جس بھی معاشرے میں خرابیوں کو نظر انداز کرنے کا رجحان عام ہو‘ اسے خرابیوں کی جس انتہا کی طرف جانا ہی پڑتا ہے ہم بھی اُس انتہا کی طرف رواں ہیں۔ یہ کوئی ہماری مرضی کا سودا تو ہے نہیں اس لیے اِسے کسی بھی حالت میں پسند اور برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اور بات ہے کہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ جب کسی پس ماندہ معاشرے میں خرابیاں بہت بڑھ جاتی ہیں تب کچھ لوگوں کو کمر کس کر سامنے آنا اور اپنا فریضہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ کون سا فریضہ؟ معاشرے کو خرابیوں سے بچانے کا فریضہ! ہر معاشرے کے نصیب میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو لوگوں کا مجموعی زوال دیکھ کر محض تماشائی بنے نہیں رہتے بلکہ میدان میں آکر اپنے حصے کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اُس کا صلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرر ہے۔ آج کا ہمارا معاشرہ طرح طرح کے بحرانوں سے اَٹا پڑا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب کوئی بھی مسئلہ تھوڑی سی عدمِ توجہ سے بحران بننے میں دیر نہیں لگاتا۔ معاشرے کی مجموعی ساخت اِتنی بگڑ گئی ہے کہ اب بہتری کی اُمید بھی دم توڑنے لگی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اجتماعی مایوسی کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہوتا ہے جب عوام کا اعتماد اداروں پر سے اُٹھ گیا ہو۔ ہمارے ہاں بھی یہی ہوا ہے! کوئی بھی ملک تمام بنیادی شعبوں میں انتہائی خرابیوں کے باعث جن مراحل سے گزرتا ہے ہم اُنہی مراحل سے گزر رہے ہیں اور یہ عمل ہماری فکری ساخت کو شکست و ریخت سے دوچار کرتا جارہا ہے۔ کیا خرابیاں صرف خرابیاں پیدا کرتی ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ کوئی بھی معاملہ جب انتہائی خرابی کی طرف جاتا ہے تب بہتری کی تحریک بھی دیتا ہے۔ اقبالؔ نے کہا ہے:
خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
کسی بھی معاشرے میں جب معاملات انتہائی نوعیت کی خرابی سے دوچار ہوتے ہیں تب، فطری طور پر، کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک بھی ضرور ملتی ہے۔ بحرانی کیفیت ہی انسان کو کچھ کرنے کا حوصلہ بھی عطا کرتی ہے۔ یہ بھی قدرت کا طے کردہ نظام ہے۔ کسی بھی انسان کی اصل صلاحیت و سکت سخت مشکل حالات میں نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ پنڈت برج نارائن چکبستؔ نے کہا ہے ؎
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کھلتے ہیں
مبارک بزدلوں کو گردشِ قسمت سے ڈر جانا
بہت سے بگڑے ہوئے معاشروں نے واضح بیرونی مدد یا مداخلت کے بغیر ہی اپنے معاملات درست کیے، اپنی تقدیر بدلی اور ہر نوع کی پس ماندگی و واماندگی کو شکست دے کر بھرپور ترقی و خوش حالی کی منزل تک پہنچ کر دم لیا۔ ایشیا میں بھی ایسے کئی معاشرے ہیں جو شدید پسماندگی کا جال توڑ کر کامیابی و کامرانی کی فضاؤں میں اُڑے اور اُن کی پرواز اب بھی جاری ہے۔ چین کی مثال بہت نمایاں ہے۔ سات عشروں کے دوران چینی معاشرے نے اپنی ساری پس ماندگی کو پچھاڑ دیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے آخری دنوں میں جاپان پر دو ایٹم بم گرائے گئے۔ یہ تباہی اعتماد اور حوصلے کو صدیوں تک شکستہ رکھنے کے لیے کافی تھی مگر جاپانی قوم دیکھتے ہی دیکھتے اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی۔ یہ سب کچھ دنیا کے لیے بہت حیرت انگیز ہے۔ ہونا بھی چاہیے۔ ایک عالمی جنگ میں عبرت ناک شکست کے بعد بھی کچھ ہی مدت میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونا کوئی معمولی بات نہیں کہ نظر انداز کردی جائے۔ ہمارے معاشرے میں رونما ہونے والی ٹوٹ پھوٹ افسوس ناک اور حوصلوں پر ضرب لگانے والی ہے۔ درد مند دل کا حامل کوئی بھی پاکستانی اِس صورتِ حال میں خوش نہیں رہ سکتا۔ اگر کسی کے پاس بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے بہت کچھ ہو مگر پورے ماحول میں پس ماندگی ہو اور لوگ شدید معاشی مشکلات کا شکار ہوں تو دل کیونکر خوش رہ سکتا ہے؟ ماحول میں پائی جانے والی تمام الجھنوں کو نظر انداز کرکے صرف اپنے بارے میں سوچنا سفاکی کے سوا کچھ نہیں۔ جو لوگ معاشرے کی مجموعی کیفیت سے بے نیاز ہوکر اپنی مالی آسودگی کو سب کچھ سمجھ کر الگ تھلگ زندگی بسر کرتے ہیں اُنہیں آپ کبھی خوش نہیں پائیں گے۔
ڈیڑھ‘ دو عشروں کے دوران ملک میں جو خرابیاں پیدا ہوئیں اور پنپتی رہیں اُن کے منطقی نتائج اب سامنے آچکے ہیں۔ پورا معاشرہ خرابیوں کی لپیٹ میں ہے۔ یہ سب کچھ بہت دل دُکھانے والا ہے۔ ملک کے حالات پر کڑھنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب کچھ کسی خاص طبقے کا پیدا کردہ نہیں بلکہ سب نے مل کر ملک کو اِس نہج تک پہنچایا ہے۔ اِتنے بُرے حالات اُسی وقت پیدا ہوتے اور پنپتے ہیں جب خرابیوں میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہو۔ یہ سوشل میڈیا کا بھی زمانہ ہے۔ سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کیا جانے والا مواد عام آدمی کو خطرناک حد تک متاثر کرتا ہے۔ سوچ بدلنے میں یہ مواد کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ سوچ کی تبدیلی عمومی سطح پر خالص منفی ہے۔ لوگ ایسا بہت کچھ سوچنے لگتے ہیں جو انہیں بالکل نہیں سوچنا چاہیے۔ اس حوالے سے راہ نمائی کرنے والے بھی اپنا کام کر رہے ہیں۔ اُنہیں سمجھانے والا کوئی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی پوسٹس ہمیں بگاڑ کی طرف زیادہ لے جارہی ہیں اور اصلاح کی تحریک بہت کم دے رہی ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر اپنی آڈیوز، وڈیوز اور دیگر انواع کی پوسٹس کے ذریعے صرف خرابیاں پیدا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یہ تو معلوم نہیں کہ یہ لوگ کس کے ایجنڈے پر ہیں اور ایجنڈے پر ہیں بھی یا نہیں مگر اس حقیقت سے بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اِن کی باتوں سے لوگ متاثر ہو کر ایسا بہت کچھ سوچنے لگتے ہیں جو اُنہیں نہیں سوچنا چاہیے۔
ہم سب کمر توڑ مہنگائی سے دوچار ہیں۔ مہنگائی صرف اس معاشرے کا مسئلہ نہیں‘ پوری دنیا اِس کی لپیٹ اور زد میں ہے۔ ہم اپنے پڑوس میں بھی دیکھیں تو لوگ شدید مشکلات سے اَٹی ہوئی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے ہاں معاملات کو کچھ کا کچھ بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ آج پوری دنیا میں پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خور و نوش کے نرخ غیر معمولی حد تک بلند ہیں۔ جن ممالک کو خام تیل اور گیس درآمد کرنا پڑتی ہے اُن کا حال زیادہ بُرا ہے۔ یوکرین کی جنگ نے یورپی ممالک کو ابھی سے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ موسمِ سرما میں گیس کا مسئلہ کیسے حل کریں گے کیونکہ روس پر اقتصادی پابندیاں عائد ہیں‘ اُس سے تیل اور گیس کی درآمدات مکمل بند کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ حکومتی مشینری کی کارکردگی اس حوالے سے متاثر کن نہیں۔ عوام کے لیے جو کچھ کیا جانا چاہیے وہ نہیں کیا جارہا مگر ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ حکومتی مشینری کو چلانے والے بھی اِسی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سرکاری مشینری کے پُرزے بھی تو ہمارے درمیان ہی رہتے ہیں۔ جیسے ہم ہیں ویسی حکومت ہے۔ جب پورا معاشرہ بگڑا ہوا ہو تو حکومتی مشینری کیونکر پاک دامن رہ سکتی ہے؟ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ مہنگائی، عوام کی مشکلات اور حکومتی مشینری کی ناکامی کے حوالے سے اپنا منجن بیچنے میں مصروف ہیں۔ وہ عوام کو بہت کچھ اُلٹا سیدھا کرنے پر اُکساتے رہتے ہیں۔ عوام کو بحرانوں کا بتا بتاکر اُن کے ذہنوں میں مزید الجھنیں پیدا کرنے کے بجائے اُنہیں اصلاحِ احوال کی راہ دکھائی جانی چاہیے۔ کچھ لوگ مہنگائی کی ہولناکی سے لوگوں کو ڈرا ڈراکر ذہنی مریض بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کر رہا کہ مہنگائی ہے مگر یہ بھی سوچا جائے کہ خرابیاں سب کیلئے ہیں۔ کوئی ایک طبقہ بھی اِن سے محفوظ نہیں۔ لوگوں میں مایوسی پھیلانے کے بجائے اُن میں اعتماد پیدا کرنے کی بات کی جانی چاہیے۔ حکومتی یا ریاستی مشینری کو دن رات کوسنے سے کسی کے حالات درست نہیں ہوسکتے۔ معاشرے کو الزام دیتے رہنا بھی درست نہیں۔ ڈیل کارنیگی نے کہا تھا کسی بھی معاملے میں آپ قصور وار ہوں نہ ہوں‘ ذمہ دار تو آپ ہی ہیں! اپنی اصلاح کا ڈول آپ ہی کو ڈالنا ہوگا۔