بھارت میں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند ہندوؤں نے جو محاذ کھول رکھا ہے‘ اُس کے حوالے سے اب عرب دنیا میں بھی اچھا خاصا ردِعمل دکھائی دے رہا ہے۔ یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کیونکہ ایک زمانے سے پاکستان اور دیگر بہت سے ممالک بھارتی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے عرب دنیا سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ عرب دنیا کا کھڑا ہونا لازم ہے کیونکہ بھارت اور عرب دنیا کے معاشی تعلقات غیر معمولی نوعیت کے ہیں۔ ان تعلقات کے متاثر ہونے سے بہت کچھ تبدیل ہوسکتا ہے۔ بھارتی قیادت کے ہوش ٹھکانے آسکتے ہیں۔ خلیجی ممالک میں لاکھوں بھارتی باشندے معاشی عمل پر چھائے ہوئے ہیں۔ بھارتی باشندوں کو پوری خلیجی دنیا میں افرادی قوت کے حصول کا مؤثر ترین ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔
حال ہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والی نوپور شرما اور نوین جندال نے جو گستاخی کی‘ اُس پر بھارت، پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں تو ردِعمل ہوا ہی‘ ساتھ ہی ساتھ خلیجی ممالک میں بھی شدید ردِعمل کی لہر آئی۔ شانِ رسالت میں کی جانے والی گستاخی دنیا بھر میں کسی بھی مسلمان کے لیے یکسر ناقابلِ برداشت ہے۔ فلسطین و کشمیر کے مسئلے پر تو دیگر خطوں کے مسلمان ذرا کم ردِعمل ظاہر کرسکتے ہیں، روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی شاید دنیا بھر میں وہ ردِعمل پیدا نہ ہو‘ جو ہونا چاہیے مگر جب بات شانِ رسالت کی آجائے تو کوئی بھی مسلم چپ رہ سکتا ہے نہ غیر متعلق۔ ایسے میں بھارت کی حکمران جماعت کے رہنماؤں کی گھناؤنی حرکت کے خلاف شدید ردِعمل کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں۔ نوپور شرما اور نوین جندال کی ناپاک جسارت پر بھارتی مسلمانوں نے شدید ردِعمل ظاہر کیا جس کے نتیجے میں خلیجی دنیا میں بھی بھارتی حکومت کے خلاف نفرت کی لہر اٹھی۔ کئی خلیجی ممالک میں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی شروع ہوئی۔ چند ایک مقامات سے بھارتی باشندوں کے ویزے یا ورک پرمٹ منسوخ کرکے اُنہیں وطن واپس بھیجنے کی باتیں بھی سامنے آئی ہیں۔ یہ سب کچھ بھارتی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے لیے انتہائی غیر متوقع تھا۔ مودی سرکار نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ عرب دنیا سے کبھی اس نوعیت کا ردِعمل سامنے آسکتا ہے۔ عرب دنیا سے بھارت کے تعلقات ہمیشہ مثالی نوعیت کے رہے ہیں۔ ایران کے علاوہ سعودی عرب، مصر، قطر، خلیجی ریاستوں اور خطے کے دیگر ممالک نے بھارت کو ہمیشہ اولیت اور ترجیح دی ہے۔ دیگر علاقائی ممالک کی نسبت بھارت سے زیادہ افرادی قوت قبول کی جاتی رہی ہے۔ خلیجی خطے سمیت پوری عرب دنیا سے بھارتی برآمدات کا ایک بڑا حصہ وابستہ ہے۔ اس کے باوجود بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے بالکل واضح احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی مسلمانوں کے حوالے سے نرمی اپنانے پر توجہ نہیں دی۔ 22 کروڑ سے زائد مسلمانوں کو بھارت میں نہایت نچلی سطح پر رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ مسیحی، سِکھ، بودھ اور دیگر اقلیتیں بھی مسلمانوں سے روا رکھا جانے والا سلوک دیکھ کر خوفزدہ ہیں۔ بھارتی مسلمان بہت سے شعبوں میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں اور ملک کے لیے اُن کی معاشی، معاشرتی اور علمی و ثقافتی خدمات ہندوؤں اور دیگر بھارتیوں سے کم نہیں مگر پھر بھی اُنہیں یوں نظر انداز کیا جارہا ہے گویا اُن کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ آبادی کے تناسب سے بھارتی پارلیمنٹ میں کم و بیش 70 نشستیں مسلمانوں کے لیے مختص ہونی چاہئیں جبکہ پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں مسلم ارکان کی تعداد اس وقت 27 ہے۔ گزشتہ لوک سبھا میں صرف 23 مسلمان تھے۔ مرکزی کابینہ میں بھی کم از کم سات وزیر مسلم ہونے چاہئیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی طرح مرکزی کابینہ میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی شرم ناک حد تک کم ہے۔ ریاستی یعنی صوبائی اسمبلیوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود واضح طور پر مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ اُن پر ملازمتوں کے دروازے بھی بند ہیں اور معاشرتی سطح پر بھی اُن سے بغض و عناد رکھا جاتا ہے۔ ہندوؤں میں ذات پات کا نظام بہت مضبوط ہے جس کے نتیجے میں کروڑوں بھارتیوں کو نچلی ذات کا ہندو قرار دے کر شدید معاشی و معاشرتی پستی کے گڑھے میں رکھا جاتا رہا ہے۔ نچلی ذات کے ہندوؤں کو عرفِ عام میں اچھوت کہا جاتا ہے۔ گاندھی نے اُنہیں ہری جن (خدا کے لوگ) کہا تھا مگر اچھوتوں کو بہتر ملازمتیں ملتی ہیں نہ معاشرتی سطح پر اُن کے لیے کچھ خاص ہے۔ وہ کمتر درجے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اعلیٰ ذات کے ہندو‘ جو اقتدار کے ایوانوں اور فیصلہ ساز اداروں پر قابض و متصرف ہیں‘ مسلمانوں کو بھی اچھوتوں کا سا درجہ دے کر ترقی و خوش حالی کی دوڑ سے ہمیشہ کے لیے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔
بھارت بھر میں مسلمانوں نے توہین آمیز ریمارکس پر شدید ردِعمل ظاہر کرکے ثابت کردیا ہے کہ ناموسِ رسالت پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ مسلم ممالک کے ردِعمل نے بھی ماحول بنادیا ہے۔ اب مل جل کر بھارتی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھایا جانا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو تنگ کرنا اور اسلامی تعلیمات و شعائر کا تمسخر اڑانے والوں کو لگام دے۔ نوپور شرما کے معاملے میں بھارت سمیت پورے خطے کے مسلمانوں نے غیر لچکدار رویہ اپناکر ایک اچھی ابتدا کردی ہے۔ بھارتی مسلمان نریندر مودی کی قیادت میں قائم بی جے پی سرکار کے ہاتھوں آٹھ سال سے مظالم برداشت کرتے آئے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی جنت نظیر وادی کو بھی مودی سرکار نے خاک میں ملانے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ کسی بھی چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے صبر کی بھی حد آچکی ہے! حالات سے تنگ آکر انہوں نے اب اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ بہر کیف‘ مسلمانوں کا دینی شعائر کی حفاظت اور اپنے حقوق کے لیے میدان میں آنا حتمی تجزیے میں غیر معمولی فوائد کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کو یہ پیغام جارہا ہے کہ مسلمانوں سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ سارے مظالم چپ چاپ برداشت کرتے جائیں گے۔
ایک زمانے سے بھارتیہ جنتا پارٹی اسلام اور مسلمانوں کا ہوّا کھڑا کرکے ووٹ بٹورتی آئی ہے۔ یہ ووٹ بینک اب ٹوٹنا چاہیے۔ عام ہندو کو بدگمان کرنے والے یہ انتہا پسند عرفِ عام میں ''سَنگھ پریوار‘‘ کہلاتے ہیں۔ اسلام کی بالکل عمومی اور سادہ تعلیمات کا بھی یہ غلط مطلب اخذ کر کے ایسی فضا برقرار رکھنا چاہتے ہیں جس میں ہر مسلمانوں کو انتہا پسند سمجھ کر اُس سے کنارا کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اُس پر جبر بھی کیا جائے تاکہ وہ اپنے حقوق کے حوالے سے کچھ بھی کہنے کے قابل نہ رہے۔ جید علمائے کرام کی تحریروں کو متنازع بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ علمائے کرام کے خلاف بھرپور فضا تیار کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ برداشت نہیں کیا جاسکتا! مسلمانوں کو دوسرے یا تیسرے نہیں بلکہ نویں‘ دسویں درجے کا شہری بناکر زندہ رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ بھارت میں کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس میں مسلمانوں کی نمایاں خدمات نہ پائی جاتی ہوں۔ اس کے باوجود مسلم اور اسلام مخالف فضا برقرار رکھنے پر زور دیا جارہا ہے۔ بی جے پی مسلم مخالف مائنڈ سیٹ کو ہر ہندو کا وصف بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی تھوڑی ہمت دکھائی ہے اور بھارتی قیادت سے پُرزور احتجاج کیا ہے۔ یہ سلسلہ رُکنا نہیں چاہیے۔ چند برس قبل ترکی اور ملائیشیا نے بھی مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت کو لتاڑا تھا۔ اب پھر ایسی فضا تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مودی سرکار کے سرپرست سنگھ پریوار کو اندازہ ہو کہ مسلمانوں کو ایسا ہلکا نہیں لیا جانا چاہیے۔ عرب دنیا اس حوالے سے کلیدی اور فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔ بھارتی میڈیا نے اب تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلنے کا سلسلہ بند کرنے کا نام تک نہیں لیا۔ بعض نام نہاد لبرل دانشوروں کی مدد سے بھارتی ٹی وی چینلز مسلم مخالف ماحول کو مزید تقویت پہنچانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اس ریلے کے آگے بند باندھنا ناگزیر ہے۔