"MIK" (space) message & send to 7575

وقت ہی تو مسئلہ ہے

ہر عہد کا عام آدمی اگر کسی چیز کے معاملے میں سب سے زیادہ لاپروا رہا ہے تو وہ ہے وقت۔ سب کا وقت طے شدہ ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ایک خاص حد تک ہی اس دنیا میں رہنا ہے۔ کوئی مذہب پر یقین رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، اِتنا تو جانتا اور مانتا ہی ہے کہ روئے ارض پر جو سانسیں عطا ہوئی ہیں اُن کا ایک خاص شمار ہے۔ ادھر یہ گنتی پوری ہوئی اور ادھر دنیا سے رخصت ہوئے۔ جب یہ احساس موجود ہے کہ عطا کیا جانے والا یا عطا ہونے والا وقت محدود ہے تو پھر اُس کا حق ادا کرنے کی ذہنیت پیدا کرنے میں کیا قباحت ہے؟ حیرت ہے کہ لوگ وقت کو سمجھنے اور ڈھنگ سے برتنے پر مائل ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب دنیا بہت پُرسکون تھی۔ کوئی بھی خطہ زیادہ گنجان آباد بھی نہ تھا۔ غیر معمولی ترقی نہ ہو پانے کے باعث زندگی میں شور شرابہ بھی نہ تھا اور انہماک کو نقصان پہنچانے والے عوامل یا حالات بھی نہ تھے۔ زندگی بالکل سادہ تھی۔ انسان کے پاس وقت ہی وقت تھا۔ لوگ اپنے وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے قابل تھے۔ عام آدمی خاصے پُرسکون انداز سے جیتا تھا۔ زندگی چونکہ آسان تھی اس لیے لالچ کی گنجائش نہ تھی۔ ایسا بہت کچھ بازار میں دستیاب بھی نہ تھا جس کے حصول کے لیے انسان بات بے بات بے صبرا ہو اُٹھے۔ زندگی محض سادہ ہی نہیں محدود بھی تھی۔ لوگ اپنی اپنی حدود اچھی طرح جانتے تھے اور یوں خاصے معقول انداز سے زندگی بسر کرتے تھے۔
اب ذرا سوچیے کہ جب انہماک کو منتشر کرنے والا کچھ نہ تھا، انسان کے پاس کرنے کو بہت کم تھا اور وقت بہت زیادہ تھا تب انسان وقت ضائع کرتا ہو گا؟ یقینا۔ وقت ضائع کرنا بھی انسان کے مزاج میں رہا ہے۔ وقت کی اہمیت کے بارے میں ہر دور کے اہلِ دانش نے بہت کچھ کہا ہے اور عام آدمی کو وقت کا بہترین استعمال یقینی بنانے کے حوالے سے تحریک دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جرمن فلسفی آرتھر شاپنہار کو شور و غل بالکل پسند نہ تھا۔ یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کیونکہ شاپنہار کو جو دور ملا تھا اُس میں تو ایسا کچھ تھا ہی نہیں جو شور و غل کا باعث بنتا۔ 22 فروری 1788ء کو پیدا ہونے والے شوپنہار کا انتقال 21 ستمبر 1860ء کو ہوا تھا۔ ذرا سوچیے کہ تب ماحول میں ایسا کیا تھا جو شور و غل کا باعث بنتا۔ سڑکوں پر گاڑیاں بھی نہیں تھیں۔ لوگ گھوڑا گاڑی میں سفر کیا کرتے تھے۔ جگہ جگہ مشینیں بھی نصب نہیں تھیں کہ چلائی جاتیں اور شور پیدا کرنے کا باعث بنتیں۔ شوپنہار کا زمانہ تو بہت پہلے کا ہے۔ ہم میں سے بہت سوں کو یاد ہوگا کہ کراچی میں بھی 1970ء کے عشرے کے آخر تک شور خاصا کم تھا۔ آج بھی دیہات میں ماحول خاصا پُرسکون رہتا ہے۔ کچھ کچھ ایسا ہی معاملہ کراچی جیسے شہر کا بھی تھا اور یہ 1960ء کے عشرے کے اواخر کی بات ہے۔ تب رات کے آٹھ بجے گلی میں اگر کوئی آواز گونجتی تھی تو وہ تھی پی ٹی وی پر پیش کیے جانے والے ڈرامے کی۔ اب اندازہ لگائیے کہ شوپنہار کے زمانے میں ایسا کچھ تھا ہی نہیں جو شور کا باعث بنتا تو پھر اُس شخص کے باطن میں سکون کی کیا کیفیت رہی ہوگی۔ شوپنہار کو شور و غل سے نفرت اس لیے تھی کہ انہماک منتشر ہوتا تھا اور وقت کے ضیاع کی راہ نکلتی تھی! نظریۂ ارتقاء کے حوالے سے سب سے بڑا نام چارلس ڈارون کا ہے۔ ڈارون 12 فروری 1809ء کو پیدا ہوا تھا۔ اس کا انتقال 19 اپریل 1882ء کو ہوا۔ اُس کے دور میں بھی ایسا کچھ نہ تھا کہ انہماک منتشر ہوتا اور لوگ اپنے کام پر متوجہ نہ ہو پاتے۔ پھر بھی چارلس ڈارون وقت کے حوالے سے کیا سوچ رکھتا تھا اِس کا اندازہ اُس کی اس بات سے لگائیے کہ اگر کسی نے اپنا ایک گھنٹہ بھی ضائع کیا تو سمجھ لیجیے کہ اُس نے وقت کی قدر جانی ہی نہیں! چارلس ڈارون کی نظر میں وقت کوئی ایسا معاملہ تھا ہی نہیں جس کے بارے میں لاپروا ہوا جاتا۔ اُس کے نزدیک وقت ہی سب کچھ تھا۔ جس کسی کو بھی اللہ تعالیٰ نے عقلِ سلیم سے نوازا ہے اُس کے نزدیک وقت ہی سب کچھ ہے۔ کوئی زندگی کے بارے میں کس حد تک سنجیدہ ہے اور اپنے لیے کوئی کردار کس حد تک متعین کرنا چاہتا ہے اِس کا اندازہ لگانا ہے تو یہ دیکھ لیجیے کہ وقت کے بارے میں اُس کی طرزِ فکر و عمل کیا ہے۔ اگر کسی کی نظر میں وقت کی کچھ وقعت نہیں تو سمجھ لیجیے کہ اُس نے دنیا میں اپنے قیام کو محض تماشا سمجھ رکھا ہے۔
ہر دور کے انسان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ وقت رہا ہے۔ وقت بجائے خود کوئی مسئلہ نہیں۔ اُس کا محدود ہونا انسان کو پریشان کرتا ہے۔ یہ معاملہ محض پریشان ہونے سے درست ہونے والا نہیں۔ اگر کسی کو ڈھنگ سے جینا ہے تو سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ سنجیدگی یوں تو تمام معاملات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے؛ تاہم وقت کے معاملے میں اِس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ جو اپنے وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے حوالے سے سنجیدہ ہوا بس اُسی نے اِس دنیا میں اپنے لیے کوئی مقام پیدا کیا۔ وقت کے معاملے میں صرف اِتنا یاد رکھا جائے کہ یہ دولت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ اگر کوئی مقابلے میں شریک ہونے کا خواہش مند ہی نہ ہو تو پھر اُس کے لیے وقت کی کچھ اہمیت نہیں رہتی۔ آپ نے بہت سوں کو دیکھا ہوگا کہ اپنا وقت یومیہ بنیاد پر یوں ضائع کرتے ہیں کہ رفتہ رفتہ پوری زندگی بے عملی کے گڑھے میں جا گِرتی ہے۔ اُن کے نزدیک وقت کی چونکہ کچھ اہمیت ہے ہی نہیں اس لیے وقت کے ضیاع کا اُنہیں کچھ خاص افسوس بھی نہیں ہوتا۔ وقت کے حوالے سے تمام دباؤ اُن لوگوں کیلئے ہے جو اِس دنیا میں اپنے قیام کو قابلِ رشک بنانے کیساتھ ساتھ کچھ ایسا کرکے جانا چاہتے ہیں کہ لوگ مدتوں یاد رکھیں۔
اہلِ فکر و نظر کی نظر میں وقت صرف اُن کے لیے کم ہوتا ہے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ بامقصد اور بامعنی زندگی بسر کرنے کی خواہش انسان کو اس بات کی تحریک دیتی ہے کہ اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ بارآور طریقے سے بروئے کار لائے۔ ایسے میں اُس کے لیے منصوبہ سازی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ جنہیں کچھ کرنا ہوتا ہے وہ وقت کے نظم و نسق کے معاملے میں غیر معمولی حسّاس ہوتے ہیں۔ اُنہیں قدم قدم پر اس بات کا خیال رہتا ہے کہ وقت کہیں ضائع نہ ہو۔ ایسے میں اگر کوئی معاملہ اُن کے وقت پر ڈاکا ڈالتا دکھائی دے رہا ہو تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں اور یہ پریشانی اُن کی طرزِ فکر و عمل سے خوب جھلکتی ہے۔ اُنہیں قدم قدم پر یہ خدشہ ستاتا رہتا ہے کہ کوئی بھی غیر متعلق معاملہ اُن کے وقت پر ڈاکا نہ ڈالے۔ یہ طرزِ فکر اُن کے تعلقات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ جو لوگ وقت کے معاملے میں بہت حسّاس ہوتے ہیں اُنہیں آپ معاشرتی اعتبار سے کم آمیز اور کم گو پائیں گے۔ وہ اپنا وقت ضائع کرنے پر یقین رکھتے ہیں نہ توانائی۔ وہ چاہتے ہیں کہ وقت کے درست استعمال سے اپنے آپ کو خوب منوائیں اور دنیا کے لیے مثال بنیں۔ آج معاملات کی نوعیت ایسی بدلی ہے کہ حقیقی دولت کا سوچیے تو ذہن کے پردے پر صرف ایک لفظ اُبھرتا ہے اور وہ ہے وقت۔ وقت ہی انسان کے لیے ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی۔ اِس دنیا میں ہم سب کا قیام خاصا مختصر ہے۔ اِس اختصار میں بھی جو لوگ فراخی کا تصور اور احساس پیدا کرنا چاہتے ہیں اُنہیں تمام معاملات پر وقت کو مقدم رکھنا ہوگا۔ ساحرؔ لدھیانوی نے (بالی وُڈ کی سپر ہٹ فلم ''وقت‘‘ کے تھیم سانگ میں) کیا خوب کہا ہے ؎
وقت سے دن اور رات، وقت سے کل اور آج
وقت کی ہر شے غلام، وقت کا ہر شے پہ راج
وقت کی گردش سے ہے چاند تاروں کا نظام
وقت کی ٹھوکر میں ہیں کیا حکومت، کیا سماج
وقت کی پابند ہیں آتی جاتی رونقیں
وقت ہے پھولوں کی سیج، وقت ہے کانٹوں کا تاج
آدمی کو چاہیے وقت سے ڈر کر رہے
کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں