معیاری انداز سے جینے کے لیے کم و بیش تمام اہم معاملات میں اعتدال پسند طرزِ فکر و عمل کا اپنایا جانا ناگزیر ہے۔ اعتدال نہ ہو تو اچھائی بھی بُرائی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اعتدال کسی بُرائی کی خامی کو بھی قابلِ قبول بنادیتا ہے۔ بالعموم ہم زندگی بھر انتہا پسند طرزِ فکر و عمل کے اسیر رہتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں حد سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حد سے گزرنے کا مطلب ہے تمام معاملات پر پانی پھیرنا۔ اگر غصہ حد سے گزر جائے تو انسان کو شدید ناکامی کے گڑھے میں دھکیل دے اور اگر محبت حد سے زیادہ ہو جائے تو وہ بھی انسان کو کہیں کا نہ چھوڑے۔ اگر کسی میں بلا کی خسّت ہو تو کسی کام کا نہیں رہنے دیتی اور اگر فیاضی بھی انتہا کی ہو تو انسان کو بالآخر مشکلات سے دوچار کرکے دم لیتی ہے۔ ہر معاملہ اعتدال کی سنگت ہی میں اچھا رہتا ہے۔
چند برسوں سے ہماری کرکٹ ٹیم جو کچھ کرتی آئی ہے وہ پورے قومی مزاج کا بھرپور عکاس ہے۔ تقریباً ہم سبھی کسی نہ کسی حوالے سے شدت پسند واقع ہوئے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں حد سے گزر جانے کو اب معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ہمارے کرکٹرز میں یہ قومی مزاج کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ شدید لاپروائی کے ساتھ جینے کی عادت انسان کو بیشتر معاملات میں اُس وقت مشکلات سے دوچار کرتی ہے جب پانی چڑھتے چڑھتے سر تک آ جاتا ہے۔ ایسے میں ہڑبڑاکر ہوش میں آنا پڑتا ہے اور تب تک بہت کچھ ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کرکٹ کے حوالے سے صلاحیت کی کمی کبھی نہیں رہی۔ ہر دور میں ہمیں ایسے کرکٹر کچھ خاص خرچ کیے بغیر ملتے رہے ہیں جنہیں تیار کرنے پر دیگر اقوام اچھا خاصا خرچا کرتی ہیں اور محنت بھی کم نہیں کرتیں۔ کراچی اور لاہور کا ذکر ہی کیا‘ کہ یہ تو کرکٹ کے مراکز ہیں۔ اب چھوٹے شہروں سے بھی کرکٹرز ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ سندھ کے اندرونی اضلاع میں کرکٹ کے حوالے سے جنون کم ہی رہا ہے۔ اب وہاں سے بھی انتہائی باصلاحیت کھلاڑی سامنے آنے لگے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہم باصلاحیت نوجوانوں کو معیاری کرکٹرز بنانے پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ اوّل تو حکومتی سطح پر اس حوالے سے باضابطہ سوچ نہیں پائی جاتی۔ نوجوانوں کو معیاری انداز سے کھیلنے کے قابل بنانے اور عالمی سطح پر ڈھنگ سے پیش کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ سرکاری سطح پر اس معاملے میں مطلوب حد تک فنڈز بھی مختص نہیں کیے جاتے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ کھلاڑی اپنے طور پر پروان چڑھتے ہیں اور اپنے طور ہی پر کھیلتے ہیں۔ ایسے میں اُنہیں کنٹرول کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ یوں بھی اب آپشنز بہت ہیں۔ اگر کسی کو قومی کرکٹ ٹیم میں جگہ نہ ملے تو دنیا بھر میں خالص کمرشل کرکٹ ہو رہی ہے۔ اِس آپشن سے استفادہ کرنے میں کوئی دیر نہیں لگاتا۔
جب ہمارے کرکٹرز کسی ٹیم کو دُھول چٹانے پر آتے ہیں تو اُس کا مرتبہ نہیں دیکھتے اور ایسی مار مارتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ اور اگر یہی کرکٹرز دنیا کو مزید حیران کرنے کی ٹھان لیں تو کسی معمولی سی ٹیم سے بھی اِس طور ہارتے ہیں کہ کسی کو یقین نہیں آتا۔ چار پانچ سال میں پاکستانی ٹیم جن بڑے میچوں میں شریک ہوئی ہے اُن کے نتائج کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ بیشتر معاملات میں خاصی لاپروائی اور لا اُبالی پن کا مظاہرہ کیا گیا۔ ایسے میں شکست سے دوچار ہونا ہی تھا۔ دوسری طرف بعض ایسے میچ بھی ہم جیتنے میں کامیاب ہوئے جن کے جیتنے کی گنجائش برائے نام بھی نہیں تھی۔ 2014ء کے ایشیا کپ کے سیمی فائنل میں شاہد آفریدی نے آخری اوور میں روی چندر اشون کی دو گیندوں پر دو چھکے لگاکر میچ بھارت کے جبڑوں سے چھینا تھا۔ یہ میچ پوری قوم کو ایسی خوشی سے سرشار کرگیا کہ دو دن بعد سری لنکا کے ہاتھوں فائنل میں شکست کا سامنا ہوا تو کسی نے پوچھا ہی نہیں کہ ایسا کیسے ہوا!
2017ء میں سرفراز احمد کی قیادت میں کرکٹ چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ کے فائنل میں بھی بھارت کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ شاید اُن گنے چنے میچوں میں سے تھا جن میں پوری ٹیم نے اچھا کھیل پیش کیا یعنی فتح کسی ایک کھلاڑی کے جنون کا نتیجہ نہ تھی۔ اِس کے بعد کئی میچ پاکستان نے اس طور جیتے کہ سب نے مل کر ہارنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی مگر کسی ایک کھلاڑی کی انفرادی پرفارمنس سے شکست ٹل گئی۔ چار‘ پانچ سال سے افغانستان کی ٹیم بھی مختلف مواقع پر پاکستان کو مشکلات کا شکار کرتی آئی ہے۔ کیا واقعی افغانستان ایسی ٹیم ہے کہ پاکستان کو مشکلات کا شکار کرسکے؟ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ افغان ٹیم میں خاصے باصلاحیت کھلاڑی پائے جاتے ہیں۔ انڈین پریمیئر لیگ میں کھیلنے سے اُنہیں اچھا ایکسپوژر بھی ملا ہے اور اُن کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوا ہے۔ پھر بھی یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ پاکستان کسی بھی اعتبار سے ایسی ٹیم نہیں کہ افغانستان کے سامنے الجھن محسوس کرے۔ مگر قربان جائیے اپنے کرکٹرز کے‘ جو افغانستان جیسی ٹیم کو بھی میچ دینے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 2018ء کے ایشیا کپ کے ایک میچ میں افغانستان کے ہاتھوں شکست سے ہمیں شعیب ملک کے تجربے نے بچایا تھا۔ اِس کے بعد 2019ء میں آئی سی سی ورلڈ کپ کے میچ میں عماد وسیم نے آخری اوور میں چوکا جڑ کر افغانستان کو دُھول چٹائی تھی۔ گزشتہ برس آصف علی نے آئی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے میچ میں افغانستان کے خلاف انیسویں اوور میں چار چھکے لگاکر شاندار فتح دلائی تھی۔ یہ معاملہ بھی ''اللہ بیلی‘‘ والا تھا۔ اگر آصف علی کا بیٹ نہ چل پاتا تو میچ ہاتھ سے گیا تھا۔
ہم شکست سے بچتے رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ٹیم ورک کہاں ہے۔ پوری ٹیم کیوں نہیں کھیلتی؟ کبھی کوئی چلتا ہے اور کبھی کوئی۔ اس بار آئی سی سی ٹی ٹونٹی ایشیا کپ کے سپر فور راؤنڈ کے میچ میں بھارت کے خلاف ٹیم نے مجموعی طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا مگر دو ہی دن بعد افغانستان سے مقابلے میں پھر وہی کیفیت در آئی جو ایسے مواقع پر نمودار ہو ہی جاتی ہے۔ ہماری بیٹنگ لائن تنکوں کی طرح بکھر گئی۔ اِس بار جوش و خروش بلکہ جنون کی بدولت توقیر نسیم شاہ کے نصیب میں لکھی تھی۔ جب میچ مکمل طور پر ہاتھ سے جاچکا تھا، سٹیڈیم میں بیٹھے پاکستانی تماشائیوں اور پاکستان میں کروڑوں شائقین پر مایوسی طاری ہوچکی تھی اور یہ سوچ لیا گیا تھا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا تب نسیم شاہ نے آخری اوور کی پہلی دو گیندوں پر دو چھکے لگاکر پاکستان کی کشتی کو پار لگادیا۔ نسیم شاہ راتوں رات قومی ہیرو بن گئے۔ قوم نے اِس نوجوان کی راہ میں پلکیں بچھادیں۔ یہاں بھی معاملہ یہ تھا کہ نسیم شاہ چل گئے تو بات بن گئی ورنہ صفِ ماتم کے بچھنے میں دیر نہ تھی۔
عین وقت پر جاگنے اور پانی سر تک آ پہنچنے پر ہوش میں آنے کا ہمارا مزاج کب بدلے گا؟ ہم اپنے کرکٹرز کو یہ بات کب سکھائیں گے کہ کسی ایک فرد کی کارکردگی پر زیادہ بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ جیتنے کے لیے سب کو مل کر کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے۔ اجتماعی کارکردگی اچھی ہو تو فتح قابلِ رشک انداز سے ہاتھ لگتی ہے۔ عین وقت پر جاگنے کا مزاج پوری قوم کی نفسی ساخت میں سرایت کرچکا ہے۔ جب کوئی معاملہ پورے کا پورا ہاتھ سے جارہا ہوتا ہے تب اچانک کوئی ایک چیز چل جاتی ہے اور ہم ناکامی کے منہ سے نکل آنے والی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ کچھ کر دکھانے کی یہ روش کسی بھی طور لائقِ تحسین نہیں۔ کچھ بھی کر دکھانے کے لیے ذہن سازی اور منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ وہی لوگ ڈھنگ سے کام کر پاتے ہیں جو ایک خاص طریق اپناکر اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاتے ہیں۔ کوئی بھی کام اِس تصور کی بنیاد پر نہیں کیا جانا چاہیے کہ کسی نہ کسی طور بات بن جائے گی۔ ایسے میں اگر کامیابی مل بھی جائے تو دیرپا نہیں ہوتی اور زیادہ اظہارِ مسرت کی گنجائش بھی پیدا نہیں ہوتی۔ عین وقت پر جاگنے اور ہڑبڑاکر کچھ کر گزرنے کی عادت کے سہارے زندگی ڈھنگ سے بسر نہیں کی جاسکتی، نہ انفرادی سطح پراور نہ ہی اجتماعی سطح پر۔