ہر ادارے میں آپ کو ایسے دو چار افراد ضرور ملیں گے جو زیادہ باصلاحیت تو نہیں ہوتے مگر پھر بھی چلتے رہتے ہیں یعنی کوئی اُنہیں فارغ کرنے کے بارے میں نہیں سوچتا۔ جن میں صلاحیت اور مہارت کم ہو وہ بالعموم اپنے آپ کو دوسرے بہت سے معاملات میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں کامیاب رہتے ہیں۔ کیا لازم ہے کہ جو بھرپور کامیابی کا حامل دکھائی دے رہا ہو وہ غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل بھی ہو؟ ہر شعبے میں ایسے لوگوں کی کمی کبھی نہیں رہی جو سرسری نوعیت کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہوئے بھی تادیر چلتے رہے، کامیاب ہوتے گئے۔
ایسا کیسے ہوتا ہے؟ صلاحیت و سکت اور کامیابی کے لیے درکار دیگر معاملات کے بارے میں غور و فکر اور بحث کرتے وقت یہ اہم نکتہ بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ آجر ایسے افراد کو زیادہ پسند کرتے ہیں جو اگرچہ زیادہ باصلاحیت نہ ہوں مگر مزاج کے شائستہ ہوں، اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں اور جو کام بھی دیا جائے اُسے ٹائم فریم کے مطابق مکمل کریں۔ ایسی حالت میں وقت بھی بچتا ہے اور وسائل کا ضیاع بھی رُکتا ہے۔ اِس کے برعکس ایسے بہت سے باصلاحیت افراد آجروں کے معیارِ پسندیدگی پر پورے نہیں اترتے جو بات بات پر ناک چڑھاتے ہوں، دوسروں کو کمتر یا حقیر سمجھتے ہوں اور سب سے بڑھ کر کہ ہر وقت اس بات خواہش مند رہتے ہوں کہ کامیابی کا پورا کریڈٹ اُن کے کھاتے میں ڈالا جائے۔ دنیا کا کاروبار ہمیشہ یونہی چلتا آیا ہے۔ سب کی صلاحیتیں یکساں نہیں ہوسکتیں۔ سب کی سکت بھی ایک سی نہیں ہوسکتی۔ کام کرنے کی لگن بھی سب میں برابر نہیں ہوسکتی۔ سب کے مزاج کے بنیادی خواص بھی یکساں نہیں ہوسکتے۔ تنوع قدرت کی کاری گری کا کمال ہے۔ جو کچھ قدرت نے طے کیا ہے وہ تو ہوکر ہی رہنا ہے اور ہوکر ہی رہتا ہے۔ ایسے میں ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ سبھی انسان تمام معاملات میں یکساں ہوسکتے ہیں۔ جن معاشروں میں انسانوں کو اذیت ناک حد تک کنٹرول کیا جاتا ہے وہاں بھی صلاحیت، سکت، لگن، مزاج اور عادات و اطوار کے فرق کو نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ ایسا کرنا دانش کے خلاف ہی سمجھا جائے گا۔
جو لوگ یہ محسوس کرلیتے ہیں کہ اُن میں مطلوب معیار کی صلاحیت نہیں اور مہارت بھی نہیں وہ‘ اگر سوچیں تو‘ اپنے آپ کو دوسرے حوالوں سے مضبوط بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی بھی شعبے یا کام کے ماحول میں ایسے لوگ آسانی سے شناخت کیے جاسکتے ہیں جن میں زیادہ صلاحیت و مہارت تو نہیں ہوتی مگر پھر بھی آجر اُنہیں فارغ کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ کمتر صلاحیت و مہارت کے حامل افراد اپنے آپ کو دوسرے بہت سے معاملات میں قابلِ قبول بنائے رکھنے پر زیادہ متوجہ رہتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض گلوکار اچھا گانے کے باوجود زیادہ کام حاصل نہیں کر پاتے جبکہ بہت سے گلوکار عمومی سی آواز کے حامل ہونے پر بھی خوب گاتے ہیں، خوب کماتے ہیں۔ یہ بہت حد تک کام کے ماحول میں معاشرتی پہلو کو نظر انداز نہ کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی بھی فلم کی منصوبہ سازی کرتے وقت پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کاسٹ اور یونٹ میں ایسے فنکاروں کو شامل کرنا چاہتے ہیں جو اپنے کام میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ مزاج کے بھی اچھے ہوں، گھل مل کر رہنے پر یقین رکھتے ہوں، ٹیم کے ساتھ کام کرنے کی صورت میں دوسروں کے جذبات کا احترام کرتے ہوں، کام کے لیے وقت پر آتے ہوں، دوسروں کو بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی تحریک دیتے ہوں۔ کوئی بھی شخص نہیں چاہتا کہ اُس کے کسی منصوبے میں کوئی ایسا فرد شامل ہو جو دوسروں کے لیے دردِ سر بننے کا شوقین ہو۔ بعض اداکار بدمزاج ہونے کے باعث شوٹنگ کے دوران کام کا ماحول خراب کرتے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی کارکردگی بھی بگاڑ دیتے ہیں۔ پورا یونٹ ایسے افراد ہی کو پسند کرتا ہے جو مل کر کام کرنے پر یقین رکھتے ہوں اور خوش مزاجی سے ماحول کو جاندار بنائے رکھنے کو ترجیح دیتے ہوں۔ بہت سے مصنفین انتہائی باصلاحیت ہونے پر بھی زیادہ لکھ نہیں پاتے۔ اِس کا بنیادی سبب مزاج ہی ہوتا ہے۔ کوئی اگر اپنے مزاج کو صلاحیت و مہارت پر، لگن پر اور موقع شناسی پر حاوی ہونے دے تو سمجھ لیجیے کام ہوچکا۔ اگر کوئی اچھا لکھتا ہو مگر دوسروں کو کمتر سمجھتا ہو، اپنی رائے کے اظہار سے گریز بھی نہ کرتا ہو تو لوگ بہت جلد اُس سے عاجز آجاتے ہیں۔ پسند اُنہیں کیا جاتا ہے جو سر جھکاکر کام کرتے ہیں۔ سر جھکاکر کام کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی کسی کی بے جا بات بھی برداشت کرے اور ہر معاملے میں بکری بنا رہے۔ سر جھکانے کا مطلب ہے کام کے ماحول میں دوسروں کو قبول کرنا اور اپنی رائے دوسروں پر تھوپنے سے گریز کرنا۔
1940 اور 1950 کے عشروں میں بالی وُڈ کے بڑے موسیقاروں میں سجاد حسین بھی شامل تھے۔ اُنہوں نے کئی فلموں میں خاصی معیاری موسیقی ترتیب دی مگر بیس سال سے بھی زیادہ مدت تک انڈسٹری سے وابستہ رہنے پر وہ مشکل سے اٹھارہ اُنیس فلمیں کر پائے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُن سے کوئی تعصب برتا گیا یا کسی نے گروپنگ کرکے اُنہیں خواہ مخواہ، محض ''کُھنّس‘‘ نکالنے کے لیے، آگے نہیں بڑھنے دیا۔ پیشہ ورانہ رقابت تو ہر شعبے میں ہوتی ہے مگر کسی کو جو کم از کم مل سکتا ہے وہ تو مل کر ہی رہتا ہے۔ سجاد حسین کے معاملے میں یہ ہوا کہ وہ ڈھنگ سے کام کر ہی نہیں پائے اور کم از کم بھی نہیں مل پایا۔ اُنہیں بیس سال میں کم و بیش 80 فلمیں کرنی چاہیے تھیں۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ باصلاحیت اور ذہین ہونے کے باوجود وہ زیادہ کام نہ کر پائے؟ دراصل سجاد حسین تُنک مزاج تھے۔ تنقید کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ کسی کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے سے واضح طور پر گریزاں رہتے تھے۔ وہ طلعت محمود کو ''غلط محمود‘‘ اور کشور کمار کو ''شور کمار‘‘ کہا کرتے تھے۔ لتا منگیشکر کے فن میں بھی اُنہوں نے خامیاں نکالنے کی کوشش کی۔ نوشاد علی جیسے موسیقار بلکہ موسیقارِ اعظم کو بھی اُنہوں نے اپنی جلی کٹی باتوں سے ناراض کیا۔ انڈسٹری میں اُن کے حوالے سے اچھی رائے رکھنے والے خال خال تھے۔ سجاد حسین کے باصلاحیت اور ماہر ہونے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اُن کی دُھنیں لوگوں کو آج بھی یاد ہیں مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے مزاج کی تلخی اور ترشی دور نہ کرسکے۔ اور پھر معاملہ بھی یہ تھا کہ جن شخصیات کو دنیا مانتی ہے اُنہیں سجاد صاحب نے پست ثابت کرنے کی کوشش کی۔ تنقید کے معاملے میں بے ڈھنگے پن کا مظاہرہ کرنے والوں کو دنیا بالکل پسند نہیں کرتی۔ اگر کسی کے فن میں کوئی خامی پائی بھی جاتی ہو تو نپے تُلے انداز سے نشاندہی کی جانی چاہیے تاکہ اصلاح کی نیت مترشح ہو۔ سجاد صاحب کو تلخ ریمارکس دینے کی عادت سی تھی۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے کئی تقریبات میں بھی ناپسندیدہ ریمارکس دینے سے گریز نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اُنہیں قبول کرنے والوں کی تعداد گھٹتی چلی گئی۔
آپ کو ہر شعبے میں ایسے افراد ملیں گے جو اپنے آپ کو قابلِ قبول بنائے رکھنے پر محنت کرتے رہتے ہیں۔ یہ اُن لوگوں کی بات ہو رہی ہے جو چند معاملات میں کمزور ہوتے ہیں۔ جنہیں اپنی کمزوری کا علم ہو جائے وہ اگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں تو بعض دوسرے معاملات میں اپنے آپ کو مضبوط کرتے ہوئے قدرے قابلِ ذکر کیریئر کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ آج نئی نسل کو یہ نکتہ سمجھانے کی زیادہ ضرورت ہے کہ مزاج کی شگفتگی انسان کو چند ایک کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود قابلِ قبول بنے رہنے میں مدد دیتی ہے۔ دانا وہ ہے جو ماحول پر نظر رکھے ہوئے اور اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کرے جن کی طلب ہو۔ بدمزاجی کہیں بھی کام نہیں آتی۔ جو دوسروں کو قبول کرتے ہوئے چلتے ہیں وہی کامیاب رہتے ہیں۔ دانش کا تقاضا ہے کہ انسان ماحول کی ضرورت کے مطابق نرمی اختیار کرے، جہاں سر جھکا کر چلنا ہو وہاں سر جھکانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرے نہ تساہل کا۔ عمومی سطح پر اُنہی کو قبول کیا جاتا ہے جو سب کو قبول کرتے ہوئے چلنے کے عادی ہوں اور کسی بھی معاملے میں اپنی رائے کو دوسروں کے ذہنوں پر تھوپنے کو ترجیح نہ دیتے ہوں۔