"MIK" (space) message & send to 7575

کچھ وقت تو لگتا ہے

خیال و خواب کی دنیا بہت ظالم ہے۔ یہ جب بے لگام ہوکر پنپتی ہے تو انسان کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیتی ہے۔ کسی بھی ماحول میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہوتی جو خام خیالی کی دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں اور اِس کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کبھی اپنے حالِ زار پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے یعنی جو تباہ کن ڈگر اپنے لیے منتخب کی ہوتی ہے ‘اُس پر چلتے چلے جاتے ہیں۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ ذرا سی فراغت نصیب ہونے پر ہر اُس معاملے کا سوچنے لگتا ہے جس کا اُس کی صلاحیت و سکت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کسی بھی معاشرے میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر متعلق معاملات سے خود کو الگ رکھنے والے خال خال ہوتے ہیں۔ خیال و خواب کی دنیا میں جینے والوں کو آپ یکسر غیر حقیقت پسند پائیں گے۔ سیدھی سی بات ہے، حقیقت پسند ہوتے تو خیال و خواب کی اسیری قبول ہی کیوں کرتے!
جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنا کم و بیش ہر انسان کا معاملہ ہے۔ بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جو اپنے حال سے مطمئن ہو اور کچھ اور بننے یا پانے کا خواب نہ دیکھتا ہو۔ کسی کو بھرپور کامیابی، شہرت اور دولت ملی ہو تو ایک وقت آتا ہے کہ وہ بیزار ہو جاتا ہے اور اس بات کا خواہش مند ہوتا ہے کہ دولت و شہرت کچھ کم ہو جائے اور سکون کا گراف بلند ہو جائے۔ سکون کا گراف بلند کرنا ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتا۔ کسی بھی ماحول میں زندگی بسر کرنے والے لوگ اپنے آپ سے، اپنی کامیابی سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوتے۔ ہر انسان کچھ اور ہی سوچ رہا ہوتا ہے۔ بعض لوگوں میں یہ معاملہ شدت اختیار کر جاتا ہے تو زندگی کا توازن ہی بگڑ جاتا ہے۔
جو کچھ ہم سوچتے ہیں وہ اگر ہونے لگے تو؟ آپ سوچیں گے ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ یہ دنیا اِس طور چلنے کے لیے خلق کی ہی نہیں گئی۔ اللہ تعالیٰ نے سب کے حصے میں صلاحیت و لیاقت رکھی ہے اور محنت بھی۔ جو محنت کرے گا وہ پائے گا۔ محض سوچنے سے کچھ حاصل ہو پاتا تو کسی کو کچھ خاص تگ و دَو کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ کسی کی کامیابی سے کچھ سیکھنے اور کچھ کرنے میں بہت فرق ہے۔ آج کل ہم کم و بیش ہر روز کچھ نہ کچھ ایسا دیکھتے ہیں جو بہت کچھ کرنے کی تحریک دے رہا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کی مہربانی سے ہم اصلاحِ نفس کے حوالے سے اچھا خاصا مواد آسانی سے حاصل کرنے میں کامیاب ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم اِس مواد سے کچھ کشید کرنے کے لیے بھی تیارہوتے ہیں یا نہیں۔
عام آدمی اور بالخصوص نوجوانوں کا معاملہ یہ ہے کہ راتوں رات بہت کچھ بننا، بہت کچھ پانا چاہتے ہیں۔ کسی بھی کامیاب شخصیت کو دیکھ کر بہت کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کسی کی شہرت اور مقبولیت ہمیں اس قدر متاثر کرتی ہے کہ ہم بھی کچھ نہ کچھ بننے یا پانے کی خواہش محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہاں تک تو معاملہ بالکل درست ہے۔ کسی کی بھرپور کامیابی ہمیں نمایاں حد تک متاثر کرتی ہے اور ہم خیال و خواب کی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ خیالی دنیا میں گم رہنا ہر دور کا معاملہ ہے؛ تاہم اب یہ معاملہ خطرناک شکل اختیار کرچکا ہے۔ زندگی رنگ بدل چکی ہے۔ دنیا کچھ کی کچھ ہوچکی ہے۔ ایسے میں ذہنی حالت انتہائی نوعیت کی ہوچکی ہے۔ یہ سب کچھ انتہائی اذیت ناک بھی ہے۔ لوگ دن رات خیالی دنیا میں رہتے ہیں اور حقیقت کی دنیا سے اُن کا تعلق کمزور پڑتا چلا جاتا ہے۔
کوئی بھی خواب شرمندۂ تعبیر ہونے میں کچھ نہ کچھ وقت لیتا ہے اور معاملہ صرف وقت کا نہیں‘ محنت کا بھی ہے۔ محنت نہ کی جائے تو خواب ہمیشہ خواب ہی رہتا ہے۔ محض خواب دیکھ لینا کافی نہیں ہوا کرتا۔ ہر خواب انسان کو کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک بھی دیتا ہے۔ خواب محض اس لیے نہیں ہوتا کہ اُس سے محظوظ ہوا جائے۔ یہ خواب ہی انسان کو آگے بڑھنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ اس دنیا کی کوئی بھی چیز سب سے پہلے ذہن میں خیال یا پھر خواب کی شکل میں پیدا ہوتی ہے۔ انسان اُس خیال یا خواب کو پروان چڑھاتا ہے، خود کو کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار کرتا ہے تب کہیں کچھ ہو پاتا ہے۔ محض سوچ لینا یا خواب دیکھ لینا کسی بھی درجے میں کافی نہیں ہوتا اور کچھ خاص نہیں دے پاتا۔ خیال کو پروان چڑھانا اور خواب کو تعبیر کے مرحلے تک پہنچانا پڑتا ہے۔ یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں! اِس دنیا میں ایسے لاکھوں نہیں‘ کروڑوں افراد ہیں جو سوچتے ہیں اور خواب بھی دیکھتے ہیں مگر اِسی مرحلے میں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ خیال کو عملی شکل دینے اور خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی لگن اُن میں نہیں پائی جاتی۔ اِس کا بنیادی سبب کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سب کچھ مزاج کے ہاتھوں ہوتا ہو یا پھر تربیت کی کمی اُن کے لیے مشکلات کا باعث بنتی ہو۔ کسی بھی کامیاب انسان کے بارے میں پڑھیے یا اُسی کی زبانی اُس کی بھرپور کامیابی کی داستان سنیے تو اندازہ ہوگا کہ محض خیال و خواب کی دنیا میں آباد رہنے اور حقیقت کی دنیا میں کچھ کر دکھانے میں کتنا فرق ہے۔
نئی نسل کچھ بننے اور کر دکھانے کے معاملے میں خاصی بے صبری ہوتی ہے۔ تحمل کا مادّہ کم ہونے کے باعث وہ عجلت پسندی کے ہاتھوں ایسا بہت کچھ کر بیٹھتی ہے جو کیریئر کو پروان چڑھانے کے بجائے نقصان پہنچاتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی یقینی بنانے کے لیے فطری رفتار سے بڑھنا پڑتا ہے۔ جو کچھ قدرت نے ہمارے لیے طے کر رکھا ہے اُس سے ہٹ کر اپنایا جانے والا طریقہ محض خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ کسی مشہور باؤلر کو دیکھ کر اُس جیسا بننے کی تمنا کرنے والے نوجوان بھول جاتے ہیں کہ اُسے اِس مقام تک پہنچنے کے لیے کم و بیش دس برس تک دن رات محنت کرنا پڑی ہے۔ کسی اداکار کے فن سے متاثر ہوکر نوجوان اُس جیسا بننے کی خواہش تو پال لیتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ اپنے فن سے سکرین پر جادو جگانے والے کو محنتِ شاقہ کے ان گنت مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ درست اندازہ لگانے کے لیے کوئی شوٹنگ دیکھ لی جائے۔ کوئی بھی شخص گاتے گاتے گویّا بنتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی نے سازوں کے ساتھ چلنا سیکھا اور گلوکار بن گیا۔ یہ سب طویل اور صبر آزما تربیت و مشق کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی اچھے لکھنے والے سے پوچھیے تو وہ بتائے گا کہ اچھا لکھنے کے لیے اُسے کتنا پڑھنا پڑا ہے۔ وسیع و وقیع مطالعے کے بغیر کوئی بھی اچھا نہیں لکھ سکتا۔ اوزار پکڑتے ہی کوئی کاری گر نہیں بن جاتا۔ ایک عمر کھپانا پڑتی ہے، ایک زمانہ لگانا پڑتا ہے تب کہیں انسان کی صلاحیت و سکت کا دنیا کو علم ہو پاتا ہے۔
کسی بھی شعبے کے کامیاب ترین افراد کے بارے میں پڑھتے رہنے سے بھرپور کامیابی کی لگن پیدا کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد ملتی ہے۔ یہ ذہنی تربیت کا آزمودہ اور معقول طریقہ ہے۔ فی زمانہ کسی بھی مشہور و مقبول یعنی کامیاب شخصیت کے بارے میں جاننا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ انٹرنیٹ کی مدد سے کسی کے بارے میں سب کچھ معلوم کیا جاسکتا ہے۔ آپ کامیاب شخصیات کے بارے میں جتنا زیادہ پڑھیں گے اُتنا ہی آپ کو اندازہ ہو گا کہ اُنہوں نے بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے دن رات ایک کیے، اپنے پورے وجود کو بروئے کار لانے پر توجہ دی، بہت کچھ ترک کیا، وقت کا بہترین استعمال سیکھا، اپنی صلاحیت و سکت سے کماحقہٗ فائدہ اٹھانے کی ذہنیت اپنائی۔ کامیاب افراد کے بارے میں باقاعدگی اور تواتر سے پڑھنے والوں کی شخصیت تیزی سے پنپتی ہے اور وہ بھی اپنے ماحول سے ہٹ کر کچھ کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔
نئی نسل یہ نکتہ کبھی فراموش نہ کرے کہ کسی بھی شعبے میں کچھ بننے اور کر دکھانے کے لیے ایک خاص مدت تک محنت کرنا پڑتی ہے۔ کچھ وقت لگتا ہے۔ اس کے لیے ذہن سازی کرنا پڑتی ہے۔ یہ آسان مرحلہ نہیں۔ محنت کے مرحلے کو ترک کرتے ہوئے آگے بڑھنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوسکا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں