کسی بھی معاملے میں انتہا پسندی درست نہیں۔ انتہائی سوچ صرف خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔ ہم زندگی بھر مختلف النوع کیفیتوں سے گزرتے رہتے ہیں۔ نشیب و فراز کے مراحل آتے رہتے ہیں اور ہمیں الجھنوں سے دوچار کرتے ہیں۔ اِسی طور کبھی کبھی غیر معمولی آسانی بھی پیدا ہوتی ہے اور ہمارے لیے راحت کا سامان کرتی ہے۔ زندگی کے میلے میں تمام آئٹم یکساں دلچسپ ہوں یہ لازم نہیں۔ اِس کی کوئی گنجائش بھی نہیں۔ ہر معاملے میں صرف رنگینی ہو‘ یہ بھی ضروری نہیں کیونکہ زندگی کبھی کبھی اچانک بے رنگ بھی ہو جاتی ہے۔ رنگینی اور رنگینی سے محرومی‘ یہ دونوں کیفیتیں ناگزیر ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔
بہت کچھ ہے جو ہماری‘ آپ کی توقع سے کم ہے مگر پھر بھی موجود ہے، کامیاب ہے اور قبولیت کی منزل سے گزر چکا ہے۔ تمام انسان یکساں معیار کے ہیں؟ کیا تمام انسانوں میں یکساں اہمیت کی صلاحیت پائی جاتی ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ تمام انسانوں میں کام کرنے کی بھرپور یا یکساں نوعیت کی لگن پائی جاتی ہو؟ اِن تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ یہ کوئی حوصلہ شکن بات نہیں! یہ دنیا ایسی ہی واقع ہوئی ہے اور ایسی ہی رہے گی۔ ہر عہد میں دنیا طرح طرح کے لوگوں کی میزبانی کرتی آئی ہے۔ ہر عہد کے انسان صلاحیت، سکت، لگن اور ذہنیت کے اعتبار سے مختلف رہے ہیں۔ یہ اختلاف نوعیت میں بھی رہا ہے اور درجے میں بھی۔ پھر بھی دنیا کی رنگینی کم نہیں ہوئی۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ قدرت نے ہم سب کو ایک خاص منصوبے کے تحت خلق کیا ہے۔ بہت کچھ ہے جو کیا جانا ہے اور سب کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ یہ بھی قدرت ہی کا کمال ہے کہ اگر کسی میں کوئی کمی پائی جاتی ہو تو اُس کی تلافی کے لیے کوئی دوسری خوبی خلق کردیتی ہے۔ جن میں صلاحیت کم ہوتی ہے اُن میں لگن زیادہ ہوتی ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ سکت تو ہوتی ہے، لگن زیادہ یا توانا نہیں ہوتی۔ بعض آپ کو ایسی حالت میں ملیں گے کہ صلاحیت بھی ہوگی اور کام کرنے کی لگن بھی بھرپور ہوگی مگر سکت کے معاملے میں وہ مار کھا رہے ہوں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے وجود سے مایوس ہوجائیں۔ کوئی بھی کمی مایوسی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ اگر انسان خود کو ڈھیلا چھوڑ دے تو دیکھتے ہی دیکھتے صرف مشکلات باقی رہ جاتی ہیں۔ دنیا کے ہر انسان میں چند خوبیاں اور چند کمزوریاں ہوتی ہیں۔ اِسی فرق سے دنیا کا کاروبار چلتا ہے۔ کسی میں صلاحیت کا کم ہونا زیادہ بری بات نہیں۔ یہ قدرت کا طے کردہ معاملہ ہے۔ ہاں! کچھ کرنے کی لگن کو توانا نہ رکھنا ضرور قابلِ تنقید ہے۔ صرف یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ قدرت کسی کو کسی ایک معاملے میں کمزور رکھتی ہے تو دوسرے کسی معاملے میں زیادہ نواز کر کسر پوری کردیتی ہے۔ یہ بھی قدرت ہی کا کام اور کمال ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی میں کوئی کمی پائی جاتی ہے تو وہ اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کمی کو کس طور دور کرتا ہے۔ آپ کو ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جن میں صلاحیت زیادہ نہیں اور سکت بھی معمولی ہے مگر پھر بھی وہ کامیاب ہیں اور دوسروں کے لیے مثال بنے ہوئے ہیں۔ بہت سوں کو آپ ایسی حالت میں دیکھیں گے کہ محض لگن کی بنیاد پر کامیاب ہیں اور بعض کا یہ حال ہے کہ زیادہ باصلاحیت نہ ہونے پر بھی محض اس لیے کامیاب ہیں کہ اچھے منصوبہ ساز ہیں یعنی معاملات کو سمجھتے ہیں، خطرات کو بھانپنے کی صلاحیت پروان چڑھاکر وہ اپنے لیے پہلے ہی کچھ نہ کچھ انتظام کر رکھتے ہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ قدرت نے کسی کے معاملے میں عدل سے کام نہ لیا ہو۔ ہاں! ہمیں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کس کے لیے کہاں اور کتنی گنجائش ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم معاملات کو سمجھنے کے معاملے میں سنجیدہ ہوتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہم اپنے ماحول پر متوجہ رہیں، اُس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کریں تب اندازہ ہوتا ہے کہ بعض معاملات میں پائی جانے والی کمزوریاں بہت سے دوسرے معاملات میں ہمارے لیے برتری کا ذریعہ بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی ہمارے لیے مواقع پیدا کرنے میں دیر نہیں لگاتیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی میں کوئی خامی پائی جاتی ہے اور ماحول میں رونما ہونے والی کسی تبدیلی کے نتیجے میں وہی خامی بہت بڑی خوبی بن کر سامنے آتی ہے۔
صلاحیت و سکت اور خوبی و خامی کے کھیل کو اگر ڈھنگ سے سمجھنا ہو تو علم و فن کی دنیا کے ساتھ ساتھ شوبز کی دنیا سے بھی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ علوم و فنون اور شوبز کی دنیا میں ایسے بہت سے لوگ بلندی پر دکھائی دیتے ہیں جنہیں اُصولی طور پر گڑھوں میں ہونا چاہیے تھا! تو کیا وہ محض حالات کی مہربانی سے بلندی پر پہنچ گئے؟ جی نہیں! کسی کسی کے معاملے میں تو ایسا ہوسکتا ہے مگر زیادہ تر کے حوالے سے یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ شوبز کی دنیا میں وہی لوگ کامیاب رہتے ہیں جو اپنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں کو بھی سمجھتے ہیں اور اُن سے کام لینے کا ذہن بنا پاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ میٹھی اور سُریلی آواز والا ہی شخص کامیاب گلوکار بنے۔ ایسے گلوکار بھی کامیاب ہو رہتے ہیں جن کی آواز میں کچھ خاص مٹھاس نہیں پائی جاتی۔ اِس کے برعکس بعض گلوکاروں اور گلوکاراؤں کی آوازیں کانوں کو چبھتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں مگر پھر بھی اُن کی ڈیمانڈ میں کمی نہیں آتی۔ سبب اس کا یہ ہے کہ وہ ماحول کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے وہی کچھ دے رہے ہوتے ہیں جس کی اُن سے توقع رکھی جاتی ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں ہر طرح کی صلاحیت کے حامل افراد بہت کچھ کرکے دکھارہے ہیں۔ زندگی کے میلے کی رونق میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اضافہ خالص مادّی سطح پر ہے۔ روحانی معاملہ کمزور ہے۔ خیر‘ یہ بھی کیا کم ہے کہ مادّی سطح پر ہمیں وہ سب کچھ میسر ہے جس کا کئی زمانوں سے محض خواب دیکھا جارہا تھا؟ انسان نے جو کچھ سوچا تھا وہ آج نظر کے سامنے ہے۔ ہر معاملے میں انتہائی نوعیت کی سہولتیں میسر ہیں۔ قدم قدم پر آسانیاں ہیں۔ آسانیوں کے دم سے زندگی کی رونق اور رنگینی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں زندگی کا عمومی معیار بلند ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ جب قدم قدم پر آسانیاں ہوں تب کام کا معیار بلند ہونا چاہیے، انسان کو زیادہ کام کرنا چاہیے مگر افسوس کہ ایسی کیفیت پیدا نہیں ہو پارہی۔
دنیا کی رونق جتنی بڑھتی جارہی ہے دلوں کی ویرانی بھی اُسی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ جو لوگ کسی بھی وجہ سے کچھ خاص نہیں کر پاتے وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ قدم قدم پر اپنے آپ میں الجھتے جاتے ہیں۔ ایسا بالعموم اُس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے آپ کو اعتدال کی راہ سے ہٹالے اور ہر معاملے میں ایک خاص معیار سے کمتر پر راضی نہ ہو۔ فی زمانہ اکثریت اُن کی ہے جو اپنے آپ سے مطمئن نہیں اور بہت کچھ کرنے کی چاہ میں وہ بھی نہیں کر پاتے جو وہ کرسکتے ہیں۔ زندگی اُن کے لیے ہے جو اعتدال کی راہ پر چلتے ہیں۔ جو ہر معاملے میں انتہا پسند سوچ کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں اُن کے لیے صرف الجھنیں باقی رہ جاتی ہیں۔ انتہا پسند سوچ کے کئی مظاہر ہیں۔ اگر کسی نے طے کرلیا ہے کہ ایک خاص معیارِ زندگی ہی کے ساتھ جینا ہے تو یہ محض انتہا پسندی ہے۔ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ انسان کو ہر طرح کی صورتِ حال کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔
کسی بھی معاملے میں بہت زیادہ خوش گمان رہنا یا شدید بدگمانی میں مبتلا رہنا محض انتہا پسندی ہے۔ یہ سوچ انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ ہر انسان کو اپنے بیشتر‘ بالخصوص اہم ترین‘ معاملات میں درمیانی راہ پر چلتے ہوئے جینا چاہیے۔ اعتدال کے ساتھ جینا انسان کو بدحواس ہونے سے روکتا ہے اور وہ بہتر انداز سے کام کرنے کی پوزیشن میں رہتا ہے۔ کسی بھی کامیابی یا ناکامی کو حتمی سمجھنا محض سادہ لوحی ہے۔ معاملات کو قبول کرنے کے معاملے میں بھی اعتدال پسندی ہی کی راہ پر گامزن رہنا چاہیے۔