"MIK" (space) message & send to 7575

شاہ خرچی کا مایا جال

مہنگائی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے اور ہم ہیں کہ حالات کی لاکھ ستم ظریفی کے باوجود جیے چلے جارہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ عجیب ہی نوعیت کا واقع ہوا ہے۔ حسرتؔ موہانی نے کہا تھا ؎
ہے مشقِ سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
یہاں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے یعنی سب کچھ ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ لوگ نالہ و شیون کا طریق ترک نہیں کر رہے اور جن باتوں سے معاملات نالہ و شیون تک پہنچتے ہیں اُنہیں چھوڑنے پر بھی آمادہ نہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ رند کے رند رہیں اور جنت بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ پٹرول کے نرخ 210 روپے فی لیٹر تک پہنچ چکے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ جب بھی بڑھتے ہیں ایک شور سا اٹھتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے خاموشی چھا جاتی ہے۔ سر سید احمد خان نے ایک مضمون میں لکھا تھا: پانی خود اپنی پَنسال میں آجاتا ہے یعنی سطح برابر کر ہی لیتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی بھی یہی خصوصیت ہے۔ یہ بھی اب پَنسال سا ہوچکا ہے۔ بہت کچھ اچانک اُلٹ پلٹ جاتا ہے مگر پھر سب کسی نہ کسی طور تطبیق (ایڈجسٹمنٹ) کے مرحلے سے گزر ہی جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف ایک وصف کی بدولت ہو رہا ہے۔ یہ وصف ہے صَرف کے رجحان کا۔ دنیا بھر کے معاشروں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ہر معاشرے کی چند خصوصیات ہوتی ہیں۔ لوگ ایک خاص ڈھنگ اور ڈھب کے تحت جی رہے ہوتے ہیں۔ اپنے طریق سے ہٹنے کے لیے کم ہی لوگ تیار ہو پاتے ہیں۔ صَرف کا غیر معمولی رجحان ہر دور میں ہمارے معاشرے کی ایک نمایاں خصوصیت رہا ہے۔ ملک کے قیام کے ابتدائی دنوں کی بات کیجیے تو تب بھی لوگ آمدنی کا غالب حصہ صرف کرنے پر یقین رکھتے تھے اور آج بھی یہی حالت ہے۔ بچت کا رجحان یہاں برائے نام رہا ہے۔ لوگ بالعموم ''بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ والی ذہنیت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے عادی رہے ہیں۔ کھانے پینے سے پہننے اوڑھنے تک‘ کسی بھی معاملے کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ آج کی حد تک جینا چاہتے ہیں، کل کی کچھ خاص فکر لاحق نہیں۔ ذہنی یا فکری ساخت میں یہ بات اب پوری طرح ٹھنکی ہوئی ہے کہ جو کچھ ہے وہ آج ہے۔ لوگ گزرے ہوئے زمانوں کو یاد کرکے روتے ہیں مگر گزرے ہوئے ادوار سے کچھ سیکھ کر آنے والے زمانوں کو اپنے حق میں کرنے کے حوالے سے کچھ سوچتے ہیں نہ کرتے ہیں۔ شاہ خرچی کی ذہنیت میں صرف خرابیاں نہیں‘ کچھ اچھائیاں بھی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ خرابیاں بہت زیادہ ہیں۔ جب انسان صرف اور صرف خرچ کرتے رہنے کا مزاج اپنالے تو زندگی میں شدید عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات محض بگاڑ کی طرف بڑھتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں تمام بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر ہیں اور وہ بھی خاصے معیاری انداز سے۔ لوگ بظاہر کسی بھی معاملے میں پریشان دکھائی نہیں دیتے۔ جب زندگی اِتنی سہل ہوچکی ہو تو انسان بہکنے لگتا ہے، اس بات پر یقین کا حامل ہوتا جاتا ہے کہ جو کچھ ہے وہ خرچ کر ڈالو، کل کی کل دیکھی جائے گی۔ پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی لوگ شاہ خرچی کے قائل نہیں۔ وہ ہر معاملے میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زندگی زیادہ سے زیادہ اعتدال کے ساتھ بسر کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اِدھر ہم ہیں کہ اب تک یہ عمومی سا نکتہ سیکھنے کو بھی تیار نہیں کہ زندگی محض توازن کا نام ہے۔ سات عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران ہمارے معاشرے میں صرف یہ ذہنیت پنپتی رہی کہ جو کچھ خرچ کیا جاسکتا ہے‘ خرچ کردیا جائے اور آج ہی کو زندگی سمجھتے ہوئے کل کا معاملہ اللہ کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دانش بھی عطا کی ہے اور دانش سے مستفید ہوتے ہوئے زندگی بسر کرنے کو زیادہ پسند بھی کیا گیا ہے۔ ہر دور میں ہم صَرف کے غیر معمولی رجحان سے دوچار رہے ہیں۔ لوگ بچت پر زیادہ یقین کل رکھتے تھے نہ آج رکھتے ہیں۔ کاروباری طبقے کا مفاد اِس بات سے وابستہ ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ صَرف کریں اور یہ بات بھی اُن کے حق میں جاتی ہے کہ لوگ بچت کی طرف مائل ہوں تاکہ ضرورت کے مطابق قرضوں کا حصول ممکن ہو۔ آج معاملہ یہ ہے کہ بچت برائے نام ہے۔ لوگ کسی مشکل گھڑی کی خاطر بھی کچھ بچانے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے۔
ایک زمانہ تھا کہ جب اشیائے خور و نوش سمیت روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں دو‘ دو تین‘ تین سال تک منجمد رہتی تھیں۔ کم و بیش ہر معاملہ قابو میں تھا۔ تب بھی لوگ آمدن کا بڑا حصہ خرچ کرنے کے درپے رہتے تھے۔ یہ عمومی مزاج تھا جو پنپتا گیا۔ بڑوں نے کبھی عوام کی فکری تہذیب و تطہیر پر توجہ نہیں دی۔ معاشرے کو آمدن و خرچ کے درمیان اعتدال قائم رکھنے اور بچت کے رجحان کی طرف لے جانے کا کردار بڑوں کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ معاشرے کی نامور شخصیات جب قوم کی اصلاح پر مائل ہوں، اُسے کسی خاص راہ پر لے جانا چاہیں تو بھرپور توجہ اور محنت سے ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ بہت سی اقوام اپنے برے دنوں کو پچھاڑ کر اچھے دنوں کا دیدار محض اس لیے کر پائیں کہ اُن کے بڑوں نے ایسا چاہا تھا۔ کسی بھی معاشرے یا قوم کے لیے سُتون کا درجہ رکھنے والی شخصیات جب مل کر ایک خاص فکری رجحان کے ساتھ معاشرے کی اصلاح پر مائل ہوتی ہیں تب لوگوں کو بہت کچھ سیکھنے اور اصلاحِ احوال پر مائل ہونے کی تحریک ملتی ہے۔ ہمارے ہاں اب تک صرف کنزیومر اِزم کو پروان چڑھانے کی ذہنیت کارفرما رہی ہے۔ جن شخصیات کو معاشرے کی اصلاح پر مامور ہونا ہے‘ وہ لوگوں کو ایک ایسی زندگی کی طرف دھکیل رہی ہیں جس میں کمانے اور خرچ کرنے کے سوا کوئی سرگرمی ہے ہی نہیں۔ صرف کنزیومر اِزم کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ لوگ بھی حواس باختہ ہیں۔ روپے کی قوتِ خرید میں روز بروز کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ مہنگائی ایسی ہمہ گیر ہے کہ لوگ جلد از جلد ساری آمدن خرچ کردینا چاہتے ہیں۔ اُنہیں یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر کوئی چیز تین چار دن تک نہ خریدی تو اُس کے دام کچھ کے کچھ ہو جائیں گے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ؎
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں
لوگ خرچ کرنے کے عادی ہیں اور پھر مہنگائی کے ریلے ہیں کہ اُمڈے چلے آتے ہیں۔ ایسے میں معقول ترین طرزِ فکر یہی دکھائی دیتی ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے اُسے جلد از جلد خرچ کرے، بروئے کار لے آئے۔ اِس کے نتیجے میں لوگ صرف کمانے اور خرچ کرنے کے اُلٹ پھیر میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ آج معاشرے میں عمومی سطح پر زندگی بس اِتنی رہ گئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کمائیے اور زیادہ سے زیادہ خرچ کیجیے۔ عام آدمی اس پورے معاملے میں گھن چکر ہوکر رہ گیا ہے۔ کسی بھی معاشرے کو بدلنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں چونکہ بہت کچھ بگڑا ہوا ہے اِس لیے اِسے بدلنا جُوئے شیر لانے کے متراف ہے۔ لوگوں کو یہ نکتہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ زندگی صرف کمانے اور خرچ کرنے کا نام نہیں۔ اِن دو انتہاؤں کے درمیان بھی بہت کچھ ہے۔ زندگی ہم سے بہت کچھ چاہتی اور مانگتی ہے۔ زندگی سے فی الواقع محظوظ ہونے کے لیے لازم ہے کہ ہر معاملے میں اعتدال کی راہ پر گامزن ہوا جائے۔ شاہ خرچی کا رجحان ترک کرکے آمدن و اخراجات کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔ اس کے بغیر ہم خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتے۔ معاشرے کی نمایاں ہستیوں کو اس حوالے سے اپنا کردار پوری دیانت کے ساتھ ادا کرنا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں