"MIK" (space) message & send to 7575

ایجنڈوں سے بچنا ہے

ہر دور کی زندگی مختلف نظریات کے درمیان کشمکش سے عبارت رہی ہے۔ ہر دور کے انسان کو بات بات پر دوراہے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا وہ بنیادی ضرورت ہے جس کی تکمیل کیلئے انسان بیشمارمعاملات میں اصولوں پر سودے بازی کرتا ہے۔ بیشتر کو اس مرحلے سے مجبوراً گزرنا پڑتا ہے‘ کچھ لوگ یہ کام خوشی خوشی کرتے ہیں‘ اُصولوں کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں‘ دنیا کو اپنے دامن میں سمیٹ کر آخرت کو داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں۔
آج ہماری زندگی میں لفظ ''ایجنڈا‘‘ غیرمعمولی حد تک سرایت کرگیا ہے۔ کوئی بھی ذرا سی مشکوک سرگرمی میں مبتلا پایا جائے تو گمان گزرتا ہے کہ وہ کہیں کسی کے ایجنڈے پر تو نہیں۔ ہر عہد میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو کسی خاص (بالعموم مذموم) مقصد کے حصول کی خاطر ایک خاص ایجنڈا طے کرتے ہیں‘ خود بھی اُس پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کام پر لگاتے ہیں۔ مقصود اگر معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنا ہو تو فنڈنگ بھی خوب ہوتی ہے‘ دیگر سہولتیں بھی خوب ملتی ہیں اور ہر طرف آسانی ہی آسانی دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔
فی زمانہ ہر کمزور معاشرہ مختلف حوالوں سے ایجنڈوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے مذموم مقاصد کا حصول یقینی بنانے کی خاطر ایسا بہت کچھ کر رہی ہیں جو کمزور تر معاشروں کو مزید کمزور کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ یہ عمل دن رات جاری ہے۔ بڑی طاقتوں کے ہر ''نیک‘‘ کام کی تکمیل یقینی بنانے کے لیے متعلقہ کمزور معاشروں ہی سے بہت سے لوگ مل جاتے ہیں جو ایجنڈے کے تحت خوشی خوشی کام کرتے ہیں۔ دنیا کا سودا کرنے والے کب نہیں تھے اور کب نہیں ہوں گے! معاشرے کا مجموعی مفاد ایک طرف ہٹا کر غیروں کے طے کیے ہوئے ایجنڈے یا ایجنڈوں کے مطابق کام کرنے پر رضامندی ظاہر کرنے والے اپنے ہی لوگوں کے خلاف جانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اُن کی توجہ صرف یافت پر ہوتی ہے۔ جب دنیا آسانی سے مل رہی ہوتی ہے تو یہ لوگ آخرت کو بھول کر اپنے معاملات اُن کے ہاتھ میں دے بیٹھتے ہیں جو اُنہیں فکرِ معاش سے یکسر بیگانہ کردیتے ہیں۔
یہ سوچنا محض خام خیالی ہے کہ ایجنڈا صرف غریب اور پس ماندہ ممالک اور معاشروں کے لیے ہوتا ہے۔ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے والے اپنے مفادات کی تکمیل یقینی بنانے پر آتے ہیں تو اپنے ہی معاشروں کو بھی ایجنڈوں کی نذر کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ آج ترقی یافتہ دنیا کی حکومتیں‘ بڑے کاروباری ادارے اور نمایاں ترین شخصیات دَہریت، مادّہ پرستی اور کنزیومر اِزم کے ایجنڈے پر کاربند ہیں۔ ایسے میں یہ سوچنا محض خوش فہمی ہے کہ یہ اجتماعی ایجنڈا صرف غریب اور پس ماندہ ممالک کے لیے ہے۔ خود ترقی یافتہ معاشروں میں بھی عوام ایجنڈے کی زد میں ہیں۔ انہیں بھی مختلف حوالوں سے نادیدہ زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ لاکھ کوشش کے باوجود اُن کے لیے بھی بہت سے علائق سے بچنا ممکن نہیں رہا۔ کوئی کچھ بھی سمجھے اور کچھ بھی کہتا رہے، حقیقت یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کے معاشرے بھی ایسے ایجنڈوں کی زد میں ہیں جو بالآخر اُنہیں انتہائی درجے کی پستی سے دوچار کرکے دم لیں گے۔ یہ سب کچھ صرف اُنہیں دکھائی دے سکتا ہے جنہیں اللہ نے بصیرت عطا کی ہو اور جو انسانیت کے مجموعی مفاد کو ذہن نشین رکھتے ہوئے سوچنے کے عادی ہوں۔
عام آدمی پس ماندہ معاشرے کا ہو یا ترقی یافتہ معاشرے کا‘ بہت سے معاملات میں اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔ بعض معاملات میں اُس کی مجبوری اِتنی نمایاں ہوتی ہے کہ ترس آنے لگتا ہے۔ معاشی معاملات کی بھی یہی کیفیت ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی عام آدمی اپنا عمومی معیارِ زندگی برقرار رکھنے کے لیے بہت سے معاملات میں اصولوں پر سَودے بازی کر بیٹھتا ہے۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اُسے بعض معاملات میں محض بے جان شے کی طرح استعمال کیا جارہا ہے مگر پھر بھی وہ کچھ خاص ردِعمل ظاہر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ رگوں میں خون کے ساتھ دَہریت اور مادّہ پرستی کا زہر بھی بہتا ہو تو بہت کچھ دکھائی دے کر بھی دکھائی نہیں دیتا اور انسان اپنے اصل حصے سے بہت کم پر راضی ہو جاتا ہے۔ اِسی کو اصولوں پر سودے بازی کہتے ہیں۔ اللہ نے جن مقاصد کی تکمیل یقینی بنانے کے لیے انسان کو روئے ارض پر زندگی ایسی نعمت سے نوازا ہے وہ بہت سے تقاضے بھی کرتے ہیں اور کم و بیش ہر انسان اُن مقاصد اور تقاضوں کو سمجھتا بھی ہے مگر پھر بھی وہ بعض مقامات پر مجبوری کے ہاتھوں اور بعض مقامات پر باطنی خبث و طمع کے باعث اپنے رب کی مرضی کے مطابق نہیں چل پاتا۔ رب کی مرضی کے مطابق چلنا ہر انسان کے لیے ممکن بنایا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ سمجھا جائے گا کہ رب نے ناقابلِ عمل منشور اور شریعت دے کر انسان سے (نعوذ باللہ) عدل نہیں کیا۔ اللہ نے ہمارے لیے جو کچھ بھی طے کیا ہے وہ پورے توازن کے ساتھ ہے اور قابلِ عمل ہے‘ قابلِ حصول ہے۔پاکستانی معاشرے کو دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ قدم قدم پر ایجنڈے بکھرے ہوئے ہیں۔ غیروں نے بہت کچھ کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے تو اپنوں نے بھی کچھ خاص کسر نہیں چھوڑی۔ عام پاکستانی ایجنڈوں کے جال میں ایسا پھنسا ہوا ہے کہ نکلنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔ قدم قدم پر الجھنیں پیدا کرنے والے ہیں اور ایک سے بچیے تو کوئی دوسرا کسی موڑ پر کھڑا ملتا ہے جو بے راہ روی کے گڑھے میں دھکیلنے کے لیے بے تاب دکھائی دیتا ہے۔ بعض بے لگام میڈیا آؤٹ لیٹس نے معاملات کو خطرناک حد تک بگاڑنے میں اپنا کردار انتہائی بے باکی اور سَفّاکی سے ادا کیا ہے۔ خالص ذاتی مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی خاطر اجتماعی مفادات کو یوں داؤ پر لگادیا گیا ہے کہ دیکھ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
آج کی زندگی ایجنڈوں کی نذر ہونے میں دیر نہیں لگاتی۔ خالص نظریاتی سوچ کم کم پائی جاتی ہے۔ اصولوں پر دنیا کو قربان کرنے والے آج خال خال ہیں۔ اللہ نے ہمیں اس لیے خلق نہیں کیا کہ دنیا پر مر مِٹیں جبکہ اس بات پر پورا ایمان‘ بلکہ ایقان بھی ہے کہ یہ دنیا محض دھوکا ہے جو ختم ہو جانا ہے‘ ایک پردہ ہے جسے چاک ہونا ہے۔ ایسے میں دنیا پر مر مٹنے کا کوئی جواز تو بنتا ہی نہیں۔ دو وقت کی روٹی کے لیے ایمان و ایقان کو داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا۔ آج قدم قدم پر ایجنڈوں سے بچنا عام آدمی کے لیے بہت مشکل ہوگیا ہے مگر ناممکن کسی حالت میں نہیں۔ اللہ نے ہمیں جن مقاصد کے حصول کے لیے خلق کیا ہے وہ کسی بھی عہد میں ناقابلِ حصول نہیں تھے اور آئندہ بھی ناقابلِ حصول نہیں ہوں گے۔ جو کچھ اللہ نے ہمارے لیے طے کیا ہے وہ کسی بھی دور میں عام آدمی کی دسترس سے بھی باہر کی بات نہیں رہا۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ کی ذات ہمارے لیے کوئی ایسا منشور تیار کرے جس پر مکمل عمل ناممکن ہو۔ مکۂ مکرمہ میں نبیؐ کی طرف سے پیش کی جانے والی دعوتِ دین کے ابتدائی دنوں سے اب تک کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب اللہ کی دکھائی‘ سُجھائی ہوئی راہ پر چلنا ممکن نہ ہو۔
آج ہمیں بہت سے معاملات میں اصولوں پر سودے بازی کرنا پڑتی ہے۔ یہ سودے بازی تھوڑی سی کوشش سے ٹالی بھی جا سکتی ہے۔ یومیہ معاملات میں چھوٹے پیمانے کی کرپشن اور بے ایمانی بھی ایجنڈا ہے۔ یہ ایجنڈا شیطان کا ہے۔ شیطان ہمیں بہت سے چھوٹے معاملات میں اصولوں پر سودے بازی کی راہ دکھاکر بڑی خرابیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ جب ہم چھوٹے معاملات میں اصولوں کو تجنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو بڑے معاملات میں تمام نظریات اور اصولوں کا گلا گھونٹنے میں ہمیں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ شیطان نے قدم قدم پر ہمارے لیے اندرونی اور بیرونی ایجنڈوں کی رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ یہ سب کچھ زندگی کا حصہ ہے۔ ہمیں کبھی راہ آسان نہ ملے گی۔ راہ کو آسان بنانے کا ایک ہی طریق ہے ... یہ کہ صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کو حقیقی مطمح نظر بناتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔ ایجنڈوں سے بچنا اور شریعت کی راہ پر چلنا ہے۔ عزم اگر محکم ہو تو آپ قدم قدم پر اللہ کو اپنا حامی و ناصر پائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں