ہمارے ہاں سے ایک خاص ذہنیت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی‘ یہی کہ جو کچھ بھی کرنا ہے حکومت کو کرنا ہے۔ حکومت کو بہت کچھ کرنا ہوتا ہے مگر سب کچھ نہیں کرنا ہوتا۔ بہت کچھ ایسا ہے جو ہمیں کرنا ہے۔ اپنے بارے میں اگر سوچنا ہے تو ہمیں سوچنا ہے۔ انفرادی سطح پر اپنی بہبود کی سوچ کا پنپنا لازم ہے۔ کسی بھی معاشرے میں انفرادی سطح پر بھرپور کامیابی اور خوشحالی حتمی تجزیے میں انفرادی کارکردگی ہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ کوئی بھی حکومت اپنے شہریوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے کے معاملے میں ایک خاص حد تک ہی جاسکتی ہے۔ اُس کے بعد متعلقہ فرد ہی کو متحرک ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی اب تک یہی سمجھا جارہا ہے کہ انسان اگر کچھ کرسکتا ہے تو صرف اُس وقت جب حکومت اُس کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ حکومتی نظام ہمارے ہاں جیسا بھی ہے‘ ہمارے سامنے ہے۔ کیا ہم اِس گئے گزرے ماحول میں حکومت سے کسی واضح مثبت کردار کی توقع رکھ سکتے ہیں؟یقینا جواب نفی میں ہوگا ‘ جو کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ حکومتی مشینری جس معیار کی ہے‘ اُسے دیکھتے ہوئے کسی بھی فرد کو اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے حکومت کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہیے۔ حکومت کی ذمہ داریاں انفرادی کارکردگی کو بہتر بنانے سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔ حکومت اگر اپنے اجتماعی کام ہی ڈھنگ سے کرلے تو بہت ہے۔
کسی بھی معاشرے میں انفرادی سطح پر کچھ کرنے کی تحریک انسان کو اُسی وقت ملتی ہے جب وہ خود کچھ کرنے کا سوچتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں ملتے ہیں جو زندگی بھر کچھ نہیں کرتے یعنی عمومی سطح پر رہتے ہوئے کام کرتے ہیں اور اِسی حالت میں دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ اُن کی ذہنی سطح بھی بلند نہیں ہوتی اور کام کرنے کی سکت بھی اُن میں زیادہ نہیں پائی جاتی۔ حکومت کی طرف سے ملنے والی سہولتوں کو بنیاد بناکر پُرسکون زندگی بسر کرنے والے نچلی سطح ہی پر رہتے ہیں، کچھ خاص نہیں کر پاتے۔ آج ہمارا معاشرہ اُس موڑ پر کھڑا ہے جہاں سے آگے بڑھنا صرف اُن کے لیے ممکن ہے جو اپنے طور پر بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ سرکاری نوکری کے انتظار میں بیٹھے سڑنے والوں کے مقدر میں بالآخر ناکامی رہ جاتی ہے۔ آج بھی لاکھوں پاکستانی دن رات صرف اس فکر میں غلطاں رہتے ہیں کہ کسی بھی طرح کوئی سرکاری نوکری مل جائے۔ سرکاری نوکری میں گریجوٹی بھی ملتی ہے اور پنشن بھی۔ یعنی کوئی ٹینشن ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ سرکاری نوکریاں کتنی ہیں؟ حکومت تمام پڑھے لکھے نوجوانوں کو تو نوکری نہیں دے سکتی۔ آج بھی بہت سے شعبے ایسے ہیں جن میں افرادی قوت کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ بہت سے عمومی شعبوں کی طرف نوجوان اس لیے نہیں جاتے کہ ایک طرف تو اُن میں محنت کرنا پڑتی ہے اور دوسری طرف سماجی رُتبے کا بھی معاملہ ہوتا ہے۔ کھانے پکانے کے شعبے میں افرادی قوت آج بھی بہت کم ہے۔ ہنرمند پلمبر‘ الیکٹریشین بھی مطلوب تعداد میں نہیں۔ بالکل اِسی طور بعض زیادہ محنت طلب شعبوں کی طرف بھی بہت کم نوجوان متوجہ ہوتے ہیں۔ بیشتر نوجوان جیسے تیسے تعلیم مکمل کرکے وہائٹ کالر جاب چاہتے ہیں یعنی دفتر میں ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں کام کرنے کا موقع ملے۔ شام کو جلدی گھر بھی پہنچنا ممکن ہو اور سالانہ چھٹیاں بھی ٹھیک ٹھاک ملیں۔ بیشتر نوجوان کچھ سیکھنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ عمومی سطح پر خواہش صرف یہ ہے کہ زندگی کی پہلی جاب ہی ایسی شاندار ہو کہ لوگ دیکھتے رہ جائیں!
ایک زمانہ تھا کہ لوگ اپنی اولاد کو پندرہ سولہ سال کی عمر میں کہیں کام سیکھنے پر لگاتے تھے۔ تین چار سال تک خوب محنت سے کام کرنے کے نتیجے میں اچھا خاصا تجربہ حاصل ہو جاتا تھا اور یوں عملی زندگی کی بہتر ابتدا ہوتی تھی۔ کام سیکھنے کے دوران ''چھوٹوں‘‘ کو کچھ ملتا بھی نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا تھا کہ کام سکھانے والا دن کا کھانا کھلادیتا تھا۔ چھٹی کا تصور بھی نہیں تھا۔ روز کام پر جانا پڑتا تھا۔ اُس دور کے بہت سے ''چھوٹے‘‘ آج بہت بڑے بن چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کرم کے بعد‘ یہ سب اُن کی محنت اور والدین کی توجہ کا نتیجہ ہے۔ آج کے نوجوان کہیں کسی دکان یا فیکٹری میں بلا معاوضہ کام کرنے کی ذہنیت کے حامل نہیں۔ وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ پہلی جاب ہی ایسے شاندار مشاہرے والی ہو کہ سارے دُلدر دور ہو جائیں۔ نئی نسل کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ عملی زندگی کی ابتدا میں بہت کچھ پانے کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے۔ ہر معاشرے میں معاملہ یہ ہے کہ عملی زندگی کی ابتدا سیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ ابتدائی تین چار برس صرف تجربے کے لیے ہوتے ہیں۔ اِس دوران اگر کچھ یافت ہو جائے تو ٹھیک‘ ورنہ اِس کی زیادہ اُمید وابستہ نہیں کرنی چاہیے۔ سرکاری نوکری کا آسرا لاکھوں نوجوانوں کو برباد کرچکا ہے اور مزید لاکھوں نوجوان تباہی کے دہانے پر ہیں۔ سرکاری نوکری کی آسانی دیکھ کر یہ نوجوان اپنے طور پر کچھ کرنے اور کسی مخصوص شعبے میں نام کمانے کی فکر میں غلطاں رہنے کے بجائے دن رات یہی سوچتے رہتے ہیں کہ اچھی سی نوکری مل جائے تو زندگی کے سارے دُکھ ایک جھٹکے میں دور ہو جائیں۔ کئی شعبوں کو افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ نوجوان متوجہ ہوں تو اُن کے لیے کئی شعبوں میں شاندار کیریئر شروع ہوسکتے ہیں۔ سوال صرف لگن اور محنت کا ہے۔ بہت سے عمومی کام بھی اچھی خاصی آمدن یقینی بناسکتے ہیں۔ نوکری کے بجائے سیلف ایمپلائمنٹ کے ذریعے بھی اچھا کمایا جاسکتا ہے اور فراغت کے لمحات بھی یقینی بنائے جاسکتے ہیں۔
آسرے کی زندگی پنپ نہیں سکتی۔ آسرا سرکاری نوکری کا ہو یا کسی اور شعبے کی اچھی نوکری کا‘ انسان کو بالآخر پریشانی ہی سے دوچار رکھتا ہے۔ کامیاب وہ رہتے ہیں جو کسی بھی شعبے کو اچھی طرح جان کر‘ پرکھ کر اپنے لیے کوئی راہ منتخب کرتے ہیں۔ کئی شعبوں میں آمدن سرکاری نوکری سے ملنے والے تنخواہ سے بھی زیادہ ہے مگر نوجوان اُس طرف محض اس لیے نہیں جاتے کہ بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ محنت سے بھاگنا اب نئی نسل میں ٹرینڈ کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔ سبھی کو پُرسکون نوکری چاہیے۔ کیریئر صرف اور صرف محنت کا نام ہے۔ محنت کے بغیر کسی بھی شعبے میں نمایاں کامیابی ممکن نہیں بنائی جاسکتی۔ نئی نسل کو یہ بتانے اور سکھانے کی ضرورت ہے کہ زندگی صرف جدوجہد کا نام ہے۔ سُکون محض بیٹھے رہنے سے نہیں ملتا بلکہ بھرپور محنت اور جدوجہد کے بعد میسر آنے والے فراغت کے لمحات انسان کو حقیقی سُکون عطا کرتے ہیں۔ کئی شعبوں میں بہت کچھ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ نئی نسل کو اُن کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ کسی بھی کام کو چھوٹا یا حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ انسان محنت کرتا ہے یا نہیں۔ اگر دلجمعی سے محنت کی جائے تو بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں ماحول میں ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی کہ کسی نے کوئی شعبہ منتخب کیا، دن رات ایک کیے اور پھر پھل بھی پالیا۔
بیروزگاری محض رونا روتے رہنے سے دور نہیں ہوسکتی۔ اِس کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں کچھ نہ کچھ کرنے کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ آرام طلبی کی ذہنیت پروان چڑھ گئی ہو تو انسان کچھ زیادہ نہیں کر پاتا۔ نئی نسل کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ محنت سے دور بھاگتی ہے اور صرف آسان ملازمتیں تلاش کرتی رہتی ہے۔ محنت طلب کام سے بھاگنے کی ذہنیت ترک کیے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ آج کے نوجوانوں کو اپنی صلاحیت و سکت بروئے کار لانے کے لیے چیلنجنگ کام کرنے پر مائل ہونا چاہیے۔ ایسے ہر کام میں آمدن زیادہ ہوتی ہے اور کامیابی غیر معمولی اطمینان بخشتی ہے۔ حکومت ایک خاص حد تک ہی ملازمتیں فراہم کرسکتی ہے۔ ہاں‘ متوازن پالیسیوں کے ذریعے مختلف شعبوں میں ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے میں حکومت ایک خاص حد تک اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ کاروباری برادری کو افرادی قوت کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ معیاری افرادی قوت کا حصول کاروباری برادری کے لیے اب محض خواب ہوتا جارہا ہے۔ اس حوالے سے سنجیدہ ہوکر سوچنے کی ضرورت ہے۔ حکومت بھی سوچے اور عام آدمی بھی۔ تب کہیں جاکر اصلاحِ احوال کی صورت نکلے گی۔