آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے وہ ذہن میں جمع ہوتا ہے، فکری ساخت کا حصہ بنتا ہے اور ہمارے افکار و اعمال پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بالکل اِسی طور جو کچھ ہم سنتے یا پڑھتے ہیں وہ بھی ذہن میں جمع ہوتے ہوتے ہماری فکری ساخت کو متاثر کرتا جاتا ہے۔ یہ فطری اور قدرے غیر محسوس عمل ہے۔ کم ہی لوگ اس حوالے سے سنجیدہ ہوکر سوچتے ہیں اور اپنے آپ کو غیر ضروری باتوں سے بچانے کا اہتمام کر پاتے ہیں۔
دنیا بھر کی جو معلومات ہم تک پہنچتی ہیں کیا اُن سب سے استفادہ ناگزیر ہے؟ اس سوال کا جواب صرف نفی میں ہوسکتا ہے۔ بہت سی باتیں اگرچہ بہت کام کی ہوتی ہیں مگر ہمارے کسی کام کی نہیں ہوتیں یا ہماری کارکردگی کا گراف بلند کرنے میں اُن باتوں کا خاص کردار نہیں ہوتا۔ ہم جو معلومات حاصل کرتے ہیں یا جو معلومات ہم تک پہنچ جاتی ہیں اُن کا پوری سنجیدگی سے جائزہ لینا، انہیں انتخاب کے مرحلے سے گزارنا اور صرف کام کی باتوں کو ذہن میں سینت کر رکھنا لازم ہے۔ باقی جو کچھ بھی ہے وہ ایک طرف ہٹادینا چاہیے۔ یہ کام ہمیں مستقل بنیاد پر کرنا ہے کیونکہ ذہن میں بہت کچھ جمع ہوتا رہتا ہے۔ حواس ہمیں بہت سی معلومات تک پہنچاتے رہتے ہیں لیکن ہمیں اِن معلومات سے کام کی باتیں کشید کرنے کا ہنر آنا چاہیے۔
یہ تو ہوا معلومات سے کام کی باتیں کشید کرنے کا معاملہ۔ بہت سے لوگ اس مرحلے ہی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ اِس سے ہٹ کر بھی ایک معاملہ ہے جو زیادہ اہم ہے۔ ہم زندگی بھر بہت سی شخصیات سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ کسی بھی شعبے کی نمایاں شخصیات ہم پر اثرات مرتب کیے بغیر نہیں رہتیں۔ شوبز کی شخصیات کا معاملہ بہت نمایاں ہے۔ اداکار، گلوکار، موسیقار، نغمہ نگار، کہانی و منظر نگار اور دوسرے بہت سے تکنیکی ماہرین شوبز کو ایک ایسی دنیا میں تبدیل کرتے ہیں جو ہمارے سامنے ہوتی تو ہے مگر در حقیقت نہیں ہوتی۔ یہی تو سکرین کا جادو ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا کو ہمارے آنکھوں کے سامنے رکھ دیتی ہے جس کا حقیقی وجود نہیں ہوتا مگر ہم اُس سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں پاتے۔ شوبز کی شخصیات عام آدمی کی نفسی ساخت پر زیادہ تیزی سے اثر انداز ہوتی ہیں۔ بھرپور چمک دمک والی یہ مصنوعی دنیا عام آدمی کو حقیقی زندگی کی حدود سے نکال کر خیال و خواب کے ایک ایسے جہاں میں پہنچادیتی ہے جس میں کچھ بھی حقیقی نہیں ہوتا مگر یہ مزہ بہت دیتا ہے۔ جب یہ مزہ ختم ہوتا ہے تب معلوم ہوتا ہے کہ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
ہمیں اپنے ماحول میں ایسا بہت کچھ ملتا ہے جو کسی نہ کسی سطح پر کچھ کرنے کی تحریک دے رہا ہوتا ہے۔ کسی مشہور شخصیت کو دیکھ کر بھی ہم متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ کسی بڑے ٹورنامنٹ کے فائنل میں قومی ٹیم کی بھرپور کارکردگی بھی ہمیں کسی اور دنیا میں پہنچادیتی ہے۔ کوئی بڑی فلم دیکھ کر ہم اپنی دنیا میں نہیں رہتے اور ایک ایسی دنیا میں قدم رکھ دیتے ہیں جو اُس فلم کے ہاتھوں ہمارے ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔ کوئی بھی شاندار گانا سن کر آپ اپنے آپ میں نہیں رہتے، کہیں اور پہنچ جاتے ہیں۔ کوئی اچھی کہانی یا ناول پڑھ کر بھی آپ کچھ دیر کے لیے اپنی یعنی حقیقی دنیا سے بہت دور کسی اور جزیرے پر جا بستے ہیں۔ کسی نہ کسی چیز، بات، واقعے یا شخصیت سے اثر قبول کرنے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ جب تک دم میں دم ہے‘ تب تک یہ سب کچھ ہے۔ ہر معیاری کام ہمیں کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے، کچھ نہ کچھ سیکھنے کی تحریک دیتا ہے۔ ہر معیاری تخلیق ہمیں بلند ہونے کی تحریک اور حوصلہ دیتی ہے۔ ہم بھی دنیا کو کچھ نہ کچھ دیتے ہیں۔ یہ لین دین ہی زندگی کا حُسن ہے۔
کسی بھی شخصیت سے کچھ سیکھنے کی تحریک کا ملنا بہت اچھی بات ہے۔ مختلف شعبوں کی کامیاب ترین شخصیات سے ہم بہت کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ یہ سیکھنا تحریک کی صورت میں بھی ہوتا ہے اور اُس سے ایک دو قدم آگے جاکر بھی۔ کسی کامیاب اداکار کو دیکھ کر ہم کامیاب ہونے کی تحریک پاتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو اداکاری کے گر سیکھتے ہیں۔ کسی گلوکار کا فن ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے اور کسی حد تک گانا بھی سکھا دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی کامیاب شخصیت سے متاثر ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ہم اُس کے شعبے کو اپنالیں؟ یہ لازم نہیں! ایسا نہیں ہوتا۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ کسی بھی کامیاب شخصیت کے بارے میں جاننے سے ابتدائی مرحلے میں یا بدیہی طور پر جو تحریک ملتی ہے وہ زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے ہوتی ہے۔ لازم نہیں کہ ہم کسی اداکار کی کامیابی کے سفر سے متعلق پڑھیں تو اداکار بننے ہی کی ٹھان لیں۔ کسی گلوکار سے متاثر ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم بھی راگ رنگ کی دنیا میں کھو جائیں۔ کسی مصنف کے حالاتِ زندگی پڑھ کر اُس سے کچھ کرنے کی تحریک پانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم بھی قلم تھام کر تصنیف و تالیف کی دنیا میں قدم رکھ دیں۔ کسی بھی شعبے کی نمایاں اور کامیاب شخصیت سے متاثر ہونے اور اُس شعبے کو اپنانے میں بہت فرق ہے۔ عام طور پر لوگ اس فرق کو نظر انداز کردیتے ہیں اور پھر اِس کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔ کسی اداکار سے متاثر ہوکر اداکاری کی طرف مائل ہونے یا ہر وقت اداکاری کے بارے میں سوچنے والے بالعموم اُس شعبے میں بھی کچھ کر دکھانے کے قابل نہیں رہتے جس میں وہ قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔
ہم میں سے ہر ایک کو پہلے مرحلے میں یہ طے کرنا ہے کہ ہماری حقیقی دلچسپی کس شعبے میں ہے۔ دوسروں کی بھرپور کامیابی دیکھ کر اُن جیسا بننے کا سوچنا غلط ہے۔ کسی کامیاب اداکار کو دیکھ کر اداکار بننا لازم نہیں۔ ہمیں اُس کی کامیابی سے یہ سیکھنا ہے کہ وہ اِس مقام تک کیسے پہنچا اور دولت و شہرت کی منزل تک رسائی کیونکر ممکن ہوئی۔ کسی بھی شعبے کی کامیاب اور معروف شخصیات یہی چاہتی ہیں کہ اُن سے کچھ بہتر کرنے کی تحریک حاصل کی جائے نہ کہ اُن جیسا بننے کی کوشش کی جائے۔ ایک کامیاب مصنف جب ہمیں اپنے بارے میں بتاتا ہے تب ہمیں معلوم ہو پاتا ہے کہ کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے لیے کتنی چوٹیاں سر کرنا پڑتی ہیں، کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ معروف شخصیات کی خود نوشت ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم کس طور پوری توجہ کے ساتھ زیادہ محنت کرکے اپنے شعبے میں نمایاں مقام تک پہنچ سکتے ہیں۔ کسی بھی شخصیت کی تشکیل کے مراحل کے بارے میں پڑھ کر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کون کون سی غلطیوں سے بچنا ہے اور کن معاملات پر زیادہ متوجہ رہنا ہے۔ بڑی شخصیات ہمیں بتاتی ہیں کہ عمومی سطح سے بلند ہونا کیا معنی رکھتا ہے اور یہ سب کچھ ممکن بنانے کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ نئی نسل کو یہ بات خاص طور سمجھنی چاہیے کہ کسی بھی معروف شخصیت سے متاثر ہوکر اُس کا شعبہ اپنانے میں دانش مندی نہیں ہے۔ کسی کی کامیابی ہمیں تحریک اور حوصلہ دینے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ نقالی پر مائل کرنے کے لیے۔ حقیقی دلچسپی اور شغف کے بغیر کسی بھی شعبے کو اپنانا دردِ سر پالنے سے کم نہیں ہوتا۔ تمام متعلقہ حقائق نظر انداز کرتے ہوئے کسی بھی شعبے کو محض جذباتیت کی بنیاد پر اپنانا بالعموم گھاٹے کا سودا ثابت ہوتا ہے۔ بڑوں کو دیکھ کر بڑا بننے کا سوچنا چاہیے، اُن جیسا بننے کا نہیں۔ محض نقالی کی بنیاد پر کوئی بڑا نہیں بن سکتا۔ اگر ایسا ہوسکتا تو سبھی بڑے بن جاتے۔
مشاہدہ اور مطالعہ انسان کو بڑا بناتا ہے۔ بڑوں کی باتیں ہمیں بڑا بننے کی راہ دکھاتی ہیں۔ بڑوں کی باتیں زندگی کو بامعنی بنانے کے لیے ہوتی ہیں نہ کہ محض نقالی پر اُکسانے کے لیے۔ تحریک اور نقالی کے فرق کو سمجھے بغیر زندگی کا معیار بلند کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ طے کیجیے کہ آپ بڑوں کی باتوں سے بڑا بننے کی تحریک پائیں گے، محض نقالی پر گزارہ کرنے کی ذہنیت پروان نہیں چڑھائیں گے۔