بعض الفاظ اپنی ذات میں معانی کی ایک دنیا رکھتے ہیں۔ ممبئی میں بول چال کی زبان ایسے بہت سے الفاظ کی حامل ہے جو اپنے آپ میں معانی کی دنیا کے حامل ہیں۔ ''مَچ مَچ‘‘ بھی ایسا ہی لفظ ہے۔ اگر کوئی بحث کر رہا ہو، مان کر نہ دے رہا ہو تو کہا جاتا ہے: زیادہ مَچ مَچ نہیں کرنے کا، اگر کچھ زیادہ ہی خرابی کا سامنا ہوا تو کہا جاتا ہے: واٹ لگ گئی۔ یہ تمام الفاظ اگرچہ عام بول چال کے مگر بہت حد تک ''بازاری‘‘ ہیں؛ تاہم اپنے مفہوم کو عمدگی سے اور بھرپور طور پر ادا کرتے ہیں اور زبان کی دال میں تڑکے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ''فنڈا‘‘ بھی ایسا ہی لفظ ہے۔ ہے تو یہ انگریزی کا لفظ یعنی فنڈامینٹل کو اختصار کے ساتھ فنڈا کہا جاتا ہے مگر جو مزہ فنڈا میں ہے‘ وہ فنڈامینٹل میں کہاں! اور ویسے بھی فی زمانہ ایسے ہر لفظ کے بولنے سے گریز کیا جائے جس میں ''مینٹل‘‘ آتا ہو! کیونکہ کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ فنڈامینٹلز کا خیال رکھتے رکھتے لوگ کب مینٹل ہو جائیں! تفنّن برطرف‘ حقیقت یہ ہے کہ بہت کچھ ہے جو ''لائف کا فنڈا‘‘ ہے۔ ہمیں وہ عہد ملا ہے جس میں سبھی کچھ اپنے مقام سے ہٹا ہوا ہے۔ معیشت میں سب کچھ ٹھیک ہے نہ معاشرت میں۔ اخلاقی اقدار و روایات اپنے مقام پر دکھائی دے رہی ہیں نہ ثقافتی محاذ پر شکست سے بچنے کی گنجائش بچی ہے۔ سبھی کچھ اِدھر کا اُدھر ہوگیا ہے۔
لائف کا فنڈا پھر کیا ہوا؟ ایسا بہت کچھ ہے جسے ہم لائف کا فنڈا یعنی زندگی کا بنیادی اصول قرار دے کر خوش اور مطمئن ہوسکتے ہیں مگر کیا ایسا کرنے سے اس معاملے کا حق ادا ہوسکتا ہے؟ یقینا نہیں۔ آج لائف کا فنڈا ہے کیا؟ بات یہ ہے کہ اب زندگی بسر کرنے کا ہنر سیکھنا، لائف کو فنڈا سمجھنا ہی لائف کا سب سے بڑا فنڈا ہے۔ اب زندگی بسر ہو نہیں سکتی‘ کرنا پڑتی ہے۔ ویسے تو خیر عہد میں ڈھنگ سے جینے کے لیے شعوری سطح پر بہت کچھ کرنا پڑتا تھا۔ بے لگام زندگی کبھی ڈھنگ سے بسر نہیں ہو پاتی۔ گزرے تمام ادوار کی عمومی زندگی کا جائزہ لیجیے گا تو آپ اِسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ صرف وہی لوگ کامیاب ہو پائے جنہوں نے زندگی کو سنجیدگی سے لیا، اُس کے مبادیات کو سمجھنے کی کوشش کی، اُس کا حق ادا کرنا چاہا۔ محض جیے جانے کو کبھی زندگی قرار نہیں دیا گیا۔ ہر عہد کے اہلِ دانش نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ زندگی سوچ سمجھ کر، پورے توازن کے ساتھ بسر کی جائے تاکہ وہ سب کچھ کیا جاسکے جو آپ کرنا چاہتے ہیں اور وہ سب کچھ مل پائے جو آپ حاصل کرنے کی متمنی ہیں۔
اگر ایسا ہے تو آج کا دور منفرد کس اعتبار سے ہے؟ گزشتہ تمام ادوار میں انسان زندگی کے حوالے سے زیادہ سنجیدہ ہوئے بغیر بھی کسی نہ کسی طور جی ہی لیتا تھا اور بہت کچھ کرنے اور پانے میں بھی کامیاب ہو جاتا تھا۔ فی زمانہ معاملہ اس اعتبار سے مختلف ہے کہ اب انسان کے پاس زندگی کے حوالے سے سنجیدہ نہ ہونے کا آپشن بچا ہی نہیں۔ آج کی زندگی مختلف حوالوں سے غیر معمولی سنجیدگی کی طالب ہے۔ یہ سنجیدگی ہی تو ہے جو زندگی کا حق ادا کرنے کی طرف مائل کرتی ہے۔
آج زندگی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ زندگی کو کسی بھی مرحلے میں نظر انداز نہ کیا جائے، کسی بھی اہم معاملے کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔ ہر عہد نے کچھ آسانیاں دی ہیں تو کچھ مشکلات۔ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ گزشتہ تمام ادوار سے انتہائی مختلف ہے۔ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اب تک کے تمام ادوار نے جو کچھ سوچا اور کیا اُس کا مجموعہ آج ہمارے سامنے ہے۔ تمام ادوار کی ذہانت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر ہمیں مستفیض ہونے کی دعوت دے رہی ہے۔ علم و فن کی دنیا کے پروان چڑھنے کی جتنی گنجائش آج ہے‘ پہلے کبھی نہ تھی۔ پھر بھی علم و فن سے زیادہ جہالت پروان چڑھ رہی ہے! یہ تو بہت ہی عجیب بات ہوئی۔ ہے نا؟ ایسا کیوں ہے؟ یہ سوال اہم ہے۔ علم و فن کے پروان چڑھنے کی رفتار گھٹی نہیں بلکہ بڑھی اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ معاملہ مادّی سطح سے بلند نہیں ہو رہا۔ روحانی اور باطنی علوم و فنون کے پنپنے کی گنجائش گھٹتی جارہی ہے۔ لوگ اِس طرف مائل نہیں ہو رہے۔ اُنہوں نے مادّیت ہی کو سب کچھ سمجھ کر اُسی کی چوکھٹ پر جھکے رہنے کی ٹھان لی ہے۔
آج زندگی کا بنیادی مقصد مکمل اُسی وقت ہوسکتا ہے جب زندگی بسر کرنے کا ہنر سیکھنے کی طرف متوجہ ہوا جائے۔ جس طور کسی ادارے کو چلانے کے لیے جنرل منیجر ہوا کرتا ہے بالکل اُسی طور آج ڈھنگ سے جینے کے لیے ہر انسان کو اپنا منیجر بننا ہے۔ ایسا کیے بغیر ڈھنگ سے جینے کا تصور بھی محال ہے۔ کسی کی نظر میں آج کی زندگی بیلنسنگ ایکٹ ہے اور کسی کے نزدیک یہ منیجنگ ایکٹ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ انگریزی کا مصدر manage بہت خوب ہے۔ یہ بہت سے مفاہیم ادا کرسکتا ہے۔ ایک واضح مفہوم کسی بھی صورتِ حال پر تصرف پاکر اُسے اپنے حق میں بروئے کار لانے کا بھی ہے۔ سرکس میں کام کرنے والے کرتب باز اپنے اپنے معاملے کو مینج کرتے ہیں۔ کوئی ایک جھولے سے دوسرے جھولے کی طرف کودنے کو مینج کرتا ہے تو کوئی بیک وقت تین چار گیندوں کو تواتر سے اُچھالنے کے عمل کو مینج کرتا ہے۔
کسی ادارے کا منیجر دراصل تمام شعبوں کو قابو میں رکھتا ہے، اُنہیں ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے روکتا ہے اور ہر ایک کی کارکردگی کا گراف بلند کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اب لائف مینجمنٹ کا مرحلہ در پیش ہے اور یہ مرحلہ ہر انسان کو درپیش ہے۔ کسی کے لیے کوئی رعایت نہیں۔ کوئی بھی اِس مرحلے سے گزرے بغیر حقیقی کامیابی یقینی نہیں بناسکتا۔
وقت اور حالات نے انسان کو کبھی اتنے بڑے چیلنج سے دوچار نہیں کیا تھا۔ ہر دور میں تساہل کی گنجائش رہی ہے مگر آج یہ گنجائش بالکل ختم ہوچکی ہے۔ گزشتہ ادوار میں گرنے والے دوبارہ اٹھنے میں زیادہ وقت نہیں لیتے تھے۔ آج انسان گرے تو سمجھیے گیا کام سے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ ہر چیز کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ ترقی کی رفتار بھی بہت ہے اور پستی کی رفتار بھی کم نہیں۔ ایک غلط قدم پڑا اور انسان دوڑ سے باہر ہوا۔ فی زمانہ لائف کا فنڈا سمجھنا اور اُس کا حق ادا کرنا ترقی کے لیے لازم ہے۔ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ منظم رکھنے کا ہنر خود بخود نہیں آ جاتا، سیکھنا پڑتا ہے۔ اب یہ ہنر سیکھنا ہر اُس انسان کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے جو عام ڈگر سے ہٹ کر چلنا چاہتا ہو، کچھ کرنے کا متمنی ہو، کچھ پانے کی آرزو رکھتا ہو۔ ہم اُس عہد کے مقدر میں لکھے گئے ہیں جو صرف اور صرف مسابقت سے عبارت ہے۔ قدم قدم پر مقابلہ درپیش ہے۔ جسے کچھ کر دکھانا ہے اُسے مقابلے کے لیے میدان میں آنا ہی پڑے گا۔ عمومی سی یعنی برائے نام زندگی بسر کرنے کا آپشن ہر دور میں رہا ہے مگر اب نہیں رہا۔ آج بے عمل رہنے کی گنجائش برائے نام ہے۔ گزشتہ ادوار میں بے عمل رہتے ہوئے نچلی سطح پر زندہ رہنے کا آپشن رہتا تھا۔ اب یہ آپشن چھن چکا ہے۔ جسے جینا ہے اُسے ڈھنگ سے جینا ہے یا پھر نہیں جینا۔ آنے والا دور جہالت و تساہل کی زندگی بسر کرنے کے شوقینوں کو بھکاری کی حیثیت سے جینے کے قابل بھی نہ چھوڑے گا۔ ہمیں نصیب ہونے والا عہد رفتہ رفتہ عفریت میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ عفریت کا کام فریقِ ثانی کو صرف ختم کرنا نہیں بلکہ مٹانا بھی ہوتا ہے۔ کوئی بھی عفریت محض مارتا نہیں، نگل بھی لیتا ہے، نام و نشان تک مٹادیتا ہے۔ تو جناب آج لائف کا فنڈا یعنی زندگی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اپنے شب و روز پر پوری طرح توجہ دی جائے، ایک ایک لمحے سے کچھ نہ کچھ مثبت کشید کیا جائے، نظم و ضبط کے دائرے میں رہتے ہوئے عمل پسند رویہ اپنایا جائے تاکہ وقت، توانائی اور سرمایے کا بہترین ثمر حاصل ہو۔