کے عشرے تک اُس کے ہاں نسل پرستی انتہائی شکل میں پائی جاتی تھی۔ سیاہ فام امریکیوں کو بعض ریستورانوں اور دکانوں میں داخل ہونے سے بھی روک دیا جاتا تھا! حد یہ ہے کہ ایک ریستوران میں داخل ہونے سے روکے جانے پر عالمی شہرت یافتہ باکسر محمد علی نے (جو اُس وقت کیسس کلے جونیئر تھے) اپنا اولمپکس میڈل دریا میں پھینک دیا تھا!
یہ سب کچھ بیان کرنے سے مقصود دراصل یہ عرض کرنا ہے کہ جہالت اور پس ماندگی کو پچھاڑ کر ہی کوئی قوم آگے بڑھ سکتی اور دوسروں کے لیے مثال بن سکتی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال خطوں کا بھی ہے۔ یورپ بھی ایک ایسا ہی خطہ ہے۔ یورپ کے چھوٹے سے رقبے میں زبان، ثقافت اور تاریخ کا خاصا تنوع ملتا ہے۔ پھر بھی یورپی اقوام نے اپنی جہالت اور پس ماندگی کو پچھاڑ کر دنیا کے لیے مثال بننے میں کامیابی حاصل کی۔ جب مسلمان فتوحات کا بازار گرم کیے ہوئے تھے اور جدید ترین علوم و فنون کے حوالے سے دنیا کو بہت کچھ دے رہے تھے تب یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس تاریک دور میں یورپ بھر میں مذہب کے نام پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ پاپائیت کو للکارنے والوں کو جادوگر اور جادوگرنی قرار دے کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا۔ ظلم و جبر کا یہ بازار فطری علوم و فنون کی طرف جھکاؤ پیدا ہونے اور روش خیالی کا دور شروع ہونے تک گرم رہا۔ پھر یوں ہوا کہ مسلمان پے در پے فتوحات کے نتیجے میں ملنے والی آسانیوں کے ہاتھوں سہل انگاری کا شکار ہوگئے۔ تعیّشات اور تن آسانی نے اُنہیں ایسا دبوچا کہ وہ خود کو چھڑانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جب مغرب نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کچھ بن کر دنیا کو کچھ دینے کی ٹھانی تو قدرت نے اُن کا ہاتھ تھام لیا۔ اور بہت حد تک اب بھی تھام رکھا ہے۔ کامیاب وہی ہوا جس نے کچھ کرنے کا سوچا۔ کچھ کرنا اُسی وقت ممکن ہوسکا جب انسان نے ذہن کو بروئے کار لانے کا ارادہ کیا۔ ذہن کو متحرک کیے بغیر کبھی کچھ نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی قوم کی پس ماندگی میں ذہن سے کام نہ لیے جانے کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ کوئی بھی پس ماندہ قوم جب ذہن کو بنیاد بناکر کچھ کرنے کا ارادہ کرتی ہے تبھی کامیابی کی طرف بڑھتی ہے۔ دنیا کی ساری رونق اور چمک دمک ذہن ہی کے دم سے تو ہے۔ ذہن کا بیدار و متحرک رہنا کسی بھی قوم کے لیے حقیقی ترقی و خوش حالی کی ضمانت ہوا کرتا ہے۔
تین صدیوں کے دوران بارہا ثابت ہوا کہ جو کچھ بھی ہے‘ ذہن سے ہے۔ جسم کی مشقت اپنی جگہ اہم مگر ذہن کا احسن طریقے سے استعمال ہی کسی بھی قوم یا معاشرے کو حقیقی بلندی عطا کرتا ہے۔ ہر دور میں ذہن سے کام لینے والے زیادہ کامیاب پائے گئے۔ ڈھائی‘ تین ہزار سال قبل بھی اہلِ علم و فن ہی نمایاں رہتے تھے اور معاشرے میں حقیقی احترام کے لائق ٹھہرتے تھے۔ ہر عہد کے عام آدمی نے پوری شدت سے محسوس کیا کہ ذہن ہی کی مدد سے حقیقی ترقی و کامیابی ممکن بنائی جاسکتی ہے مگر پھر بھی جسمانی مشقت ہی کے بل پر زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی جاتی رہی۔
بات کچھ یوں ہے کہ ذہن کو بروئے کار لانا آسان کام نہیں۔ اس کے لیے ذہن کی تربیت کرنا پڑتی ہے۔ یہ تربیت خاصی محنت طلب، صبر آزما ہوتی ہے۔ ذہن کی سمت تبدیل کرنا آسان کام نہیں۔ اس کے لیے بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے اور دوسرا بہت کچھ اپنانا پڑتا ہے۔ فی زمانہ پس ماندہ ممالک کے پاس ترقی کرنے کا ایک متبادل راستہ موجود ہے۔ اس راستے پر چل کر بہت کچھ پایا جاسکتا ہے۔ یہ راستہ ہے ذہن کا۔ جو ممالک صنعتی عمل میں تیزی اور معیار کی بلندی ممکن نہیں بناسکتے‘ برآمدات کا دائرہ وسیع نہیں کرسکتے وہ ذہن کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔ چین کو فی زمانہ عالمگیر سطح پر مینوفیکچرنگ انجن کا درجہ حاصل ہے۔ لاگت کے اعتبار سے اس وقت کوئی بھی ملک چین سے مسابقت کا خطرہ مول لینے کی پوزیشن میں نہیں۔ جو چیز پاکستان جیسے ممالک میں دس روپے میں تیار ہو پاتی ہے وہی چیز چین سے درآمد کرنے پر بھی پانچ سے سات روپے میں پڑتی ہو تو کون ہے جو صنعتی عمل کی طرف جائے گا؟
ایشیا اور مشرقِ بعید کے بہت سے ممالک نے معیاری افرادی قوت برآمد کرکے کمانے کو ترجیح دی۔ اس معاملے میں بھارت جیسے ممالک نے زیادہ فوائد حاصل کیے کیونکہ اُس کے ہاں افرادی قوت اچھی خاصی تعداد میں میسر ہے۔ترقی یافتہ دنیا کو علم و فن کے حوالے سے ایسی افرادی قوت درکار ہے جو سستی بھی ہو اور کام کو تیزی سے سمجھ بھی لے۔ ایسے لوگ نالج ورکر کہلاتے ہیں۔ بھارت اس وقت نالج ورکرز فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ صرف ذہن‘ اور کیا؟ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں بھارت چین سمیت کسی بھی ملک سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ ذہن کا سہارا لیا جائے۔ اور یہی کیا گیا۔ بھارت نے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے ایک کروڑ سے زائد نالج ورکر دنیا بھر میں پھیلا رکھے ہیں۔ یہ ورک فورس بہت بڑے پیمانے پر ترسیلاتِ زر کا ذریعہ ہے۔ بھارت کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے میں بیرونِ ملک مقیم بھارتی (این آر آئیز) کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں نالج ورکر تیار کرکے معیاری افرادی قوت برآمد کے تصور کو اب تک پوری شدت سے محسوس نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے سوچنے کا رجحان برائے نام ہے اس لیے حکومت متعلقہ ادارے قائم کرکے دنیا بھر میں اعلیٰ درجے کی افرادی قوت برآمد کرنے سے بھی قاصر ہے۔
ذہانت کے معاملے میں پاکستان کی نئی نسل بھی کم نہیں۔ جوش و خروش بھی غیر معمولی ہے۔ ہاں! یہ سب کچھ فضول سرگرمیوں پر ضائع ہو رہا ہے۔ لازم ہے کہ حکومت اس حوالے سے سنجیدہ ہو۔ ایسے ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جن میں نئی نسل کو بیرونِ ملک نالج ورکر کے طور پر کام کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔ یہ عمل ملکی معیشت کے لیے غیر معمولی استحکام کا ذریعہ بھی ثابت ہوگا۔ اوریجنل رائٹنگ، ترجمہ، ایڈیٹنگ، پروف ریڈنگ، سوفٹ ویئر ڈیزائننگ، ویب سائٹ ایڈمنسٹریشن، ویب چینل ایڈمنسٹریشن، اخبارات و جرائد کے لیے مضمون نویسی، ایڈیٹنگ، کاپی سیٹنگ، ریڈیو، ٹی وی اور ویب چینلز کے لیے ہوسٹنگ اور دوسرے بہت سے کام ہیں جو نالج ورک کے ذیل میں آتے ہیں۔ بھارت نے خاصے منظم طریقے سے کام کیا ہے جس کے نتیجے میں آج دنیا بھر میں بھارتی نالج ورکرز پائے جاتے ہیں۔ پاکستانیوں کی صلاحیتوں سے بھی کوئی انکاری نہیں مگر ہاں! تھوڑا بہت فرق پڑتا ہے تو مزاج اور عادات سے۔ بیرونِ ملک کام کرنے والے افراد کے رویوں کے حوالے سے شکایات عام ہیں۔ اگر حکومت باضابطہ طریقے سے کام کرے تو ایسے نالج ورکرز تیار کرسکتی ہے جو بیرونِ ملک کام کے معاملے میں سنجیدہ ہوں۔ ذہین اور محنتی افراد کو اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ تیار کرکے دنیا بھر میں بھیجنا ایک خزانے کے مانند ہے۔ یہ خزانہ قدرت نے ہمیں عطا کر رکھا ہے، سوال صرف خزانے کو نکال کر بروئے کار لانے کا ہے۔