بھولنے کی بیماری بھی خوب نعمت ہے۔ اگر سبھی کچھ یاد رہے تو جینا حرام ہو جائے۔ حافظے کا حصہ بننے والی بہت سی باتیں اگر ہم دانستہ یا نادانستہ بھول نہ جائیں تو ایسے مسائل جنم لیں کہ قدم قدم پر صرف الجھنیں ہوں۔ بہت کچھ محض اس لیے ہوتا ہے کہ ہم بھول جائیں۔ اگر سبھی کچھ یاد رکھا جائے تو حافظہ محض کباڑ خانہ ہوکر رہ جائے۔ حافظے کو ڈپارٹمنٹل سٹور کی طرح ہونا چاہیے جس میں تمام چیزیں سلیقے سے رکھی ہوتی ہیں کہ جب بھی کچھ درکار ہو تو ہاتھ بڑھائیے اور لے لیجیے۔ حافظے کو محض گودام بنانا اُتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا خطرناک اِسے کچرا کنڈی کی حیثیت دینا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم زندگی بھر بہت سے معاملات میں محض اس لیے الجھے رہتے ہیں کہ حافظے کو ترتیب دینے کے ہنر سے بخوبی واقف نہیں ہو پاتے۔
پہلے قدم پر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس دنیا کا کوئی بھی ہنر خود بخود نہیں آ جاتا، سیکھنا پڑتا ہے۔ جن لوگوں کو آپ پیدائشی قابل سمجھتے ہیں وہ بھی ہماری اور آپ کی طرح محض باصلاحیت ہوتے ہیں‘ قابل نہیں۔ کسی بھی شعبے میں دلچسپی لینا اور بات ہے اور اُس شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے درکار قابلیت پیدا کرنا اور بات۔ جو لوگ اس فرق کو سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہی حقیقی کامیابی یقینی بنا پاتے ہیں، اُنہی کو نام اور دام‘ دونوں ملتے ہیں۔ کسی بھی شعبے کے کامیاب ترین افراد کے بارے میں پڑھ کر دیکھیے۔ آپ بالآخر اِسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ محض باصلاحیت ہونا اور تھوڑی بہت دلچسپی کا حامل ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے، صلاحیت کو پروان چڑھاکر قابلیت میں تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ ہنر مندی یہی تو ہے کہ انسان کسی بھی شعبے کی مبادیات سے پوری طرح واقف ہو، اپنے حصے کا کام اچھی طرح جانتا ہو اور ضرورت پڑنے پر کسی بھی چیلنج سے کماحقہٗ نمٹنے کی اہلیت اپنے اندر پائے۔ حافظے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ کچھ لوگوں کو آپ ایسی حالت میں پائیں گے کہ اُنہیں کچھ بھی یاد نہیں کرنا پڑتا یعنی بہت کچھ ہمہ وقت یاد رہتا ہے۔ اگر کسی معاملے میں کچھ پوچھئے تو وہ جھٹ بتادیتے ہیں۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنے ذہن میں دنیا میں دنیا بھر کی باتیں نہ بھرتا پھرے۔ جب ہم اپنے ماحول سے سبھی کچھ قبول کر رہے ہوتے ہیں تب ذہن بھرتا چلا جاتا ہے۔ ذہن کا بھرنا یعنی حافظے کا بوجھل ہوتے جانا۔ جب بہت کچھ حافظے کا حصہ بن رہا ہوتا ہے تب کسی بھی خاص معاملے میں کام کی باتیں آسانی سے یاد رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ حافظے میں گنجائش تو بہت ہوتی ہے مگر جو کچھ ہم حافظے کے حوالے کرتے ہیں اُسے ترتیب سے رکھنا اور ضرورت کے مطابق کسی بھی بات کو یاد کرنا ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔ لوگ عمومی سطح پر یاد رہنے (remember) اور یاد کرنے (recall) کا فرق نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ دونوں معاملات بالکل مختلف ہیں۔ آپ کے حافظے میں بہت کچھ ہوتا ہے مگر سب کچھ آپ کو دستیاب نہیں ہوتا بلکہ ضرورت پڑنے پر یاد کرنا پڑتا ہے۔ تب اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے ہی حافظے پر ظلم ڈھایا ہے۔ حافظے میں معلومات بھرتے چلے جانے کی گنجائش تو بہت ہے مگر ضرورت کے مطابق کوئی بھی بات فوری یاد آجائے یہ الگ معاملہ ہے۔ اگر مشاہدہ اور مطالعہ معقول و متوازن نہ ہو تو حافظہ محض بوجھل ہوتا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے معاملات کو اِس میں انڈیلتے رہنے کا کچھ حاصل نہیں۔ اِس کے نتیجے میں ذہن کی کارکردگی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ حافظے کا بوجھل ہونا ذہن کی تجزیے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوکر ہماری کارکردگی کا گراف نیچے لاتا ہے۔ ایسے میں ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ کسی بھی صورتِ حال کے پیدا کردہ چیلنج کا ڈھنگ سے سامنا کرتے ہوئے اطمینان بخش کارکردگی یقینی بنائیں۔
بہت کچھ ہے جو ہمیں یاد رکھنا ہے اور اُس سے زیادہ کہیں زیادہ وہ ہے جو ہمیں بھول جانا ہے۔ جو کچھ ہمیں‘ منطقی طور پر‘ یاد رکھنا ہوتا ہے وہی ہمارے کام کا ہوتا ہے۔ اِس حوالے سے شعوری تیاری ناگزیر ہے۔ کسی بھی ماحول میں کم ہی لوگ اس طرف کماحقہٗ متوجہ ہوتے ہیں۔ عمومی سطح پر لوگ حافظے کی تنظیم کا حق ادا کرنے کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ امتحان کی تیاری کے لیے طلبہ جس انداز سے محنت کرتے ہیں بالکل اُسی انداز کی محنت ہمیں زندگی بھر درکار ہوتی ہے۔ یہ معاملہ کسی بھی سطح پر ایسا نہیں کہ نظر انداز کردیا جائے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ دنیا میں کچھ بھی خود بخود نہیں ہوتا؟ ہمیں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ اول و آخر تو قدرت ہی کی کاریگری ہے۔ اِس تصور سے ہٹ کر بھی دیکھیے تو جو کچھ ہم نے کیا ہے وہ الگ ہے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت و رحمت سے ہو رہا ہے وہ بھی نمایاں ہے۔ بعض پودے خود رَو ہوتے ہیں۔ اور دوسری طرف بہت کچھ ایسا ہے جو ہماری محنت کے نتیجے میں زمین کے سینے سے باہر آتا ہے۔ ہم محض اس لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے کہ بہت کچھ قدرت کی طرف سے ہو جائے گا۔ قدرت اپنی جگہ مگر اُسی کی طرف سے ہمیں محنت کے حوالے سے تاکید بھی کی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص زمین کھود کر بیج ڈال دے اور پھر پانی بھی دے تو ایک مقررہ وقت پر کونپل پھوٹے گی اور پودا اُگے گا ضرور مگر وہ ڈھنگ سے پروان اُسی وقت چڑھ سکے گا جب ہم اُس پر متوجہ رہیں گے۔ جس طور کوئی پودا ہماری توجہ کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتا اُسی طور حافظہ بھی ہماری توجہ کے بغیر منظم نہیں ہوسکتا۔
حافظہ محض اس بات کا نام نہیں کہ ہم بہت سے معاملات میں طرح طرح کی معلومات جمع کریں اور اُنہیں اپنے حافظے میں اُنڈیل لیں۔ سوال معلومات کو محض جمع کرنے کا نہیں بلکہ معقول طریقے سے اُن کی تنظیم و تدوین کا ہے۔ حافظے کی تنظیم و تدوین پر بھرپور توجہ دی جاتی رہے تو وہ ڈپارٹمنٹل سٹور کی طرح منظم رہتا ہے۔ کوئی بھی کمرہ سکونت کے قابل اُس وقت ہوتا ہے جب وہ ہوادار ہو، اُس میں سبھی کچھ ترتیب سے رکھا ہو اور صفائی کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہو۔ اگر سامان بے ترتیب ہو تو بڑا کمرہ بھی چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ اگر اُس میں غیر ضروری چیزیں بھری ہوں تو وہاں سکونت اختیار کرنے والے کا ذہن الجھا رہتا ہے۔
آج ایسا بہت کچھ ہے جو ہر وقت ہمارے حافظے پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے اَن چاہا مواد ہمارے حافظے کا حصہ بن کر ہماری ذہنی و فکری ساخت کو تہس نہس کرنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ یہ سبھی کچھ لاشعوری یا نادانستہ کیفیت کا حامل نہیں۔ اِس میں کچھ معاملات شعوری بھی ہیں یعنی پوری کوشش کی جارہی ہے کہ آپ کا حافظہ بوجھل ہو، ذہن بھی بھاری ہو جائے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے بہت حد تک محروم ہو جائے۔ ایسے میں آپ پر لازم ہے کہ حافظے کو بوجھل ہونے سے بچائیں تاکہ ذہن کو درکار تمام باتیں آسانی سے دستیاب ہوں، اُن تک رسائی آسان ہو۔
اکیسویں صدی سر بسر چیلنج ہے۔ آپ کسی بھی معاملے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ قدم قدم پر الجھنیں ہیں اور الجھنیں بھی ایسی کہ صرفِ نظر ممکن ہی نہیں۔ بعض معاملات کو آپ نظر انداز کیجیے تو بہت تیزی سے آپ کی حسی اور نفسی صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ عام آدمی بہت سے ایسے معاملات میں الجھ کر رہ گیا ہے جن کا اُس کی معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ زندگی کا سفر کسی بھی دور میں آسان نہ تھا مگر اب تو یہ باضابطہ جدوجہد کا درجہ رکھتا ہے۔ آج ڈھنگ سے جینے کا مطلب ہے جنگ لڑنا۔ یہ جنگ آپ اُسی وقت لڑسکتے ہیں جب آپ کے پاس مطلوب ہتھیار بھی ہوں اور لڑنے کا جذبہ بھی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یاد رکھیے کہ اب جنگ بھی بدل چکی ہے اور ہتھیار بھی۔ آج جنگ تلوار یا بندوق سے نہیں بلکہ کی بورڈ کے ذریعے لڑی جارہی ہے۔ بات مواد سے شروع ہوکر مواد ہی پر ختم ہو رہی ہے۔ ایسے میں آپ کو سمجھنا ہوگا کہ آپ کا حافظہ مواد کا ڈپارٹمنٹل سٹور ہو نہ کہ گودام یا کچرا کنڈی۔