بازار میں جو کچھ بھی دستیاب ہے وہ ہمارا نہیں‘ ہمارے لیے نہیں۔ اگر کسی میں غیر معمولی خریداری کی سکت ہو تب بھی وہ بازار میں موجود ہر چیز خریدنے کا ذہن نہیں بناتا۔ سیدھی سی بات ہے، انسان کو وہی کچھ خریدنا چاہیے جو اُس کی کسی ضرورت کو پورا کرتا ہو۔ محض دل پشوری کے لیے یا جمع کرنے کی نیت سے کچھ بھی خریدنا بے عقلی کی علامت ہے۔ بازار میں اگر غیر معمولی ورائٹی پائی جاتی ہو تو خریداری مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ انسان چمک دمک میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ ایسے میں ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ محض اپنا دل خوش کرنے کی نیت سے خریداری کی جاتی ہے۔ جب ضرورت کو بھلاکر خریداری کی جائے تو زیادہ اور غیر متعلق خریداری کی جاتی ہے۔ فی زمانہ ہم معلومات کے سمندر میں ڈبکیاں لگارہے ہیں۔ کچھ لوگ ڈبکیاں لگاتے لگاتے ڈوب بھی جاتے ہیں۔ اس میں حیرت کیسی؟ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
آج کل یہی ہو رہا ہے۔ آج کے انسان کو ہر طرف سے آنے والی معلومات کا سامنا ہے۔ بہت سی معلومات غلط اور گمراہ کن بھی ہوتی ہیں۔ اِتنا وقت بھی کسی کے پاس نہیں کہ ہر بات کی تصدیق کرتا اور کرواتا پھرے۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ جو کچھ بھی میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے اُس تک پہنچتا ہے اُسے جوں کا توں ہضم کرنے پر تلا رہتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں ہاضمے کا خراب ہو جانا فطری امر ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں بہت کچھ اگرچہ ہماری مرضی کا ہے نہ ہمارے کام کا مگر پھر بھی ہماری زندگی کا حصہ بنا ہوا ہے۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا بہت کچھ اپنانے پر مجبور ہیں جس کا ہماری زندگی سے کوئی تعلق ہے نہ ربط۔ ایسا اس لیے ہے کہ ماحول ہی کچھ ایسا بن گیا ہے کہ بہت کچھ ہماری زندگی میں داخل ہوتا رہتا ہے۔ جو کچھ ہمارے لیے کسی کام کا نہیں اُس سے بچنا لازم ہے مگر یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہوسکتا۔ معلومات کا ہم تک پہنچنا تو بہت حد تک خود بخود والا معاملہ ہے مگر اُس سے بچنے کے لیے ہمیں شعوری کوشش کرنا ہوگی۔ یہ شعوری کوشش اُسی وقت ممکن ہے جب ہم اس حوالے سے سنجیدہ ہوں، سوچیں، کوئی فیصلہ کریں اور اُس فیصلے کو عملی جامہ بھی پہنائیں۔
مین سٹریم اور سوشل میڈیا کے ذریعے روزانہ ایسا بہت سا مواد ہم تک پہنچتا ہے جو کسی بھی درجے میں ہمارے لیے مفید نہیں ہوتا۔ اور مفید تو کیا‘ متعلق بھی نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو انفارمیشن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ دھارا جہاں چاہتا ہے ہمیں لے جاتا ہے۔ جب ہوش آتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ تماشے آپ کو قدم قدم پر ملیں گے۔ لوگ میڈیا اور حالات کے دھارے پر سوار ہوکر کہیں سے کہیں جا نکلتے ہیں اور پھر روتے ہیں۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس کی اول و آخر ذمہ داری ہم پر ہی ہے۔ حتمی تجزیے میں تو ہم ہی جواب دہ ہیں۔ بہت سے معاملات میں ہم قصور وار نہیں ہوتے مگر بہت حد تک ذمہ دار ضرور ہوتے ہیں۔ جو لوگ اس نکتے کو سمجھنے میں کامیاب رہتے ہیں وہی بیشتر معاملات میں کامیاب رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے لیے خود سوچنا ہے، لائحۂ عمل طے کرنا ہے اور اُس لائحۂ عمل کے تحت جینا ہے۔ اِتنا کرنے کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کرم ہے کہ وہ ہمیں حالات کو سمجھنے اور اپنے لیے ممکنہ حد تک بہترین راہِ عمل متعین کرنے کا شعور عطا فرماتا ہے۔
آج کے انسان نے اپنے ذہن کو کباڑ خانے میں تبدیل کرلیا ہے۔ جس طور کسی کباڑ خانے میں طرح طرح کی چیزیں بھری ہوتی ہیں اور الجھنوں میں اضافے کا باعث بنتی ہیں بالکل اُسی طور آج کے انسان بھی ذہن اعتبار سے چلتے پھرتے کباڑ خانے ہیں۔ لوگ ہر طرح کی سکرین پر نمودار ہونے والے بہت سے مواد کو کسی جواز کے بغیر اپنے ذہنوں میں انڈیلتے رہتے ہیں۔ ذہن کا بنیادی کام حاصل شدہ معلومات کا تجزیہ کرکے کسی فیصلے یا نتیجے تک پہنچنا اور متعلقہ فرد کو معیاری لائحۂ عمل کے ذریعے کسی بھی سمت ڈھنگ سے متحرک ہونے کی گنجائش فراہم کرنا ہے۔ ذہن بھرا ہوا ہو تو اپنا کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتا۔ آج کے انسان نے طے کرلیا ہے کہ ذہن کو بھرتے رہنا ہے، اِس میں سے کچھ حذف نہیں کرنا۔ ذہن میں معلومات کے نام پر دنیا بھر کا بے ڈھنگا مواد انڈیلا جاتا رہے تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ذہن اپنا کام کرنے سے انکار کردیتا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اُس میں کام کرنے کی سکت ہی باقی نہیں رہتی۔ آج کے انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ماحول میں پائی جانے والی باتوں میں سے بہت کچھ غیر محسوس طور پر اُس کی ذہنی ساخت کا حصہ بنتا جاتا ہے اور‘ شعوری کوشش نہ کرنے کی صورت میں‘ وہ اس حوالے سے کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ وہ زمانہ گیا جب ہمیں کوئی بھی چیز اُس وقت معلوم ہو پاتی تھی جب ہم اُسے معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اب بہت کچھ خود بخود ہو رہا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، بہت کچھ ہم تک پہنچتا رہتا ہے، ہماری سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے ذہن کے کباڑ خانے میں تبدیل ہونے کا عمل قبول کرلیا ہے۔
آج ہر طرح کے ذرائع ابلاغ کے ذریعے جو کچھ ہم تک پہنچ رہا ہے وہ ایک سیلِ بلا کا درجہ رکھتا ہے اور اِس کے آگے بند باندھنا ہم پر لازم ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم طے کریں کہ ہمیں اپنے ذہن کو کباڑ خانے میں تبدیل نہیں ہونے دینا۔ ذہن ہمارے وجود کا انتہائی بنیادی اور کلیدی جز ہے۔ اِس کی خراب کارکردگی ہمارے پورے وجود کو داغ دار کرتی ہے۔ ذہن کا واضح رہنا ہمارے لیے ناگزیر ہے کیونکہ اِسی صورت ہم ضرورت کے مطابق فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ ذہن بھرا ہوا ہو تو تجزیہ کرنے کی مہارت متاثر ہونے لگتی ہے۔ بہت سی فضول معلومات ذہن کو الجھاتی رہتی ہیں۔ ذہن کا یوں الجھے رہنا فیصلوں تک پہنچنے کی راہ میں دیواریں کھڑی کرتا رہتا ہے۔ یہ حقیقت کسی بھی طور نظر انداز نہ کی جائے کہ ہم جس عہد میں زندہ ہیں وہ ہر اعتبار سے امتحانی زمانے کا درجہ رکھتا ہے۔ آج کی دنیا میں قدم قدم پر امتحان ہے‘ آزمائش ہے۔ اور سب سے بڑی آزمائش ذہن کی ہے۔ ذہن کو منتشر حالت میں رہنے سے بچانا ہر انسان کے لیے لازم ہوچکا ہے۔ جو لوگ اس حوالے سے سنجیدہ ہوں گے وہی فائدے میں رہیں گے۔ یہ سب کچھ ایسا آسان بھی نہیں کہ کوئی فیصلہ کرے اور ہو جائے۔ اس حوالے سے پوری ذہنی تیاری کرنا پڑتی ہے۔
آج دنیا بھر میں شخصی ارتقا کے ماہرین عام آدمی کی راہ نمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں کہ وہ اپنے اپنے ذہن کو کباڑ خانے میں تبدیل ہونے سے روکیں، انفارمیشن کے سیلِ بلا کے آگے بند باندھنا سیکھیں۔ اس کے لیے غیر معمولی قوتِ ارادی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ بہت حد تک ضبطِ نفس کا معاملہ ہے۔ آج کا انسان انفارمیشن کے ہر ریلے کے آگے خود کو بے بس خیال کرتا ہے اور دھارے کے رُخ پر بہتے جانے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔ یہ شدید نوعیت کی ذہنی کجی اور شخصی خامی ہے۔ ماحول اس لیے ہوتا ہے کہ اُس کا حصہ بن کر رہا جائے، اِس لیے نہیں ہوتا کہ اپنے وجود کو اُس کے حوالے کردیا جائے اور اپنے تمام فیصلوں کا اختیار بھی اُسے سونپ دیا جائے۔ آج ہم نے ذرائع ابلاغ کو سبھی کچھ تسلیم کرتے ہوئے اُس کی چوکھٹ پر سَر جھکادیا ہے۔ یہ روش انتہائی خطرناک بلکہ تباہ کن ہے۔ ذہن کو ہر جگہ سے میسر آنے والے مواد کا کباڑ خانہ بننے دینا کیا گل کھلاتا ہے یہ آپ اپنے ماحول میں بہت سوں کی زندگی پر نظر ڈال کر سیکھ سکتے ہیں۔