"MIK" (space) message & send to 7575

قرطاس و قلم کب سے منتظر ہیں

لکھنے کا عمل کیا ہوتا ہے یہ وہی جانتا ہے جو لکھتا ہے یا پڑھتا ہے۔ قارئین کے لیے مفکر و مصنف ہونا لازم نہیں مگر ہر مصنف کے لیے لازم ہے کہ وہ پڑھنے کا انتہائی شوقین ہو اور ذوق بھی کم درجے کا نہ ہو۔ عمومی حالت میں ایسا ممکن نہیں کہ کسی نے ادبِ عالیہ کا مطالعہ نہ کیا ہو اور ڈھنگ سے کچھ لکھ جائے۔ اعلیٰ درجے کا مطالعہ ہی ذہن میں پڑی ہوئی گرہیں کھولتا ہے اور تبھی مصنف نئی راہوں پر گامزن ہونے کے لیے خود کو تیار پاتا ہے۔ اردو میں لکھنے کی روایت جیسی اب ہے ویسی کمزور کبھی نہیں رہی۔ جب وسائل بھی کم تھے، اشاعت کے مواقع بھی خال خال تھے اور معاوضہ بھی برائے نام تھا تب لکھنے والوں کا جوش قابلِ دید اور قابلِ داد تھا۔ تب دلوں میں ایک امنگ تھی کہ کچھ کر جائیے، کچھ لکھ جائیے۔ آنے والی نسلوں کو کچھ دینے کی لگن اِتنی بھرپور تھی کہ لوگ ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر بس لکھتے رہتے تھے اور لکھتے بھی ایسا تھے کہ پڑھنے والے محسوس کرتے تھے کہ اُن کا ذہن وسیع ہوا ہے۔
ہم اُس دور کی بات کر رہے ہیں جب لکھنے والوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا‘ کسی اور دنیا کی مخلوق بھی تصور کیا جاتا تھا۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ تاثر راسخ تھا کہ سوچنے اور لکھنے والے کسی اور سیّارے کی مخلوق ہیں۔ لکھنے والے چونکہ اپنے کام میں غرق دکھائی دیتے تھے اس لیے لوگوں کو آسانی سے میسر بھی نہیں ہو پاتے تھے۔ میسر ہونے سے مراد یہ ہے کہ اُن سے ملا تو جاسکتا تھا مگر وہ ہر ایک پر کھل نہیں پاتے تھے۔ جنہیں سوچنے کی توفیق عطا ہوتی تھی اور لکھنے پر مائل ہوتے تھے وہ عام آدمی کے لیے خاصے اجنبی ہوتے تھے کیونکہ ذہنی سطح کا فرق نمایاں ہوا کرتا تھا۔
ایک دور تھا کہ جو جس کام میں ہاتھ ڈالتا تھا اُسے نقطۂ عروج تک پہنچاکر دم لیتا تھا۔ کسی کے ذہن پر اگر ڈرامے لکھنے کی دُھن سوار ہوتی تھی وہ ایسے مکالمے لکھتا تھا کہ لوگوں کو ازبر ہو جاتے تھے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ڈراموں میں استعمال ہونے والا کم و بیش ہر تکیہ کلام زباں زدِ عام ہو جایا کرتا تھا۔ بیشتر کرداروں کے مخصوص جملے بھی لوگوں کے حافظے سے چمٹ جایا کرتے تھے۔ ایسا اس لیے ہوتا تھا کہ لکھنے والے پوری شدّتِ احساس کے ساتھ لکھا کرتے تھے۔ ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ کوئی حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھے اور لوگوں کے معیارِ پسندیدگی پر پورا نہ اُترے؟ملک کے قیام کے بعد ابتدائی ڈھائی تین عشروں کے دوران صحافت بھی اِتنی معیاری تھی کہ لوگ اُسے مثال یا نمونے کے درجے میں رکھتے تھے۔ اخباری خبروں کی زبان ایسی جان دار، شان دار اور کاٹ دار ہوا کرتی تھی کہ لوگ خبروں اور اداریوں کو محفوظ کرلیا کرتے تھے۔ روزنامہ حریت میں مولانا حسن مثنیٰ ندوی کے تحریر کردہ اداریوں کی زبان ایسی معرکے کی ہوا کرتی تھی کہ لوگ آپس کی گفتگو میں اُن پر سیر حاصل رائے زنی کیا کرتے تھے۔
ابراہیم جلیس، انعام دُرانی، نصراللہ خان، چراغ حسن حسرتؔ، رئیسؔ امروہوی، پیر علی محمد راشدی، جمیل الدین عالیؔ، احمد ندیم قاسمی اور دوسرے بہت سے مشاہیر کی زبان ایسی وقیع ہوا کرتی تھی کہ عام آدمی بھی ان کی تحریریں پڑھنے میں دلچسپی لیتا تھا۔ لاکھوں پاکستانیوں نے اخباری مضامین اور کالم پڑھ کر ذوق و شوقِ مطالعہ کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنی زبان بھی درست کی۔ سوچا جاسکتا ہے کہ جب محض ایک دن بعد باسی ہو جانے والے اخباری مضامین کا یہ حال تھا تو کتابوں کا معیار کیا رہا ہوگا۔ آج وہ دور محض خواب کا معاملہ معلوم ہوتا ہے۔ اب لکھنا بھی آسان ہے اور شائع کرانا بھی۔ اگر کہیں شائع نہ ہو پائے تو خود بھی شائع کیا جاسکتا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لکھنا تو آسان ہوگیا ہے مگر لکھنے کا معیار بلند نہیں ہو رہا۔ جو کچھ ہمارے بزرگوں نے میراث کی شکل میں چھوڑا ہے ہم معیار کے معاملے میں اُس کے پاسنگ بھی نہیں ہو پارہے۔ یہ فی الواقع شرم کی بات ہے۔ جب مشکلات ہی مشکلات تھیں۔ لکھنے کا معاوضہ بھی برائے نام تھا یا بالکل نہ تھا تب لوگ بھرپور جذبے کے ساتھ ایسا لکھتے کہ آنکھوں سے ہوتا ہوا ذہن کی دیوار پر کیل کی طرح پیوست جاتا تھا، نقش کی شکل اختیار کرلیتا تھا۔ تحقیق کے وسائل برائے نام تھے مگر لوگ لکھتے وقت کتابیں کھنگالا کرتے تھے۔ بھرپور کوشش ہوتی تھی کہ مضمون، فیچر یا کالم میں شامل معلومات امکانی حد تک درست ہوں، زبان کی کوئی فاش غلطی سرزد نہ ہو، کوئی بھی جملہ بے ربط نہ ہو۔ اس قدر احتیاط سے لکھنے کی صورت میں معیار کا بلند ہونا تو لازم تھا اور یہ بھی ناگزیر تھا کہ لوگ متوجہ ہوں اور تحریر کو وہ احترام دیں جس کی وہ مستحق ہو۔
آج معاملہ یہ ہے کہ لوگ صرف قلم برداشتہ کے عادی ہوچکے ہیں یعنی تیاری کے بغیر، اعداد و شمار کی درستی یقینی بنائے بغیر جو لکھ دیا سو لکھ دیا۔ کسی بھی موضوع پر طبع آزمائی کرتے وقت بالکل سرسری نوعیت کی جو تحقیق کی جانی چاہیے‘ وہ بھی نہیں کی جاتی۔ چالیس پچاس سال پہلے کسی بھی موضوع پر تازہ ترین اور جامع معلومات کا حصول فی الواقع دردِ سر ہوا کرتا تھا۔ اِس پر بھی لوگ کسی نہ کسی طور بہت کچھ معلوم کرکے لکھا کرتے تھے۔ اب کچھ بھی جاننا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ انٹرنیٹ کی مدد سے مطلوبہ معلومات تھوڑی سی دیر میں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اگر کچھ سمجھ میں نہ آئے تو کسی سے فون پر رابطہ کرکے خصوصی طور پر کچھ معلوم کیا جاسکتا ہے، رائے لی جاسکتی ہے۔ افسوس کہ اب تن آسانی نے دل و دماغ کو یوں گھیر رکھا ہے کہ لکھنے والے تیاری کے بغیر لکھتے ہیں اور جو کچھ بھی اُلٹا سیدھا وہ لکھتے ہیں اُسے شاہکار قرار دینے پر بھی بضد رہتے ہیں۔ تیاری کے بغیر لکھنے کی صورت میں تحریر سے عامیانہ پن جھلکے گا۔ پڑھنے والے اگر مستقل طور پر کمتر معیار کی چیزیں پڑھتے رہیں تو اُن کے ذوق و شوق کی سطح بھی گر جاتی ہے۔ ہمارے ہاں یہی ہوا ہے۔ پست معیار کا لکھا ہوا پڑھ پڑھ کر قارئین کا ذوق بھی پستی میں جا گرا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب لوگ تیاری کے بغیر لکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ قلم برداشتہ ہی شائع کیا جائے یعنی جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں اُس کا ''حسن‘‘ گھٹانے کی کوشش نہ کی جائے۔ یہ بات کسی کی بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جب اِس طور لکھا جائے گا تو تحریر کا معیار کیا رہ جائے گا۔
قرطاس و قلم اس بات کے منتظر ہیں کہ لکھنے والے سوچنے کی عادت اور مشق بحال کریں۔ لکھنے کے قرینوں میں پہلا تو یہ ہے کہ ذہن کو اچھی طرح تیار کیا جائے یعنی محض موضوع کے بارے میں نہ سوچا جائے بلکہ بنیادی حقائق اور اعداد و شمار بھی نظر کے سامنے رکھے جائیں۔ دوسرا یہ کہ لکھنے کی بھرپور لگن ہونی چاہیے۔ لکھنے کی لگن سے مراد یہ ہے کہ تحریر ہی کو محنت کا صلہ تصور کیا جائے، اُس سے پورا حَظ اٹھاتے ہوئے راحتِ قلب و جاں کشید کی جائے۔ کسی بھی صاحبِ فن کے لیے اُس کا فن ہی سب سے بڑا انعام ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں جب تک یہ سوچ کارفرما تھی تب تک ہر شعبے میں بہترین کارکردگی سامنے آتی رہی۔ لکھنے کا بھی یہی معاملہ رہا۔ اب تن آسانی ہے تو لکھنے کے شعبے میں بھی گراوٹ ہی گراوٹ دکھائی دے رہی ہے۔ اچھے ناول لکھے جارہے ہیں نہ اچھی شاعری ہی ہو پارہی ہے۔ علم و فن کے کسی بھی شعبے میں کوئی بڑا کام نہیں ہو پارہا، ایسا کام جسے شاہکار کا درجہ دیا جاسکے۔ لکھنے کے شعبے میں خصوصی طور پر بانجھ پن دکھائی دے رہا ہے۔ پرفارمنگ آرٹس کا شعبہ کسی نہ کسی طور پھل پھول رہا ہے مگر قرطاس و قلم کی آبرو کا پاس رکھنے والے خال خال ہیں۔ لکھنے والے خود رَو پودوں کی طرح بڑھتے جارہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کے ذہن کا غبارباہر آئے تو اُسے تحریر کا درجہ دے کر محض پڑھا نہ جائے بلکہ سراہا بھی جائے۔ قرطاس و قلم منتظر ہیں کہ اُن کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں